ایڈیسن اور ہمارے حکمران

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک نیاز مند اللہ اللہ کرتا تھا اور یہ ذکر کثرت کے ساتھ کرتا تھا۔ ایک دن شیطان نے اُسے ورغلایا اور وسوسے میں مبتلا کر دیا کہ دیکھ تو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے اور ایک بار بھی اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز نہیں آئی۔ تیرا ذکر اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ اُس نے یہ ذکر بند کر دیا۔ایک رات حضرت خضر علیہ السلام اُس کے خواب میں آئے اور دریافت کیا کہ ذکر کیوں بند کر دیا ہے۔اُس نے کہا کہ ذکر کے جواب میں اللہ کی طرف سے میں نے لبیک نہیں سنی لہذا میں خائف ہوں کہ راندہ درگاہ نہ ہو جاﺅں۔حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ تمہیں بتا دوں کہ تمہارا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوناہی اللہ کی طرف سے لبیک اور قبولیت کی دلیل ہے۔کیا اللہ نے تجھے اپنے کام پر نہیں لگا رکھا ہے۔ کیا اُس نے تجھے اپنے ذکر میں مشغول نہیں کیا۔تیری تدبیریں اور کوشش سب اللہ کے فضل سے ہیں۔ امام رومیؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے ذکر کا اجرخود اس ذکر میں پوشیدہ ہے۔اللہ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اُسی کو عطا کرتے ہیں جس سے خوش ہیں اور یہی اس کی قبولیت کی دلیل ہے۔

قارئین! ہمارے آج کے کالم کے عنوان سے آپ عقل و خرد کے گھوڑے دوڑا کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایڈیسن اور ہمارے حکمرانوں میں تضاد کس نوعیت کا ہے اور اس تضاد کی وجہ سے ایڈیسن کی دنیا آج کہاں جا پہنچی ہے اور ہماری دنیا آج اندھیروں کے کن گڑھوں میں دفن ہوتی جارہی ہے۔ سائنسدان کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے رقص میں مصروف ہوتا ہے جسے ایک مجذوب اور مست قلندر کے رقص سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔اس رقص کے دوران وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنا ت کے اصول سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اُن رازوں کے اخفاءکی کوشش کرتا ہے کہ جن کے متعلق پہلے ہی خالقِ کائنات نے فرمادیا ہے کہ ہم نے اس کائنات کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ایڈیسن وہ شخص تھا کہ جس نے بے مائیگی کے عالم میں سائنس کی ایجادات کا سفر شروع کیا اور آج ایک ہزار سے زائد پیٹنٹ ایڈیسن کے نام درج ہیں۔دنیا کو روشنی کا تحفہ دینے والا ایڈیسن ایک وقت میں سب سے بڑا امریکی قرار دیا گیا۔اُس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ پورے امریکہ کو روشن کرے گا۔ اُس کے اس خواب کو دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا۔1882ءمیںمنیلو پارک سے شروع ہونے والا سفر اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور پوری دنیا کو روشن کرنے والی ایجاد سامنے آگئی۔

قارئین! ایڈیسن کی اس مثال سے صرف یہ سبق سیکھنا مقصود ہے کہ پاکستان میں بھی وہ جوہرِ قابل موجود ہے جو ایڈیسن،مارکونی،ردرفورڈ جیسے کارنامے انجام دے سکتا ہے۔دیکھئے تو سہی کہ ٹاٹ سکولو ں سے پڑھنے والے

ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ڈاکٹر عبد السلام بن کر پوری دنیا سے خراجِ تحسین وصول کرتے ہیں۔یہ علیحدہ بات کہ ڈاکٹر عبد السلام کو ملنے والی خراجِ تحسین کچھ اور نوعیت کی تھی اور میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی وجہ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے عظیم انسان کو ملنے والی تحسین کچھ اور نوعیت کی تھی۔خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ ہیں۔ ہم جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اپنی ہوس پر تھوڑا سا قابو پا کر صرف ایک تعلیم کے موضوع پر سنجیدہ ہو جائیں اور سمجھوتا کرنے سے گریز کریں تو یقین جانیئے کہ معجزے سرزد ہو سکتے ہیں اور کرامتیں سامنے آسکتی ہیں۔آج بھی ملک کے طول و عرض سے ایسی درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ کئی مکینک اور انجینئرز اپنی ذہانت جو درحقیقت ربِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ نعمت ہوتی ہے سے کام لیتے ہوئے کم ترین سرمائے سے بہترین ایجادات کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اور ریڈ ٹیپ کلچر پر کاربند بیورو کریسی تھوڑی سی فرض شناسی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں اور ملک سے محبت کو دعووں کی بجائے عمل سے ثابت کریں اور ایسے جوہرِ قابل کی صحیح معنوں میں سرپرستی کریں تو ملک سے توانائی کے بحران کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے،قرضوں کی لعنت سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے اورخود انحصاری کا حصول بھی ہو سکتا ہے۔ہمارا جوہرِ قابل جن میں انتہائی قابل ڈاکٹرز، سائنسدان ، انجینئرز، ماہرینِ زراعت اور دیگر پروفیشنلز شامل ہیں وہ ناقدری اور بے عزتی کے اس ماحول سے بچنے کے لیے گزشتہ چھ دہائیوں سے اس ملک سے بھاگ بھاگ کر امریکہ سے لے کر برطانیہ اور مشرقِ وسطیٰ سے لے کر سکینڈینیوین ممالک تک جا کر اُن ممالک کی تقدیر روشن کر رہے ہیں اور اُن کی عدم موجودگی اس ملک کی تقدیر میں اندھیرے گھول رہی ہے۔ بقول غالب

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
خزاں کیا فصلِ گُل کہتے ہیں کس کوکوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے
نہ لائے شوخی اندیشہ، تابِ رنجِ نومیدی
کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنا ہے

قارئین! فوجی ڈکٹیٹروں سے لے کر جمہوری بادشاہوں اور حکمرانوں تک بہت کم وقت ایسا آیا ہے کہ کسی نے صحیح معنوں میں اس ملک کے متعلق سوچا ہو۔آج عوام جن مسائل سے دوچارہیں اُن کا حل بھی اُنہی کے پاس ہے۔حکمرانوں کی تبدیلی یا اُن کا سروں پر مسلط رہنا عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ دیکھئے آنے والے الیکشن میں خاموش اکثریت کیا فیصلہ کرتی ہے۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
جج صاحب نے ملزم سے پوچھا!
آخر تم نے اس شخص کی جیب کیوں کاٹی؟
ملزم نے معصوم سی صورت بنا کر کہا!
”جناب میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں یہ کام کر بھی سکتا ہوں یا نہیں“

قارئین! حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب نے مل جل کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس بہت بڑی نعمت پاکستان میں کرپشن کے وہ وہ کام کئے ہیں کہ اگر یہ ملک ایک زندہ معجزہ نہ ہوتا تو نہ جانے کیا کچھ ہو چکا ہوتا۔بنارسی ٹھگوں کا ایک ٹولہ چہرے اور نام بدل بدل کر اس ملک کے ساتھ مختلف دھوکے بازیاں کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے اور پکڑے جانے پر کچھ ایسے ہی بہانے بناتا ہے۔آئیے تبدیلی کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337223 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More