سربجیت کا ”آتنک“

بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر آتنک واد یعنی دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے۔ آپ سوچیں گے یہ تو فطری سی بات ہے۔ یقیناً یہ فطری بات ہے مگر صاحب! سچ یہ ہے کہ بھارت ایسے آتنک وادی تیار کرتا ہے جو ہماری جیلوں میں دو دو تین تین عشرے گزار کر بھی آتنک پھیلا رہے ہوتے ہیں! سربجیت سنگھ اور سرجیت سنگھ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

ایک دہشت گرد دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے انا کا، بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کو صرف اِس بات سے غرض رہ گئی ہے کہ یونیورسٹی کے ریٹائرڈ، پی ایچ ڈی پروفیسر ڈاکٹر خلیل چشتی کو قتل کے ایک عام سے مقدمے میں دو عشروں تک الجھائے رکھنے کے بعد اِنسانی ہمدردی کے نام پر رہا کرنے کے عوض 14 افراد کی شہادت کے ذمہ دار سربجیت سنگھ کو پاکستان سے رہائی دِلائی جائے! ہمارے ہاں انسانی حقوق کا راگ الاپتے نہ تھکنے والے بھارت نواز سیاست دان بھی رات دن حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے سربجیت سنگھ کو رہا کردیا جائے۔ گویا سربجیت جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کی ضمانت ٹھہرا!

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اندازہ تھا کہ سربجیت جیسے دہشت گرد کو چھوڑنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اِس لیے اُنہوں نے اِس معاملے میں ایڈونچرازم سے گریز کیا۔ کمانڈو طبیعت اور فطرت بھی اُنہیں عقل کی راہ سے بھٹکانے میں کامیاب نہ ہوسکی! مگر صدر زرداری کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ جب کچھ ٹھان لیتے ہیں تو بالعموم عواقب کے بارے میں سوچنا شاید گوارا ہی نہیں کرتے۔ سربجیت سنگھ کی سزا معاف کرنے اور رہائی کی ہدایت جاری کرنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ منگل کی شام ایوان صدر سے ایک بیان جاری ہوا جس میں ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر نے سربجیت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اگر وہ عمر قید کی میعاد جیل میں گزار چکا ہے تو اُسے رہا کرکے بھارت کے حوالے کردیا جائے۔ حکومت جس نازک مرحلے سے گزر رہی ہے اُس کے پیش نظر صدر سے ایسے کسی بھی اقدام کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ سربجیت سنگھ کو ملٹری کورٹ نے سزائے موت سُنائی تھی۔ اُس کی رحم کی اپیل کو پرویز مشرف نے بھی معاف کردیا تھا۔ جب ایوان صدر نے سربجیت سنگھ کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے رہائی کی ہدایت کی تو پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔ بھارت میں شادیانے بجائے جانے لگے۔ سربجیت سنگھ کے اہل خانہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بھارتی حکومت نے بھی اس خبر کا خیرمقدم کیا کیونکہ یہ بہت حد تک اس کی سفارتی فتح تھی۔ وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ سربجیت سنگھ کی رہائی دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ بھارتی میڈیا پر تجزیہ کاروں نے چڑیا اُڑانے کا مقابلہ شروع کیا! سربجیت سنگھ کی رہائی کو چھ عشروں پر محیط پاک بھارت تعلقات کا اہم ترین موڑ قرار دیا جانے لگا! سبھی اپنی اپنی ڈفلی پر فتح اور کامرانی کا راگ الاپ رہے تھے۔

پھر یہ ہوا کہ رات کے بارہ بجے اور سربجیت کے معاملے کے بھی بارہ بج گئے! اسلام آباد میں مقتدر حلقوں نے سات آٹھ گھنٹوں تک جاری رہنے والے تماشے کی بساط لپیٹی۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ مقتدر حلقوں کو متفکر ہی نہیں، متحرک بھی ہونا تھا اور وہ ہوئے! اِس تحرک کے نتیجے میں ایوان صدر کو رات سوا بارہ بجے بیان بدلنا پڑا۔ یو ٹرن لیتے ہوئے ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اعلان کیا کہ نام میں مُغالطہ ہوا ہے۔ سربجیت سنگھ کی نہیں بلکہ سرجیت سنگھ کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔ سربجیت سنگھ کی سزائے موت معاف کرنے سے ایوان صدر کا کوئی تعلق نہیں۔ فرحت اللہ بابر نے مزید وضاحت کی کہ سُرجیت سنگھ کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرکے اُس کی رہائی کے لیے ایوان صدر کو سمری بھیجی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاسوسی کے مقدمے میں سُرجیت سنگھ کو 1989 میں سُنائی جانے والی سزائے موت بے نظیر بھٹو کی سفارش پر غلام اسحاق خان نے تو معاف نہیں تاہم اُسے بعد میں اُسے معاف کردیا گیا تھا۔ اگر اُسے معافی مل ہی چکی تھی تو ایوان صدر کو منگل کی شام اُس کی رہائی کے لیے کوئی سمری بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ اِس پورے معاملے سے تو ایوان صدر کا کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ یہ تو ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے والی بات ہوئی۔
کیا پاکستان کے عوام اِتنے بھولے ہیں کہ یہ فرض کرلیں کہ ایوان صدر کو سات گھنٹوں تک سربجیت اور سُرجیت کے فرق کا اندازہ نہ تھا؟ میڈیا پر لوگ چیخ رہے تھے کہ سربجیت کو بھارت کے حوالے نہ کیا جائے۔ بھارت نواز عناصر یہ دلیل دے رہے تھے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ 100 قتل کرکے بھی دندناتے پھرتے ہیں تو پھر (صرف) 14 افراد کے قاتل کو رہا کرکے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کیوں نہ کی جائے! اگر تعلقات بہتر بنانے کی یہی ایک صورت ہے تو بھارت سے بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو مدعو کرکے وارداتیں کروائی جائیں اور پھر اُنہیں باعزت بری کرکے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا جائے! بین الاقوامی قوانین میں ترامیم کے ذریعے کسی بھی بڑے ملک کا چھوٹے ہمسائے پر اِس قدر حق تو تسلیم کراہی لینا چاہیے!

بظاہر مقتدر حلقوں کے دباؤ پر اور عوامی و سیاسی سطح پر ممکنہ ردعمل کے خوف سے ایوان صدر کو سربجیت سنگھ کی معافی و رہائی کا حکم نامہ واپس لینا پڑا مگر لازم تھا کہ معاملے کو مُغالطے کے کھاتے میں ڈالا جاتا۔ یہ سمجھ لیجیے کہ نام کی مماثلت سے سُرجیت سنگھ کی لاٹری نکل آئی! کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سربجیت سنگھ کے نام پر بجائے جانے والے شادیانے سُرجیت سنگھ کے کھاتے میں ڈَل جائیں گے! سات آٹھ گھنٹے گزر جانے پر سربجیت کو سُرجیت سنگھ میں تبدیل کرنے کا یہ ناٹک میڈیا کے لیے تو قدر پُرکشش ہوسکتا ہے مگر ہم دُنیا کی آنکھوں میں دُھول نہیں جھونک سکتے۔ سربجیت سنگھ کی مہربانی کہ وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی دھماکے کر رہا ہے اور اِن دھماکوں سے ہمارے ایوان ہائے اقتدار میں بہت کچھ گر رہا ہے، تباہی سے دوچار ہو رہا ہے! ایک بات تو عوام کی سمجھ میں بھی آ ہی گئی ہوگی کہ ایوان صدر اب ہر معاملے میں اپنی مرضی کی راہ پر گامزن ہونے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ نیٹو رسد کے معاملے پر بھی مقتدر حلقوں نے بات منوائی ہے۔ سربجیت سنگھ کے معاملے میں سات آٹھ گھنٹوں بعد یو ٹرن اِس امر کا غَمّاز ہے کہ ملک میں طاقت کا توازن کِسی حد تک تبدیل ہوچکا ہے! سربجیت کو رہا کرنے کے بجائے اُس کے نام پر سیاسی دکان چمکاتے رہنے ہی میں دانش مندی ہے! بھارتی قیادت بھی تو یہی کر رہی ہے۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484323 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More