رینٹ اے پرائم منسٹر

پاکستان کو پچیسواں یعنی سِلور جوبلی وزیر اعظم مبارک ہو۔ وزیر اعظم کے ساتھ ”جوبلی“ کا لفظ عجیب لگتا ہے۔ اب اِس قوم کے مقدر میں jubilation برائے نام بھی نہیں رہی۔ ایسے میں کسی کی آمد پر جوبلی منانا عجیب ہی لگتا ہے۔ مگر خیر، ”زندہ“ اور ”پائندہ“ اقوام کے ایسے ہی اطوار ہوا کرتے ہیں!

میڈیا نے شور مچایا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے سر پر ہُما بیٹھ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہُما کو بٹھایا گیا ہے! یوسف رضا گیلانی نے وزارتِ عظمٰی کی قیمت ادا کی یعنی پارٹی کے نام پر قیادت سے وفاداری نِبھادی۔ کوئی کچھ بھی کہے، ایک گَدّی نشین نے وفاداری کی گَدّی پر بیٹھنا قبول کیا۔ نام بدنام ہو تو ہو، بڑوں پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِسے کہتے ہیں وفاداری بہ شرطِ اُستواری! غالب کے بیان کردہ اُصول آج تک کام آ رہے ہیں!

پورا ملک ایڈہاک ازم کی بُنیاد پر چل رہا ہے مگر پیپلز پارٹی نے نئی ریت متعارف کرائی ہے۔ adhocism سے ایک قدم آگے جاکر اُس نے add-hawk-ism کو اپنایا ہے!

لوگ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے بعد صدر زرداری کے لیے پارٹی میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ”موزوں“ شخص تلاش کرنا بہت دُشوار ثابت ہوا ہوگا۔ یہ بجائے خود لطیفہ ہے۔ صدر زرداری کو کون سی زندگی بھر کی یاری نِبھانی ہے۔ دو تین ماہ نکالنے ہیں۔ اِس کے بعد الیکشن کی بہار ہوگی اور نئے چہروں کی فصل اترے گی!

راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ نیب تفتیش بھی کرچکی ہے۔ مگر اب جبکہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں تو یہ الزامات یقیناً تمغوں کا روپ دھار چکے ہیں! وہ پانی اور بجلی کے وزیر تھے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دہراتے نہ تھکتے تھے اور لوگ اُنہیں اِسی حوالے سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور پروجیکٹس میں کرپشن کا الزام لگا اور پانی و بجلی کی وزارت اُن سے لے لی گئی۔ مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ راجہ پرویز اشرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں بالآخر کامیاب ہو ہی گئے۔ وہ ایسے کہ اُن کے اپنے مُقدّر کا اندھیرا چھٹ گیا ہے! رینٹل پاور پلانٹس سے قوم کو بجلی نہ مل سکی مگر خود راجہ پرویز اشرف پاور فُل ہوکر سامنے آئے ہیں!
لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دیتے دیتے راجہ پرویز اشرف خود وزارتِ عظمٰی کے ڈیڈ اینڈ تک پہنچ گئے! قوم کو وزیر اعظم منتخب کرنے کا نیا معیار مبارک ہو۔
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا!

جو جس قدر ناکام ہے وہ اُسی قدر کامیاب ہے! یعنی وزیر بن کر کچھ نہ کر پاؤ تو وزیر اعظم بن جاؤ! صدر زرداری نے ایک نئی ریت یہ ڈالی ہے کہ کم از کم وزیر اعظم منتخب کرنے کا مسئلہ تو ہمیشہ کے لیے حل کردیا ہے۔ اب کسی کو بھی وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے!

یوسف رضا گیلانی کے چار سال یوں گزرے ہیں کہ قوم جاں سے گزر گئی ہے۔ دیکھیے کہ اب راجہ صاحب کی رعایا کا کیا بنتا ہے! قوم کو مُژدہ ہو کہ غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں کی منزلیں بہت پیچھے رہ گئیں۔ ہم جمہوریت کی شاہراہ پر اِتنی دور نکل آئے ہیں کہ واپسی کا تصور بھی محال ہے! چار برسوں میں کیفیت کچھ یہ رہی ہے کہ
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو!

ایک مخدوم کو رخصت کیا گیا تو دوسرے کی باری آتی دکھائی دی۔ مگر
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا!
کے مِصداق مخدوم شہاب الدین کی پتنگ آخری لمحات میں کَنّوں سے کٹ گئی! اللہ نے ایک گَدّی نشین کی لاج رکھ لی۔ مخدوم شہاب کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ خاک نشینی سے بچ گئے! ایفیڈرین کیس مخدوم شہاب کی نامزدگی پر شہاب ثاقب بن کر گرا! ایفیڈرین تو واقعی بہت خطرناک کیمیکل نکلا یعنی دوا میں استعمال ہوتے ہوتے خود بیماری بن بیٹھا!

شیخ رشید کہتے ہیں کہ قوم کو کسی بریکنگ نیوز کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سب کو گیلانی کا انجام معلوم تھا اور راجہ پرویز اشرف کا انجام بھی معلوم ہے۔ شیخ صاحب کی بات میں وزن ہے۔ میڈیا اور اہل سیاست کی مہربان ہے کہ اب کوئی نیوز بریکنگ نیوز نہیں رہی۔ جو کچھ بھی اچانک سامنے آتا ہے اُس کے بارے میں قوم پہلے سے جانتی ہے۔ اب کوئی ہارٹ بریکنگ نیوز تو آسکتی ہے، بریکنگ نیوز نہیں۔

ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے ایک ایسی ماہرانہ رائے دی ہے جو تقریباً ہر پاکستانی کو اچھی طرح معلوم ہے یعنی یہ کہ جلد یا بدیر (یعنی بہت جلد!) راجہ پرویز اشرف کا بھی وہی انجام ہوگا جو یوسف رضا گیلانی کا ہوا! مگر اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کئی راوی یہ بیان کرچکے ہیں۔ حکومت برقرار رکھنے کے لیے ایوان صدر میں کالے بکرے بڑی تعداد میں ذبح کئے جاچکے ہیں! ڈیڑھ دو سال قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ حکومت کے سَر پر منڈلاتی بلائیں ٹالنے کے لیے ایوان صدر میں روز ایک بکرا ذبح کیا جاتا ہے! اب بھی پیپلز پارٹی میں قربانی دینے والوں کی کمی نہیں! پارٹی کی قیادت کو ٹرائل سے بچانے کے لیے ذرا سی اونچی سطح کے کئی جیالے ٹرائل کی بُنیاد پر وزیر اعظم بننے کو تیار ہیں! کچھ دن کی حکومت اور اُس سے بھی کم کچھ دن کا رینٹ اے وزیر اعظم!

سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیر اعظم کو جرم کی سزا دی اور گھر بھیج دیا۔ پیپلز پارٹی کو نیا وزیر اعظم لانا پڑا۔ قوم سیاست کی گُتھیاں سُلجھانے کے لیے سوچ سوچ کر پاگل ہوئی جارہی ہے مگر مسلم لیگ (ن) کا پرنالہ وہیں بہہ رہا ہے۔ لوگ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کِسی انوکھے تماشے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ مگر وہ تو ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد“ کی ڈفلی پر ”پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونی چاہیے“ کا راگ ہی الاپتی رہی۔ ایک اچھا موقع پھر نہایت خوب صورتی سے ضائع کردیا گیا! مگر خیر، مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اپنا دِل چھوٹا نہ کریں، مواقع آتے رہیں گے اور ضائع کئے جاتے رہیں گے! مسلم لیگ (ن) کی قیادت تھوڑی بہت سیاست مولانا فضل الرحمٰن ہی سے سیکھ لے جو ہمیشہ رند کے رند رہتے ہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484337 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More