بغاوت

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل در آمد کا ایک طریقہ کار ہے جو کہ آئین کے اندر درج ہے ۔اب ایک نیا انداز متعارف ہو رہا ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کےلئے پاکستان کی سیاسی جماعتیں سڑکوں پر احتجاج،دھرنے اور جلسے جلوس کیاکر ینگی اور سیاسی نظام کو مفلوج کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کریں گی۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ جس میں سپریم کورٹ نے پاکستان کے وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر اقتدار سے فارغ کر دیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کی جگہ راجا پرویز اشرف کو نیا وزیرِ اعظم نامزد کر دیاہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اس پربھی خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کا مطمعِ نظر تو نئے انتخابات کاا نعقاد تھا جو تا حال ممکن نہیں ہو سکا ۔ اس گناہِ بے لذت سے اپوزیشن کا مقدر نہیں بدلنے والا کیونکہ آصف علی زرداری ان سے بڑے شاطر ہیں ۔سید یوسف رضا گیلانی کی طرح سپریم کورٹ نے راجا پرویز اشرف کو بھی 12جو لا ئی تک خط لکھنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ان کی طرف سے پہلا جواب تو یہی ہے کہ وہ خط نہیں لکھیں کئے لیکن 12 جو لا ئی گزرنے کے بعد ہی اندازہ ہو سکے گا کہ خط نہ لکھنے کی سز انھیں کیا ملتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے سپریم کورٹ سے اظہارِیکجہتی کےلئے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ آج کل وہ عوامی حمائت حاصل کرنے کےلئے شہر شہر جلسے جلوسوں کا ا نعقاد کر رہے ہیں تاکہ عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف متحرک کیا جائے اور اس کی چٹھی کروا کے اقتدار پر قبضہ کر لیا جائے۔ جمہوری ملکوں میں جو جماعت جتنی مدت کےلئے منتخب ہو تی ہے اسے ا پنی مدت پوری کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اگر سیاسی جماعتیں احتجاجی سیاست کے زور پر حکومتوں کی برخاستگی کا راستہ اپنا نا شروع کر دیں گی تو پھر ملک میں کوئی بھی حکومت امن و سکون کے ساتھ حکومت نہیں کر سکے گی اور یوں سارا سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ جائےگا ۔ کسی حکومت کو اس کی مدت پوری نہ کرنے دینا بھی آئینی بغاوت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ۔جب ساری سیاسی جماعتوں نے اس بات کا حلف اٹھایا ہوا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائےگا اور عوام جس جماعت کو جتنی مدت کےلئے اقتدار کا تاج پہنا ئیں گئے سیاسی جماعتیں اس مینڈیٹ کا ا حترام کرتے ہوئے اس میں کوئی پھڈے بازی نہیں کرینگی بلکہ اگلے انتخابات میں اپنی باری کاا نتظار کریں گی۔

ریا ست کو چلانا بچوں کا کھیل نہیں ہے اسی لئے تو آئین وضع کیا جاتا ہے تا کہ سارے معاملات آئینی حدود کے اندر رہ کر انجام پذیر ہوں اور اگر کوئی گروہ اور جماعت آئین میں دئے گئے طریقہ کار سے انحراف کرنے کی کوشش کرے تو آئینی ادارے انھیں آئینی حدود میں رہنے کےلئے مجبور کریں تا کہ ملک میں انارکی، بد امنی اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا نہ ہو سکے۔ حکومت بدلنے کا ّئینی طریقہ یہی ہے کہ سیا سی جماعتیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کریں کہ موجودہ حکومت ان کے مفادات کی ضا من نہیں ہے بلکہ ان کی جماعت ہی ان کے مفادات کا تحفظ بہتر انداز میں کر سکتی ہے لہذا عوام اسے اپنے مینڈنٹ سے نوازیں تا کہ ان کی مشکلات کا ازالہ کیا جا سے ۔ اگر عوام ان کے منشور اور ان کے وعدوں کی صداقت پر یقین لاتے ہوئے انھیں اقتدار کے اہل سمجھتے ہیں اور اپنے مینڈیٹ سے نوازتے ہیں تو انھیں مقررہ مدت تک حکومت کرنے کا حق حاصل ہو نا چائیے۔ مسلم لیگ (ن) جس لانگ مارچ اور افرا تفری کی دہائی مچا رہی ہے وہ بالکل غیر آئینی ہے جس کا نقسان جمہوری نظام کو پہنچے گا لہذا ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ آئیندہ ہونے والے انتخابات میں اپنی قسمت آزمائیں اور عوامی بصیرت پر بھر وسہ کریں۔ کتنا ہی اچھا ہو تا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نوز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو وہ اس وقت بھی لانگ مارچ کا اعلان کرتے۔ اس وقت تو میاں برادران کی گھگھی بندی ہوئی تھی اور وہ معافی نامے پر دستخط کر کے سعودی محلات میں رو پوش ہو گئے تھے اور ان کے چیلے چانٹے جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ آجکل وہی چیلے چانٹے پھر میاں برادران کو اپنی وفاﺅں کا یقین دلا کر پارٹی میں واپس آگئے ہیں اور وہ باکل پاک صاف اور بے داغ ہو گئے ہیں۔ان کی سر توڑ کوشش ہے کہ میاں برادران غیر جمہوری حرکات سے ایک دفعہ پھر اپنی ساکھ کھو دیں اور انھیں ان سے بد لہ لینے کا ایک اور موقعہ میسر آجائے اور غیر جمہو ری قوتیں دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیں کیونکہ ان سیا اسی اداکاروں کے مزے انہی غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار میں ہو تے ہیں۔ان کا پہلا اور آخری ہدف اسی طرح کی غیر جمہوری حکومتیں ہی ہو تی ہیں جن میں انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔

عدالتی حکم سے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی چھٹی کے بعد اب یہ طے ہو گیا ہے کہ کوئی بھی منتخب وزیرِ اعظم محفوظ نہیں ہو گا بلکہ سب پر عدالتی مارشل لاءکی تلوار لٹکتی رہےگی جو جمہوری نظام کا خون کر دے گی اور پارلیمنٹ عدلیہ کے ہاتھوں میں ایک کھلو نا بنی رہے گی جس سے وہ جب چاہیں اور جیسا چاہیں کھیلتے رہیں ۔ کوئی بھلے ہی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ا ختلاف کرے لیکن اس نے آئین و پارلیمنٹ کی حفاظت کےلئے جس طرح کی جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے اسے جمہوریت پسند لوگ تحسین کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا کام تو ہر بات پر واویلا مچانا ہو تا ہے اورا نھیں مچا نا بھی چا ئیے کیونکہ اس طرح حکمران بے راہ روا نہیں ہوتے اور خود کو جواب دہی کےلئے پیش کر کے ا پنی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ مضبوط اپو زیشن اچھی حکومت کی ضما نت ہو تی ہے کیونکہ وہ حکومت کو اس بری ٰ طرح سے جکڑ لیتی ہے کہ پھ اس کےلئے عوامی مفادات کا خیال رکھنا اور اس کی پاسداری کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن کو اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہو جا تا ہے کہ جمہوریت کی گاری پٹری سے نہ اترنے پائے اور اگر کوئی ادا رہ ایسی سوچ کا عندیہ بھی دے تو اسے اس کو آڑے ہاتھوں لیا جانا چائیے کیونکہ جمہوریت کے تسلسل میں ملک کی سالمیت اور ترقی کی ضمانت ہو تی ہے۔ اپوزیشن کبھی کبھی حکومت کو جھکانے کےلئے ہڑ تالوں اور لانگ مارچ کی راہ اہنانا شرو ع کر دیتی ہے جو کہ غیر جمہوری رویوں کی نشان دہی کرتی ہے ۔ جلسے جلوس کرنا اپوزیشن کا حق ہو تا ہے اور اسے عوام کو حالا ت سے آگاہ کرنے کےلئے جلسے جلوسوں کا سہارا ضرور لینا چائیے لیکن ان جلسے جلوسوں کا مقصد حکومت کی رخصتی نہیں بلکہ عوامی مفادات کا حصول ہو نا چائیے۔ اپوزیشن وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد بڑی بے چین ہو رہی ہے اور سمجھ رہی ہے کہ اقتدار ایک پکے ہوئے پھیل کی مانند اس کی جھولی میں گرنے والا ہے لہذا و ہ جائز ووناجاز حربوں سے حکومت کو گرانے کی سازشوں میں جٹی ہو ئی ہے لیکن پی پی پی ہے کہ ان کی کسی بھی بات کو در خوراعتنا نہیں سمجھ رہی۔۔۔

ایک جنگ ہے جو دونوں فریقوں کے درمیان جاری ہے اور کو ئی بھی ہار ماننے کےلئے تیارنہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) کا شور مچانا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات انہی کے دورِ حکومت میں قائم کئے گئے تھے لہذا انکی اولین کوشش ہو گی کہ ان مقدمات میں حکومت کو شکست ہو جائے تا کہ انھیں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ انھوں نے سرکاری خزانے سے ان مقدمات پر جو کروڑوں روپ صرف کئے تھے وہ اس میں حق بجانب تھے۔ اگر میاں محمد نواز شریف یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ لانگ مارچ کے ذریعے پی پی پی حکومت کو گرا سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ پی پی پی ایک عوامی جماعت ہے اور اسے علم ہے کہ اس نے عوامی احتجاج کو کس طر ح بے اثر کرنا ہے۔مسلم لیگ (ن)اس سے قبل بھی وفاق کے خلاف اسی طرح کا ایک لانگ مارچ 2010 میں بھی کر چکی ہے جس کے نتیجے میں افتخار محمد چوہدری کی بحالی عمل میں آئی تھی ۔ پی پی پی نے اس لانگ مارچ میںکوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تھی لیکن یہ 2012 ہے اور اس وقت حالا ت بالکل مختلف ہیں لہذا کسی بھی لانگ مارچ کی کامیابی کے امکانات صفر کے برابر ہیں ۔ پنجاب سے شروع کیا گیا لانگ مارچ وفاق کے خلاف ایک بڑے صوبے کی بغاوت تصور ہو گا کیونکہ پنجاب کے مخصوص حلقے کسی دوسرے صوبے کی حکومت کو تسلیم کرنے کے روادار نہیں ۔ یہ وہی رویے ہیں جنھوں نے دوسرے صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت کی ایک فضا تخلیق کر رکھی ہے لہذا پنجاب نے اگر پی پی پی کی حکومت گرانے کےلئے لانگ مارچ کرنے کی کوشش کی تووفاق پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہو نگے ۔ ملک پہلے ہی بلوچستان کے ا حساسِ محرومی سے زخم خو ردہ ہے اور وہاں پر علیحدگی کے رحجانات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیںلہذا میاں برادران کو ایسی سوچ کو روبہ عمل لانے سے گریز کرنا چائیے۔۔

کہتے ہیں جب کسی بھی انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں تو پھر اسے اپنے مفادات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ بنگلہ دیش کے ساتھ ا سٹیبلشمنٹ نے یہی کچھ کیا تھا وہ ان پرپوری فوجی قوت سے چڑھ دوڑی تھی وہ چیختے چلاتے رہے، بلکتے رہے، دھائی دیتے رہے اوررحم کی بھیک مانگتے رہے کہ ہمیں ہمارے حقوق دو، ہمیں ہمارے وسائل میں سے ہمارا حصہ دو لیکن اندھی طاقت کے اسیر اسطرح کی باتیں کیاں سنتے ہیں۔ انھیں تو نہتے لوگوں کو کچلنا آتا ہے اور بنگالیوں کو اسٹیبلشمنٹ نے پوری ٰ قوت سے کچلنے کی کوشش کی تھی۔حق مانگنا کبھی بھی بغاوت نہیں ہو تی لیکن حق مانگنے والے کو جب اسکے حقو ق سے محروم کرنے کےلئے لشکر کشی کی جاتی ہے تو پھر اس لشکر کشی سے بغا وت جنم لیتی ہے جس میں سب کچھ بہہ جاتا ہے ۔ایک ایسی ہی بغاوت نے 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جنم لیا تھا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت چونکہ پنجاب کی سر زمین پر ہو ئی تھی لہذا سندھ کے لوگ اس شہادت کو بھی پنجابی سازش کا شاخسانہ سمجھتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کے بعد یہ دوسری لاش تھی جو پنجاب سے سندھ روانہ کی گئی تھی لہذا سندھیوں کا احتجاج کرنا سمجھ میں آتاتھا لیکن آصف علی زرداری نے اس بغاوت آمیز سوچ کو اپنی فہم و فراست اور جرات سے جسطرح کھپے پاکستان کا نعرہ لگا کر ختم کر کے پاکستان کی ریاست کو وجود بخشا تھا پاکستانی قوم اس نعرے پر ہمیشہ ان کی احسان مند رہےگی۔ کمال یہ ہے کہ 27 دسمبر کا وہ دن جب پاکستانی ریاست اپنا وجود کھو چکی تھی اور ہر سو افراتفری کا دور دورہ تھا اور جس شخص کی ایک آواز نے ریاست کو دوبارہ وجود بخشا تھا ہم اسی کو غیر ملکی عدالتوں میں گھسیٹنے ، بے آبرو کرنے اور مجرم ثا بت کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رے ہیں ۔ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کا قصور یہی تھا کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی اس مکروہ کاروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں اس پر توہینِ عدالت کی شق لگا کر اسے پانچ سالوں کےلئے نا اہل قرار دے کر سیاسی اکھاڑ سے باہر پھینک دیا گیا تھا ۔کیا سازشوں کا یہ انداز یونہی جاری و ساری ر ہے گا یا تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی جائےگی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ اپوزیشن ابھی تک غصے میں بپھری ہوئی ہے اور حکومت گر انے کے مو قع کو ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.