پاکستان میں مذہبی قوتوں کا سیاسی مستقبل

پاکستان میں مستقبل کی سیاسی صف بندی گزشتہ کئی ماہ سے جاری تھی، لیکن 22 جون کو وزیراعظم راجاپرویز اشرف کے انتخاب کے موقع پر صورت حال اورزیادہ واضح ہوگئی،جس سے مستقبل کے سیاسی انتخابی خاکے کا اندازہ لگانابھی آسان ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب میں تمام حکومتی جماعتیں اور گروپ متحد ومنظم نظر آئے۔یہ الگ بات ہے کہ ہر جماعت اور گروپ نے بھرپور مفاد حاصل کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی بھی کوشش کی۔ یوں 338 میںسے وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو 211 ووٹ ملے اور ان کے مد مقابل اپوزیشن مسلم لیگ( ن) کے امیدوار سردار مہتاب عباسی کو 89 ووٹ ملے۔جب کہ تیسرے امیدوار جمعیت علماءاسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آخری وقت میں کاغذات واپس لے لیے،تاہم پہلی مرتبہ جمعیت علماءاسلام نظریاتی نے بھی مولانا فضل الرحمن کے فیصلے کی کھل کر تائید کی جس سے امید ہے کہ مستقبل میں قربتیں اور بڑھےںگی۔
مسلم لیگ ن اور جمعیت علماءاسلام کے درمیان تفریق سے یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ حکومت مخالف قوتیں نہ صرف ایوان کے باہر بلکہ اندر بھی تقسیم ہیں۔ ایوان سے باہر اپنے آپ کو اپوزیشن قرار دینے والی جماعت اسلامی،تحریک انصاف اور دیگر متحد ہونے کے دعوﺅں کے باوجود اب تک تنہا پرواز میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ یہ صدر زرداری اور ان کے اتحادیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ایوان کے اندر اور باہر ان کے مخالف نہ صرف فی الوقت منتشرہیں، بلکہ مستقبل قریب میں بھی متحد ہوتے نظر نہیں آرہے ۔اگرچہ28 جون کو جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مابین ملاقات سے یہ تاثردینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں جماعتیں مستقبل میں مشترکہ پلیٹ فارم کے حوالے سے کوشاں ہیں، لیکن ایسا ہوتامشکل دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم دونوں جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہوسکتی ہے، جس کا دائیں بازو کو شاید زیادہ فائدہ نہ ہو ۔ ماضی کے8 الیکشنوں کا جائزہ لیا جائے تودائیں بازو کی چند جماعتوں کے اتحاد کافائدہ بائیں بازو کی قوتوں کو ہی ہوا ہے۔

جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا شمار دائیں بازو میں کیا جاتا ہے (حالاں کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنی جماعت کو کلی طور دائیں بازو میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں،کیوں کہ ایسی صورت میں مغربی اورروشن خیال قوتوں کی ناراضی کا خدشہ ہے)۔ صرف ان دونوں جماعتوں کے اتحاد میں بائیں بازو(صدر زرداری اور ان کے اتحادیوں) کے لیے نفع، جب کہ نقصان دائیں بازو( مسلم لیگ( ن) اور جمعیت علماءاسلام) کا ہوگا۔بعض مبصرین سید منور حسن اورعمران خان کی حالیہ ملاقات کو مسلم لیگ( ن) اور تحریک انصاف کو قریب لانے کی جماعت اسلامی کی کوشش قرار دے رہے ہیں،یہ بات کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ دونوں جماعتوں کے ایک بڑے حلقے میںمولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں سے شدید اختلاف مشترکہ نکتہ ہے ۔اگرچہ تحریک انصاف اپنے آپ کو مسلم لیگ( ن) کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے نشانے پر پیپلزپارٹی سے زیادہ مسلم لیگ( ن) ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کی قیادت کو ادراک ہے کہ مستقبل کی سیاست میں اگر تمام مذہبی قوتیں ایک پیلٹ فارم پر جمع نہ ہوئیں تو پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) میں سے کسی ایک سے اتحاد کے بغیر کامیابی مشکل ہوگی اور ایسی صورت میں دائیں بازو کے لیے مسلم لیگ( ن) کا ہی انتخاب کرنا پڑے گا۔اسی پر جماعت اسلامی کی قیادت عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی کوشش اسی طرح جاری رہی تو بہت جلد مسلم لیگ( ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے قریب ہوں گی۔

دوسری جانب عوام کی اکثریت گزشتہ کئی برس سے متحدہ مجلس عمل کے احیاءیا پھر اس جیسے کسی اورمذہبی یا دائیں بازو کے اتحاد کی خواہش مند ہے، لیکن افسوس کہ اس طرح کے کسی بھی اتحاد میں اصل رکاوٹ جمعیت علماءاسلام اور جماعت اسلامی ہی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے خول میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد مذہبی اتحاد کے قیام میں مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں اور سید منور حسن کے سخت لب ولہجے کو رکاوٹ ٹھہراتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ ان کے اس انتشار کا نتیجہ مستقبل میں کیا نکلے گا۔اگر ماضی کا ہی جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مذہبی اور نظریاتی ووٹ تقسیم ہوگا جس کا نتیجہ مغرب نواز قوتوں کی کامیابی ہی ہوگا۔

جماعت اسلامی، مسلم لیگ( ن) اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مناسب نشستیں حاصل بھی کر لے تو اس کی حیثیت تیسرے درجے کی ہوگی اور جمعیت علماءاسلام بھی اسی درجے میں ہوگی ۔بظاہر دونوں جماعتوں بالخصوص مرکزی قائدین کے درمیان اس حد تک دوریاںپیدا ہو چکی ہیں کہ اب وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ،جو یقینا مذہبی قوتوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہے ۔ غالباً اسی کومحسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت علماءپاکستان نے مستقبل کے حوالے سے اپنی راہیں متعین کرنے کا نہ صرف فیصلہ کرلیا ہے بلکہ کسی حد تک راستے کا انتخاب بھی کیا ہے۔جس سے دفاع پاکستان کونسل یا ملی یکجہتی کونسل کوانتخابی اتحاد بنانے کی کوشش بھی ناکامی سے دوچارہوتی نظر آتی ہے۔
مذہبی اتحاد کے قیام میں ناکامی کے بعد ہی جمعیت علماءپاکستان نے مسلم لیگ( ن) سے رابطے بڑھائے اور اب دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد ہوتا نظر آرہا ہے۔اسی طرح جماعت اسلامی اور مسلم لیگ( ن) کے درمیان اتحاد کے لیے کوششیں بھی اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ اب متحدہ مجلس عمل کا احیاءیا اس طرح کا کوئی نیا اتحاد بننا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جمعیت علماءپاکستان اورمسلم لیگ( ن) بہت قریب آچکی ہیں۔ جب کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پہلے ہی مسلم لیگ( ن) کی اتحادی ہے۔ اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں قائم دفاع پاکستان کونسل اور اس میں شامل بیشتر جماعتوں کی ہمدردیاں بھی مستقبل کی سیاست میں مسلم لیگ( ن) کے پلڑے میں جانے کا قوی امکان ہے۔ ایسے میںشاید جماعت اسلامی کے لیے بھی مسلم لیگ( ن) سے اتحاد نہیں تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حد تک مفاہمت ضروری ہوگی۔شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک طرف مسلم لیگ( ن) سے رابطے بڑھا رہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف سے اتحاد یا انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اگر مسلم لیگ( ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علماءپاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں دفاع پاکستان کونسل کی ہمدردیاں حاصل یا کوئی وسیع اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو یقیناً اس اتحاد کا حکومتی اتحاد سے کانٹے دار مقابلہ ہوگا اور اس میں کامیابی بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں جمعیت علماءاسلام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ جمعیت علماءاسلام کے پاس تنہا انتخابی میدان میں کود پڑنے یا پھر صدر زرداری کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانے کے دو ہی آپشن باقی رہ جاتے ہیں اور یہ دونوں ہی آپشن اس کے لئے شدید مشکلات پیدا کر یں گے ۔
چند ہفتے قبل تک جمعیت علماءاسلام اور مسلم لیگ( ن) کے مابین تعلقات میں بہتری نظر آرہی تھی، لیکن وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر تضادات اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں نے دونوں میں مزید خلیج پیدا کردی ہے۔ اس میں قصورکسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ دونوں ہی جماعتوں کا ہے۔ ایک طرف جہاںمولانا فضل الرحمن اپنے آپ کو سیاسی میدان کا ماہر سمجھ کر سیاسی داﺅ پیچ کے نت نئے طریقے استعمال کررہے ہیں تو وہیں اصولی سیاست کے نام پر مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی اپنی انا سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید یہ ان کی انا ہی تھی جس نے صدر زرداری کو اتنی قوت بخشی۔ وزیراعظم کے حالیہ انتخاب کو ہی مدنظر رکھا جائے تو صورت حال واضح ہوجاتی ہے ۔حکومتی امیدوار کو211وٹ ملے،جس میں آئینی ضرورت کے مقابلے میں صرف 39 ووٹ اضافی ہیں۔ جب کہ وزیراعظم کو ملنے والے ووٹوں میں 41 ووٹ مسلم لیگ ق کے تھے۔ اگر مسلم لیگ( ن) کی قیادت ماضی میں غلطیاں نہ کرتی تو آج زرداری اور ان کی حکومت باقی اتحادیوں کو ملا کر بھی اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی۔

مستقبل میں اگرچہ مسلم لیگ ق کے مزید حصے بخرے ہونے والے ہیں اور اس کی اکثریت متوقع انتخابات میں مسلم لیگ( ن) یا تحریک انصاف کا رخ کر چکی ہوگی۔ اس کے باوجود یہ جماعت آیندہ انتخابات میںمسلم لیگ ن اور دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں نقصان اور پیپلز پارٹی کے لیے فائدے کا باعث بن سکتی ہے۔ متوقع عام انتخابات کے حوالے سے مجموعی صورت حال کو مد نظر رکھا جائے تو بظاہر دائیں بازو بالخصوص مذہبی جماعتوں کا مستقبل زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.