پتلون پہننے کا کوئی اور فائدہ
ہو نہ ہو کم از کم ایک فائدہ ضرور ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص
ناڑے (آزار بند) کا ڈھیلا ہے۔ ناڑے کا فائدہ ہی یہ ہے کہ یہ ہر قسم کے پیٹ
پر پورا آسکتا ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ زیرِ استعمال پیٹ
نارمل ہے یا پاپی ہے۔ ویسے بھی اکثر لوگ اپنی خرابیوں کو پا پی پیٹ کے پیٹے
میں ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے لوگ عمومی طور پر یہ کہتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں یار میں تو حرام کے قریب بھی نہ جاتا بس پاپی پیٹ کے لئے
یہ سب کرنا پڑتا ہے۔
دلدار بھٹی مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ شلوار قمیض نے پوری قوم کو ’اَن
سمارٹ‘ کردیا ہے‘ کھاتے جائیں‘ پیٹ بڑھاتے جائیں اور ناڑا ڈھیلا کرتے جائیں‘
جبکہ اگر کوئی شخص پتلون زیب تن کرنے کا شوقین ہو تو اس کی بیلٹ لمحہ لمحہ
اس کے پیٹ کی بڑھتی ہوئی ناجائز تجاوزات کی نشاندہی کرتی ہے۔ انسان اگر ان
”کاشنز“ کا کوئی اثر نہ لے اور اپنی عادات تبدیل نہ کرے تو بہت جلد اسے
پینٹ اور بیلٹ دونوں تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیلٹ کے ساتھ یہ
تفریق بھی ختم ہوتی جاتی ہے کہ بندہ کس بیلٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ موٹوں کو ہر
ریجن اور ہر بیلٹ میںموٹا ہی کہا جاتا ہے گویا موٹے لوگ اپنی ذات برادریوں
سے نکل کر موٹی برادری‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔شاید اسی لئے کھاتے پیتے اور
امیر لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت موٹی آسامی ہے۔
جس طرح کھسرا (ہیجڑا)سڑک پر دو قدم نہیں چل سکتا اور اس کی کسی نہ کسی کے
ساتھ چھیڑ خانی کی و جہ سے منہ ماری ہو جاتی ہے اسی طرح ایک وقت تھا اگر
کوئی دیہاتی لڑکا شہر جا کر ذرا ماڈرن ہو کر پتلون زیب تن کرکے گاﺅں لوٹتا
تو اس سے انسان تو کیا جانور بھی بدکنا شروع ہوجاتے۔ اسے دیکھ کر بچھڑے
رسیاں تڑوا لیتے تو کتے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ اور تو اور
گاﺅں کی بڑی بوڑھیاں بھی منہ کو اپنے دوپٹے کے پہلو سے ڈھانپ لیتی اور
کہتیں ’ہائے ہائے اوترا کیہ پا کے آگیا اے‘۔ گویا کسی بھی دور میں لال
دھاری لُنگی سے پتلون تک کا سفر آسان نہیں رہا۔
حال ہی میں ملک کے بعض دفاتر میں کلاس فور سمیت تمام ملازمین کے لئے پینٹ
اورشرٹ پہننے کی پابندی عائد کی گئی تو ایسے لوگ جن کی ساری عمر دوسروں کی
پینٹوں کو ہدف تنقید بناتے گزری ہے خود اسے پہننا پڑا۔ ایک بزرگ اور بھاری
بھرکم نائب قاصد نے تو اپنی پتلون کی لُپیوں والی جگہ کو فولڈ کرکے اسے
نیفے‘ کی شکل دے کر اس میں ’ناڑا‘ ڈالا ہوا تھا۔ ظاہر ہے جس کی ساری عمر
ناڑا کھولتے اور بند کرتے گزری ہو وہ یکا یک ناڑے سے کیونکر چھٹکارا حاصل
کرسکتا ہے۔
گویا ناڑے سے لوگوں کو ہمیشہ سے بہت شغف اور قربت رہی ہے۔ اسی لئے کسی
مسافر وین میں سفر کرنے والے شخص نے کنڈیکٹر کی زبان سے سنا کہ گندے نالے
والے اترجائیں تو وہ جمپ لگا کر ویگن سے اتر گیا۔ ظاہر ہے کسی سواری کے
ناڑے کے گندے ہونے کی بارے میں کوئی دوسرا بندہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا
سواری خود ہی کوئی فیصلہ کرتی ہے۔ ماضی میں تو بعض لوگ شلوار پہننے کو بھی
معیوب گردانتے تھے اُن کے نزدیک دھوتی کا استعمال فطرت کے زیادہ قریب ہے۔
گرمیوں میں مچھر لڑتے تو متاثرین وہی دھوتی چادر کی مانند اپنے اوپر اوڑھ
لیتے۔ گویا دھوتی سردی گرمی‘ خشکی‘ پانی اور صحرائی ہر قسم کے ماحول کے لئے
یکساں مفید رہی ہے گرمیوں میں دھوتی گیلی کرکے باندھ لیں تو وہ ایک ایئر
کولر کا کام دیتی۔ جبکہ پانی سے گزرتے ہوئے یہ انسان کے اپنے اختیار میں
ہوتا کہ وہ کس طرح دھوتی کو بغیر گیلا کئے ندی یا نالے کو پار کر جائے۔
صحرا میں تو دھوتی سے زیادہ کارآمد کوئی لباس نہیں کہ تیز آندھی اور جھکڑ
کی صورت میں آنکھوں کو گرد اور ریت سے بچانے کے لئے اپنی ہی دھوتی سے اپنی
آنکھوں کو ڈھانپا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے آنکھیں جسم کے باقی حصوں کی بہ نسبت
زیادہ نازک ہوتی ہیں انہیں سب سے پہلے بچانا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت میں تو
کوئی پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے اپنی دھوتی یا تہمد کو اگلی طرف سے باندھ
رکھا ہے یا پچھلی جانب سے۔ بس اتنا ضرور احساس ہوتا ہے کہ انسان نے کچھ
پہنا ہوا ہے۔ کسی بھی انسان کی سادگی کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ اس نے
کچھ نہ کچھ پہنا ہوا ہو۔ بحران کے دور میں تو چار گرہ کپڑے کی اہمیت بھی
بہت بڑھ جاتی ہے۔
ہائے اس چارگرہ کپڑے کی قیمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
بہرکیف گریبان کی حد تک تو ٹھیک اگر معاملہ دست و گریباں تک پہنچ جائے تو
پھر دھوتی ایک ’سیکورٹی رسک‘ بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں پتلون ایک
آہنی دیوار کی طرح آپ کی حفاظت کرتی ہے۔ آج کل تو جس جس قماش کی پینٹیں
پہنی جارہی ہیں انہیں کوئی دوسرا تو کیا خود پھاڑنا بھی آساں نہیں ہوتا۔
اسی لئے بعض لڑکوں نے اپنی جینز کو جگہ جگہ سے بلیڈ مار کے چھلنی کیا ہوتا
ہے۔ مکمل وہ بھی نہیں پھاڑ سکتے۔ گویا اس قسم کی ڈھیٹ نسلی جینز کو صرف اور
صرف محاورتاً ہی پھاڑا جاسکتا ہے کسی انسان کا بنایا ہوا کوئی ہتھیار اس پر
کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ جینز جتنی گندی ہو اُتنی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ بڑی
ہوئی شیو‘ اُلجھے ہوئے بال‘ بے ربط گفتگو کے ساتھ جتنی جینز اُٹھتی ہے کوئی
اور چیز سوٹ نہیں کرتی۔ گندی جینز اور گندے بندوں کو بعض معاشروں میں حیرت
انگیز طور پر پذیرائی ملتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی اب کچھ کچھ
ایسا ہونے لگا ہے۔ شریف لوگ تو شلوار قمیض میں ہوں یا پینٹ شرٹ میں منہ
چھپاتے پھرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی حالت زار پر چھپ چھپ کر روتے ہیں۔ انہیں
کندھا دینے والا کوئی نہیں۔ وہ کسی ایسے شخص کے متلاشی ہیں جو چاہے برمودہ
پہنے یا پینٹ شرٹ شلوار پہنے یا دھوتی کرتا لیکن ہو ان کا خیرخواہ کہ
معاشرے میں خیر نیتوں اور مثبت اعمال سے پھیلتا ہے کسی ڈریس کو ڈسے نہیں! |