بے وقوف بنانے کا فن تو کوئی
گوروں سے سیکھے۔ کسی بھی معاملے کو کاروباری رنگ دینا اِن کے بائیں ہاتھ کا
کھیل ہے۔ اربوں، بلکہ کھربوں میل دور بسی ہوئی کہکشاں کے سِتارے بھی گوروں
نے فروخت کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اگر آپ کِسی ستارے کو اپنے یا کسی پیارے سے
موسوم کرنا چاہتے ہیں تو ادائیگی کیجیے اور ستارہ آپ کا ہوا!
اب خیال آیا ہے کہ ستارے تو بہت دور ہیں اور کِسے معلوم کہ وہ ہیں بھی یا
نہیں۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ ستارہ تو لاکھوں سال پہلے ختم ہوچکا ہو، اب تک
صرف اُس کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہو! ایسے میں بہتر یہ ہے کہ قریب ترین
فلکی وجود یعنی چاند کو ٹھکانے لگایا جائے۔ لیجیے، چاند کی شامت یوں آئی ہے
کہ برطانیہ کی ایک کمپنی نے چاند کی سیر کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ آسمان پر
(پرائی یعنی سورج کی روشنی کا سہارا لیکر) چمکنے والے چاند کی سیر کرنی ہے
تو نکالیے دس کروڑ پاؤنڈ! اِتنا ”سَستا“ ٹکٹ آپ کو اور کہاں ملے گا؟
برطانوی کمپنی ایکس کیلیبر الماز نے سابق سوویت دور کے ایک اسپیس شپ لانچنگ
سینٹر کو لیز پر لیا ہے۔ امریکی عملے کی مدد سے چاند کی سیاحت کا اہتمام
کیا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی سوویت دور کی استعمال ہوگی۔ چیٹنگ ملاحظہ فرمائیے
کہ تنصیب اور ٹیکنالوجی سوویت دور کی ہوگی، عملہ امریکہ سے آئے گا اور
کمپنی کی مشہوری برطانیہ کے کھاتے میں! اور مزید چیٹنگ یہ ہے کہ دس کروڑ
پاؤنڈ ادا کرکے چاند کی سطح پر قدم رکھنا نصیب نہ ہوگا۔ خلائی جہاز چاند کے
مَدار میں داخل ہوگا، تین چار چَکّر لگائے گا اور اِس کے بعد .... ختم شد
واپسی!
شریف امروہوی ہمارے دیرینہ رفیق ہیں۔ اُنہوں نے جب یہ خبر سُنی تو گوروں پر
خالص امروہوی انداز سے لعن طعن کرنے لگے۔ ہم نے عرض کیا گورے اب لعن طعن کی
منزل سے آگے جاچکے ہیں! بے وقوف زندہ ہیں تو عقل مندوں کی روزی روٹی چلتی
رہے گی۔ شریف امروہوی صاحب نے اِس بات سے مکمل اتفاق کیا۔ اُن کا استدلال
یہ تھا کہ دس کروڑ پاؤنڈ میں چاند کی محض فضائی سیر سراسر گھاٹے کا سودا
ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ جمال گھوٹے کا سودا ہے! یعنی جس کی جیب حرام کے
مال سے بھری ہو اور پیٹ میں خواہ مخواہ درد اٹھ رہا ہو وہ دس کروڑ پاؤنڈ
اپنے شوق کی بھٹی میں جھونکے اور چاند کا تماشا دیکھنے کے نام پر دُنیا کو
اپنا تماشا دِکھائے!“
شریف امروہوی صاحب کا تعلق، ظاہر ہے، امروہہ سے ہے۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ
کوئی امروہہ سے تعلق رکھتا ہو اور شعر و ادب سے بے بہرہ ہو! شریف صاحب کو
چاند پر ترس آتا ہے۔ چاند پر بہت سے گڑھے ہیں مگر سب سے بڑا گڑھا (بدنامی
کا) وہ ہے جس میں شُعراءنے اَن شنٹ خیالات کے ذریعے چاند کو دھکیل دیا ہے۔
بے چارہ کِسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں رہا اِسی لیے ہر پندہ دن بعد شکل
گم کرلیتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے، چُھپتے چُھپاتے اور بچتے بچاتے، اپنے آپ
کو بے نقاب کرتا جاتا ہے! شریف صاحب حیران ہیں کہ چاند میں آخر ایسا کیا ہے
کہ اُردو کے تقریباً تمام شُعراءہاتھ دھوئے بغیر اُس کے پیچھے پڑگئے ہیں!
بے چارے کے لیے سُکون کا سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ سِتم ظریفی کی انتہا تو
یہ ہے کہ محبوب کے مُرجھائے ہوئے پھول جیسے چہرے کو بھی چاند سا قرار دینے
سے گریز نہیں کیا گیا! 1969 میں جب امریکہ نے چاند پر اِنسان بھیجنے کا
اعلان کیا تو پاکستان میں ایک فلمی گانا ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے۔
سُنا ہے چاند پر اِنساں رہیں گے
وہیں ہم تم اے جان جاں! رہیں گے
سُنا ہے اِس عزم و اعلان پر چاند سہم گیا تھا اور اُس کے اماوس کی میعاد
بڑھ گئی تھی! چاند کو موضوع بناکر ایسے ایسے مضامین باندھے گئے ہیں کہ اگر
اللہ چاند کو اُردو پڑھنے کی صلاحیت سے نوازے تو وہ اپنے بارے میں کہے جانے
والے اشعار پڑھ کر ایسا شرمندہ و ہراساں ہو کہ کِسی اور کہکشاں کی طرف بھاگ
نِکلے!
شریف صاحب کا بنیادی اعتراض اِس بات پر ہے کہ لوگ عاشقی معشوقی کے حوالے سے
دُنیا بھر کے بے ڈھنگے خیالات اپنے ذہن کی کھیتیوں میں اُگاتے ہیں اور فصل
کاٹنے کے لیے چاند کو درانتی بنالیتے ہیں! جو چاند ہمیں ٹھنڈی روشنی
عطاءکرتا ہے اُس کے وجود کو ہم اپنے عامیانہ معشوقی آمیز خیالات کی گرمی
میں لپیٹ دیتے ہیں! ہم نے شریف صاحب کو سمجھایا کہ اگر دُنیا چاند کے بارے
میں آپ کے خیالات تسلیم کرلے تو سارے کام ٹھپ ہو جائیں۔ نہ کوئی شعر کہہ
پائے، نہ کِسی کے دِل میں عشقیہ جذبات پیدا ہوں اور نہ ہی کِسی کے ذہن میں
خلائی سیاحت کا تصور اُبھرے!
شریف صاحب نے چاند کی سیر کا خرچ سُن کر وہی رائے دی جو ایک صاحب نے ٹائی
کی قیمت سُن کر دی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِتنی مہنگی ٹائی خریدنے سے
بہتر یہ تو ہے کہ اِنسان جوتے خرید لے۔ دُکاندار نے بصد احترام عرض کیا
”مگر گلے میں جُوتے لٹکاکر آپ اچھے نہیں لگیں گے!“ شریف صاحب کا کہنا ہے کہ
دس کروڑ پاؤنڈ خرچ کرکے چاند کے مدار کا چّکّر کاٹنے سے بہتر تو یہ ہے کہ
اِنسان زمین پر ہی کوئی چاند بنالے! جب لوگ زمین پر جنت بنانے کی کوشش
کرسکتے ہیں تو چاند بنانے کی کوشش کر دیکھنے میں کیا ہرج ہے! ہم نے عرض کیا
کہ زمین پر ہم چاند کی تشکیل کے لیے بے فضاءخِطّہ کہاں سے لائیں گے؟ اُن کا
جواب تھا ”کہتے ہیں چاند کی فضاءزندگی کے لیے سخت ناموزوں اور ناموافق ہے۔
اب خیر سے زمین پر ایسے کئی خِِطّے ہیں جہاں زندگی کے لیے سخت ناموزوں اور
ناموافق فضاءپائی جاتی ہے! دُنیا والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ چاند کا ماحول
تو اِسی دُنیا میں پیدا کیا جاچکا ہے! اللہ جانے اب کون سے چاند کی جستجو
ہے؟“
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ چاند کے حسین ماحول کو ذرا قریب سے دیکھنے میں
کیا ہرج ہے۔ شریف صاحب کا استدلال تھا ”چاند بھی دور کا ڈھول ہے اِس لیے
سُہانا لگتا ہے۔ قریب جائیے تو بنجر اور پتھریلی زمین پر گڑھے ہی گڑھے ہیں۔
ہم چاند سے چہروں کی بات تو کرتے ہیں لیکن اگر نگاہِ انصاف سے دیکھا جائے
تو صرف بوڑھے، گڑھوں سے ’آراستہ‘ چہروں ہی کو چاند سے تشبیہ دی جاسکتی ہے!“
ہم نے فی الفور اتفاق کرتے ہوئے جب شریف امروہوی صاحب کے چہرے کی طرف غور
سے دیکھا تو بڑھاپے کی ”تمکنت“ سے آراستہ و پیراستہ چہرے کے کئی گڑھوں میں
ہمیں جلال و اشتعال کی مِِلی جُلی کیفیت اُبھرتی ہوئی محسوس ہوئی! اِس سے
آگے دیکھنے کی ہماری نازک آنکھوں میں تاب نہ تھی! ہم نے مُنہ پھیر لیا مگر
رُوئے سُخن اُنہی کی طرف رکھتے ہوئے عرض کیا چاند کی سیاحت کے بارے میں
حتمی رائے سے نوازیے۔
شریف صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، رائے داغ دی ”کروڑوں پاؤنڈ خرچ کرکے چاند کا
چَکّر کاٹنے سے تو کہیں زیادہ قرین عقل بات یہ ہے کہ اِنسان چاند سے چہروں
پر گزارا کرے، بلکہ ہمت کرکے چند چاند سے چہرے خرید لے!“
یہ رائے ہمیں قرین عقل محسوس ہوئی۔ اگر کبھی استطاعت نصیب ہوئی تو شریف
صاحب کی طرح ہم بھی آسمان کے بے جان اور بے نُور چاند کے مدار کا چَکّر کاٹ
کر ”چاند کے مداری“ کہلوانے پر زمینی چاندوں سے دِل لگانے کو ترجیح دیں گے! |