ہمارے سامنے بہت سارے بے شمار
ایسے واقعات ہیں جن کو تاریخ نے اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے جو بعد میں
ہمیں نظر نہیں آتے کوئی جھوٹ ہو یا سچ ایک نہ ایک دن سامنے ضرور آجاتا ہے
ہمارے چلے جانے کے بعد ایک نہ ایک دفع تاریخ اسے ضرور دہراتی ہے اس لیئے
ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے کام کریں جس میں ہمیں بعد میں شرمندہ نہ ہونا پڑے
قیام پاکستان کے بعد بہت سارے لیڈر آئے اور چلے گئے ان میں ایک لیڈ ر ایسا
بھی تھا جو ایک مسیحا کے طور پر سامنے آیا اور پاکستان کے عوام کی دلوں کی
دھڑکن بن گیا ا س لیڈر نے روشن پاکستان اور استحکام پاکستان کی جدوجہد ایک
مثال قائم کردی اسلامی ممالک کے لیڈروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنااور
ایک اسلامی بینک کے قیام کا مشن لے کر آگے بڑھنا اس کا خواب تھا مگر عالمی
طاقتیں اس کو برداشت نہ کرسکیں اور اس محسن پاکستان کو ہٹانے کیلئے سر جوڑ
کر بیٹھ گئے آخر کار وہ اس میں کامیاب ہوگئیں عالمی طاقتوں نے اس وقت کے
ڈکٹیٹر کو اپنے ساتھ ملا کر اس لیڈر کیخلاف ایک قتل کا مقدمہ بنوایا اور
اسے جیل بھیج دیا پیپلز پارٹی کے اس بانی ذوالفقار علی شہید بھٹو نے
پاکستان میں جو ایٹمی قوت کا خواب دیکھا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1998کو
چاغی کے مقام پر پورا کردیکھایا اور 1973کا آئین مکمل طور پرپیش کیا اگر ہم
تاریخ کو دیکھیں تو بہت کچھ یاد آتا ہے کہ ا س وقت کے ایک ڈکٹیٹر نے کس کو
اپنا جانشین بنایا اور وہ کس طرح سیاست دان بنے تاریخ سب کچھ بتا دیتی ہے
تاریخ یہ بھی بتا رہی ہے کہ خدا کیلئے مجھے جیل سے باہر نکالوں یہاں کے
مچھر مجھے بہت کاٹتے ہیں کہیں یہ میرا حال بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو جیسا
نہ کرے مجھے یہاں بہت تنگ کیا جاتا ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں اپنی
پوری فیملی کو یہاں سے لیکر کہیں باہر چلا جاﺅنگا چاہے مجھ سے کورے کاغذ پر
دستخط کروا لو باقی زندگی جلاوطنی کی گزار لوں گا کسی طرح مجھے باہر نکالوں
اس طرح دس سال کے معاہدے پر سعودی عرب روانہ ہوگئے یہ میں نہیں تاریخ بتا
رہی ہے کہ کون راتوں رات ملک چھوڑ کر بھاگ گیا تھا تاریخ یہ بھی بتارہی ہے
کہ اس عظیم لیڈر شہیدذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے آپ سے کیا وفا نہیں کی
دیکھا جائے تو 1988ءاور پھر 1992ءمیں آپ نے اس عظیم رہنماءکی بیٹی کیساتھ
کیاکچھ نہیں کیا حتیٰ کہ آج کے جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو
آپ نے قیدمیں رکھا مگر اس نے اُف تک نہیں کی جب آپ جلا وطنی کی زندگی گزار
رہے تھے شہید بینظیر بھٹو نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں پاکستان اس وقت تک
نہیںجاﺅں گی جب تک میرے بھائی نواز شریف اور شہباز شریف پاکستان میںواپس
نہیں آئینگے میں الیکشنوں میں بائیکاٹ کردوں گی جب تک آپ کی جماعت الیکشنوں
میں میرے ساتھ نہیں ہوگی مگر آپ نے 1992ءمیں بینظیر بھٹو کیساتھ جو کچھ کیا
وہ تاریخ خود بخود بتا رہی ہے آپ توایک ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں جس نے آپ کو
سیاست کی الف ب بتائی تھی وہ بھی ایک ڈکٹیٹر تھا مگر آپ کا تو محسن تھا آپ
تو اس محسن کو بھول گئے پتہ نہیں آپ کہ اور کتنے محسن ہیں جن کو آپ بھول
گئے ہیں جلا وطنی کے دور میں ملتان کے ایک لیڈر نے آپ کے بعد آپ کی جماعت
کو اکٹھا رکھا مگر آپ کو تو آپ کے محسن بھو ل جاتے ہیں آپ نے تو اب بھی
سیاست کو کاروبار سمجھ رکھا ہے آپ کی ضد کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا یہ
حال ہوگیا ہے اس کے بعد تاریخ کو اور داغ دار مت بناﺅاب پاکستان کی عوام
کیلئے کچھ ایسا کر جاﺅ کہ تاریخ آپ کے ان عظیم کاموں کا دوہرائے تاریخ آپ
کو یاد رکھے جب آپ اپنے محسنوں کو یاد نہیں کرتے تو تاریخ بھی آپ کو یاد
نہیں رکھے گی تاریخ میں اگر آج جنگیز خان اور ہلاکو ں خان کا نام اچھے
لفظوں میں نہیں لیا جاتا تو کسی ڈکٹیٹر کا نام بھی اچھے لفظوں میں نہیں لیا
جاتاجبکہ دوسری طرف محمد بن قاسم کا نا م عزت و احترام کیساتھ لیا جاتا ہے
اسی طرح ہمارے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو عوام اچھے لفظوں میں یاد
رکھتی ہے اس عظیم لیڈر کی نقل کرنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا مائیک پھینک
دینے سے کف کھول لینے سے کوئی بھٹو نہیں بن جاتا شہید ذوالفقار علی بھٹو
بننے کیلئے تختہ دار پر چڑھنا پڑتا ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے غریب کی
آواز بلند کی غریب کی آواز بن کر سامنے آیا عالمی طاقتوں کے سامنے ایک چٹان
بن کر ٹھہر گیا تاریخ جب اپنے ارواق جب پلٹتی ہے تو بہت کچھ سامنے آجاتا ہے
- |