عبدالقدیرخان، ایٹمی پروگرام اور عالمی سازشیں

گزشتہ ہفتے ممتاز پاکستانی ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی رہائی اور اس کے بعد ملاقاتوں پر پابندی نے ایک بار پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ڈاکٹر صاحب کی ذات میڈٰیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات کسی تعارف محتاج نہیں ہے اس لیے ابھی ہم ان کی ذات پر گفتگو کے بجائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے ڈاکٹر صاب کی خدمات اور اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی عامی سازشوں کا ذکر کریں گے۔

پاکستان میں ایٹمی توانائی کمیشن کا قیام 1956ء میں عمل میں آیا اور اس کے اولین سربراہ ڈاکٹر نذیر احمد تھے۔ابتداء میں اس ادارے کی کارکردگی منصوبی بندی اور کاغذی کاروائیوں تک محدود تھی 1960 میں ممتاز پاکستانی سائنسدان جناب ڈاکٹر عثمانی صاحب جوکہ صدر ایوب خان کے مشیر سائئس تھے ان کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔انہوں نے اس ادارے کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں اور اس کے لیے مخلص ہوکر کام کیا، ڈاکٹر عثمانی صاحب کے دور میں ایٹمی ری ایکٹر کا معاہدہ ہوا۔ 1965ء میں پاکستان میں ریسرچ ایٹمی ری ایکٹر نصب ہوا یہ ری ایکٹر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر پچاس ملکوں کو بھی ایٹم برائے امن پروگرام کے تحت فراہم کیے تھے۔ ڈاکٹر نذیر صاحب کے دور میں 1961ء میں لاہور میں اٹامک انرجی کمیشن سینٹر قائم کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس سینٹر نے مزید ذیلی مراکز ١ زرعی تحقیقاتی سینٹر ٢ میڈیکل سینٹر قائم کیے گئے۔

1971ء میں ڈاکٹر عثمانی کی سبکدوشی کے بعد منیر احمد جیسی متنازعہ شخصیت کو اس ادارے کا سربراہ بنایا گیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی سے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر امریکی اوراسرائیلی مداخلت کا آغاز ہوا۔ مسٹر منیر احمد کو نیو کلیئر سائنس کا کوئی تجربہ نہ تھے اور نہ ہی وہ اس فیلڈ کے آدمی تھے۔ وہ صرف ایک الیکٹرک انجینر تھے اور امریکہ کے ایک پولی کلینک سے انہوں نے نو ماہ کا ایک ڈپلومہ کیا ہوا تھا۔ منیر احمد خان مبینہ طور پر قادیانی تھے۔اور ان کے امریکی انتظامیہ کے ساتھ روابط تھے۔انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جیسے معتبر ادارے کو سفید ہاتھی بنایا ہوا تھا۔ان کے دور میں نوجوان سائندان جو کہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے انکی حوصلہ شکنی کی گئی۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ پاکستان نے ایٹم بنانے کا منصوبہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہی کرلیا تھا اور اس وقت ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ جناب ذالفقار علی بھٹو صاحب نے تقریر کرتے ہوئے یہ تاریخہ جملہ کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کئے بعد اس کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس پورے عرصے میں تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں ہالینڈ اور بیلجئم میں مقیم رہے،اگر چہ وہ یورپ میں تھے مگر ان کا دل پاکستان میں اٹکا رہتا تھا اور 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد ان کا اضطراب بھی بڑھ گیا اسی دوران ہالینڈ کے معروف ٹی وی کمپیئر پروفیسر ڈے ینگ نے ایک پروگرام پیش کیا جس میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو غلط طور پر پیش کیا گیا، ڈاکٹر صاحب یہ دیکھ کر تڑپ اٹھے اور پاکستان سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت اگرچہ وہ طالبعلم تھے اور ان کے پاس وسائل نہ تھے مگر انہوں نے فوری طور پر پورفیسر ڈے ینگ کو خط لکھ کر اصل مسئلہ کی طرف توجہ دلائی اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف پیش کیا اور اخبارات میں خطوط اور آرٹیکل لکھے ۔ان کی محنت اور حب الوطنی رنگ لائی اور پروفسیر ڈے ینگ نے ان کا نقط نظر درست مان کر دوبارہ اپنے پروگرام میں پاکستان کے موقف کر درست مان کر پیش کیا۔

اس دوران ڈاکٹر صاحب حکومت پاکستان کو بھی خطوط لکھ کر اپنی خدمات پیش کرتے رہے مگر بیورو کریسی نے کبھی ان کی حوصلہ افزائی نہ کی۔اسی دوران ڈاکٹر صاحب نے پاکستان اسٹیل ملز کو بھی اپنی خدمات پیش کیں مگر نا اہل انتظامیہ ان کی صلاحیتوں کا اندازہ نہ کرسکی اور ان کو ملازمت نہیں دی گئی۔

1971ءمیں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد پوری پاکستانی قوم ایک صدمے کی کیفیت میں تھی اور قوم پر مایوسی طاری تھی۔1973ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کا ارادہ کیا تو مسٹر منیر احمد نے مبینہ طور پر ان کو مس گائیڈ کرتے ہوئے فرانس سے ری پروسسنگ پلانٹ خریدنے کی ترغیب دی جو کہ ایک بہت ہی مہنگا اور وقت طلب منصوبہ تھا کیونکہ اگر پاکستان اس میں کامیاب ہوبھی جاتا تو بھی وہ پلانٹ اپنی پروڈکشن کم از کم 1993ء میں شروع کرتا۔مسٹر منیر احمد نے اس حلومے سے بھٹو صاحب کو مکمل دھوکے میں رکھا تاوقیتکہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کا بھٹو صاحب سے رابطہ ہوا۔(اس کے بعد بھٹو صاحب نے اس پراجیکٹ کو مغرب کی نگاہوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کیا)

اٹھارہ مئی 1974ء میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کردیا۔اس کا مقصد خطے میں اپنی برتری اور پڑوسی ممالک پر اپنی دھونس جمانا تھا۔جوئی 1974ء میں داکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے بھٹو صاحب کو خط لکھا اور اپنی خدمات پیش کیں۔ بھٹو کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ یہی وہ جوہر قابل ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ بھٹو صاحب نے ان کو پاکستان آنےکی دعوت دی ۔ دسمبر1974 میں ڈاکٹر صاحب پاکستان آئے اور بھٹو صاحب سے ملاقات کی، بھٹو صاحب نے اس ملاقات میں ان سے ایٹمی بم اور جوہری توانائی سے متعلق گفتگو کی۔ بھٹو صاحب اس وقت تک منیر احمد پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ بھٹو صاحب نے منیر احمد کو ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر صاھب سے مل لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے منیر احمد کو ایٹمی توانئی سے متعلق ہدایات دیں۔اور ان کو کچھ پروگرام دیکر واپس ہالینڈ چلے گئے۔ایک سال کے بعد وہ واپس آئے اور یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوئے کہ ان کی ہدایت ہر عمل نہیں کیا گیا اور گاڑی وہیں کی وہیں کھڑی ہے انہوں نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی ان سے کہا کہ اس طرح کام نہیں چل سکتا اگر آپ نے میری خدمات سے فائدہ اٹھانا ہے تو مجھے مکمل اختیارات دیں۔بھٹو صاحب نے اس کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ڈاکڑ صاحب کو اٹامک انرجی کمیشن کے بجائے ایک خود مختار ادارہ کہوٹہ ریسرچ لبارٹریز بنایا جائے جہاں ڈاکٹر صاحب آزادی کے ساتھ اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

ڈاکٹر صاحب نے ایٹمی ری پراسسنگ کے بجائے سینٹری فیوج کے طریقہ کار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ سارے یورپ میں رائج تھا۔ بھٹو صاحب نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔البتہ بھٹو صاحب نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کی خریداری کو مغرب کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا اور اس میں کامیاب رہے۔مغرب نے اپنی روایتی تعصب پرستی کے باعث بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اس پر پابندی عائد نہیں کی مگر پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔کینیڈا نے امریکہ کے دباؤ پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو فاضل پرزہ جات اور ایندھن کی فراہمی بند کردی۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مغرب کے تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے یہودی نژاد امریکی سفیر ہنری کسنجر نے پاکستان کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی۔ پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیاں عائد کیں مگر بھٹو صاحب اور ڈاکٹر قدیر صاحب اپنی دھن میں مگن رہے اور بالآخر پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر دم لیا۔

مغرب کو یہ بات پتہ چل گئی کہ ڈاکٹر قدیر صاحب پاکستان کے ایٹمی پروگرام روح رواں ہیں تو یہودی لابی نے ان کے خلاف کردار کشی کی مہم شروع کردی اور ان کو ایک جاسوس، اور انتہائی عیارو مکار شخصیت کر روپ میں پیش کیا گیا اور یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا منصوبہ درحقیقت ہالینڈ کا پلان ہے اور ڈاکٹر صاحب ہالینڈ کے شہر المیلو کی لیبارٹری سے فارمولہ چرایا ہے اور نہ صرف یہ کیا گیا بلکہ ڈاکٹر صاحب پر ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلا کر عدالت کی یہودی خاتون جج نےان کو ایٹمی فارمولے چرانے کے الزام میں چار سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔ اور اس سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ نہ تو ڈاکٹر صاحب کو اس مقدمے کی کاروائی کی اطلاع نہیں دی گئی،جب ڈاکٹر صاحب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حکومت پاکستان سے اس مقدمے کے خلاف اپیل کرنے اور اپنا دفاع کرنے کا کہا تو بیورو کریسی نے روایتی سستی اور لاپروائی کو مظاہرہ کیا اور ان سے کہا گیا کہ آپ یہ مقدمہ تو ہالینڈ میں قائم کیا گیا ہے اور آپ تو اب ہالنیڈ میں جاکر نہیں رہیں گے اس لیے اس کو بھول جائیں اس وقت ڈاکٹر صاحب نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ میں بنیادی طور پر تاریخ کا طالبعلم ہوں،تاریخ میرا یہ کام تو بھول جائے گی مگر مجھے ایک مجرم کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور میری اولاد اور نسلوں کو کہا جائے گا کہ ان کا باپ ایک چور تھا۔ اس لیے آپ لازمی اس کے خلاف اپیل کریں(وقت نے ثابت کیا کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ فیصلہ بالکل
درست تھا اور اگر ڈاکٹر صاحب اس وقت خاموش ہو کر بیٹھ جاتے توآج یہی بات ان کے خلاف ثبوت بن جاتی)
ڈاکٹر صاحب کی اس بات کے بعد حکومت نے ان کی سزا کے خلاف اور ان کے مقدمے کے خلاف اپیل دائر کی اور بالآخر ڈاکٹر صاحب کو بےگناہ ثابت کیا۔جب ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کیا گیا تو اس وقت اسرائیل نے یہ دھمکی دی تھی کہ ہالینڈ کی عدالت نے تو ڈاکٹرعبدالقدیر کو بری کردیا ہے مگر ہماری عدالت نے ان کو بری نہیں کیا ہے۔ اسوقت سے اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی پراگرام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعاقب جاری رکھا ہوا ہے۔

کہوٹہ پلانٹ کی تعمیر کے دوران اس کی حفاظت کا گیر معمولی انتظام کیا گیا تھا۔امریکی سی آئی اے اور دیگر ایجنسیاں اس حوالے سے سن گن لینے کی کوشش کرتی تھیں امریکہ سفارت خانہ اسلام آباد کے ملازم مسٹر فوکیو جو کہ سی آئی اے کے ملازم تھے اور انہوں نے ایک دفعہ کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر بھی لینے کی کوشش کی تھی اس نے سی آئی اے کو رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ “کچھ عرصے سے نئی عمارات کی تعمیر کہوٹہ کے مقام پر شروع ہوئی ہیں اور کی تعمیر کی رفتار پاکستانی روایات سے مختلف تھی“
کہوٹہ کے مقام پر ایک دفعہ ایک فرانسیسی سفارت کار کو پیٹا بھی گیا جو کہ اس کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے پاکستان سے نکل گیا۔اس کے بعد کسی غیر ملکی کو کہوٹہ کے قریب قدم رکھنے کی جرات نہ ہوئی۔
اگرچہ ذالفقار علی بھٹو اور ان کی ٹیم پاکستان کے ایٹمی پراگرام سے مخلص تھی مگر بیورکریسی ان کے ساتھ مخلص نہ تھی اور بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک واقعہ ہواکہ ایک پاکستانی نوجوان کو جو ایک امریکی یونیورسٹی میں اسکالر تھا اس کو کہوٹہ کے پاس سے گرفتار کیا گیا کیوں کہ وہ وہاں تصایر لینے کی کوشش کررہا تھا۔اس کے گرفتاری پر معلوم ہوا کہ اس کے امریکی پرافیسر نے اسے کہوٹہ کی تصاویر لانے کی ہدایت کی تھی۔آرمی کے افسران نے اسے سرزنش کے بعد چھوڑ دیا اور اس کو مشورہ دیا کہ وہ اسلام آباد کے گرد و نواح کی تصاویر اتا رلے جائے اور کہے کہ یہی کہوٹہ کی تصاویر ہیں۔

امریکی سی آئی اے نے اس کے بعد بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں اور ایک دفعہ ایک امریکی سیاح کو کہوٹہ کی اسٹل اور مووی تصاویر لے گیا ہے۔سکیورٹی اہلکاروں نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر وہ ان کو جل دیکر نکل گیا،اہلکاروں نے ہمت نہیں ہاری اور اسکی کار کا نمبر حاصل کرکے تمام جگہ اطلاع دیدی اور تھوڑی دیر کے بعد وہ گاڑی اٹک پل کراس کرتی ہوئی پشاور کی طرف جاتی ہوئی پائی گئی۔اس گاڑی میں دو امریکن سوار تھے۔ قصہ مختصر کہ انٹیلی جنس نے ان کی غیر موجودگی میں ان کے سامان سے آتھ ایم ایم کے دو ویڈیو اسپول اور کیمرے کی آٹھ ریلیں برآمد کرلیں۔انٹیلی جنس اپنے مقصد کی کامیابی پر نازاں تھی کہ جنرل ضیاء لاحق کے حکم پر وہ تمام سامان ان کو جوں کا توں واپس کردیا گیا۔اور اس سے امریکی اثر رسوخ کا ندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ان تصاویر کے امریکہ کے ہاتھ لگنے کے بعد امریکہ اور مغرب نے پاکستان کے خلاف اپنی مہم تیز کردی اور اس کے بعد ہی ڈاکٹر صاحب پر مقدمہ قائم کیا گیا، مغربی ممالک نے پاکستان پر برآمدات کے قوانین سخت کردئے اور پوری دنیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہوا بنا کر پیش کیا گیا۔

اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ امریکہ کی سازشیں جاری رہیں اور نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب کو ذہنی اذیت دینے کے لیے ان کی رہائش گا کا تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ جو کہ آپریشن بنی گالہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس میں حکومت نے ان کی رہاش گاہ کو غیر قانونی اور ناجائز تجاوزات قرار دے کر مسمار کرنے کی کوشش کی اور اس کا مقصد صرف داکٹر صاحب کو پاکستان کی خدمت کی سزا دینا تھا،اگرچہ عدالت نے حکومت کا موقف رد کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ کو قانونی قرار دیا اور حکومت کو سرزنش کی مگر بہرحال ڈاکٹر صاحب اس عرصے میں زہنی اذیت کا شکار رہے،

اسی طرح بے نظیر صاحبہ کے دور میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں امریکہ نے کیمرہ نصب کرنے کی کوشش کی اور بے نظیر صاحبہ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگر امریکہ ایک کیمرہ لگا لے گا تو اس سے کیا حرج ہوجائے گا، ڈاکٹر صاحب فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گیے اور انہوں نے کہا کہ بات ایک کیمرہ کی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کی ہے، بے نظیر صاحبہ نے کہا کہ آپ اس سے مطمئین رہیں ملکی سلامتی کا کام ہم بہت بہت جانتے ہیں۔اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میرے ہوتے ہوئے یہ نہیں ہوسکتا میں استعفیٰ دیدیتا ہوں پھر آپ جو چاہے کریں۔ڈاکٹر صاحب کے واضح جواب کے بعد بے نظیر صاحبہ نے بوجوہ یہ کیمرہ نصب نہیں کیا۔

اگرچہ سازشیں جاری رہیں اور ڈاکٹر صاحب کا مشن بھی جاری رہا مگر سابق صدر جنرل مشرف کے دور مین بالآخر اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کی خاطر نہ کردہ جرم قبول کر کے قید کی تکلیف اٹھانی پڑی۔اگر چہ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہو اس معاملے میں بھی اسٹینڈ لے سکتے تھے مگر صرف وطن کی محبت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بچانے کے لیے ایٹمی سازو سامان کی اسمگلنگ کا الزام قبول کیا۔بقوم شاعر مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے - وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہ تھے۔سازشیں آج بھی جاری ہیں ہماری اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ پاکستان،پاکستان کے ایٹمی پروگرام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520324 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More