کیا یہ آنے والے دنوں کی تصویر ہے؟

منگل کے روزملک بھرکے اخبارات نے ایک تصویر ضرور شائع کی ہے اور وہ ہے لاہورمیںینگ ڈاکٹرزکی ہڑتال کے باعث پاک فوج کے ڈاکٹروں کی مریضوں کامعائنہ کرتے ہوئے۔ دیکھنے میں یہ بہت عام سی تصویرہے۔ لیکن یہ تصویرملک کے آنے والے دنوں کی تصویردکھارہی ہے ۔ ملک بھرمیں کئی مواقع پر ٹرانسپورٹرزہڑتال کرتے ہیں۔ سی این جی اسٹیشنزہر ہفتے تین روز بندہوتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل والوں نے 70 روز تک ہڑتال جاری رکھی۔ لیکن پورے ملک میں کہیں بھی پاک فوج کی جانب سے سی این جی اسٹیشن کھول کر وہاں کے عوام کو گیس کی فراہمی کرتے ہوئے نہیں دکھایاگیا۔ سی این جی ہوگی تو لوگ اسپتال پہنچیں گے۔ اورسرکاری نہیں توغیرسرکاری اسپتال میں علاج کرالیں گے۔ لیکن سی این جی نہیں ہے توگاڑی بھی نہیں چلے گی۔ پورے ملک میں کہیں ایسی تصویرنہیں آئی۔ اسی طرح ٹرانسپورٹرزکی ہڑتال پرکہیں یہ نظرنہیں آیاکہ فوج کے جوان بسیں چلارہے ہیں۔ ظاہری بات ہے ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسا ہونے جارہاہے ۔ کم ازکم ایساکرنے کے لیے میدان ہموارہورہاہے۔ اس کا ذمہ دارکون ہے؟ کس نے یہ موقع فراہم کیاکہ پنجاب کے اسپتالوں میں فوج کے ڈاکٹربیٹھیں؟ یہ الگ بحث ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی نہ کوئی اس کھیل کو کھیل رہا ہے ۔پنجاب حکومت کیوں ینگ ڈاکٹرزکے مطالبات پرمذاکرات نہ کرسکی۔ شہبازشریف جوہر معاملے میں کودپڑتے ہیں فورا موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ میڈیا کی نبض پرہاتھ رکھتے ہیں انہیں پتا ہی نہیں چلاکہ میڈیا ینگ ڈاکٹرز کے معاملے کو ضرورت سے زیادہ ہائی لائٹ کررہاہے۔ گویاکچھ ہونے والاہے۔ اورپھریہ کہ گرفتاریوں کاحکم کس نے دیا۔ گرفتاریاں ہوتے ہی فوج کے ڈاکٹرز کیوں اسپتالوں میں پہنچ گئے۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شاید اب میاں شہبازشریف توجہ بھی دے دیں لیکن پورے ملک میں آرمی کا یہ سافٹ امیج اورسیاست دانوں کا یہ گھناﺅناامیج چلاگیاہے کہ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے رہتے ہیں اورآرمی آکر انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ پورے ملک کے تمام اہم اخباروں میں یہ تصویرچھپی ہے۔ یہ تصویربتارہی ہے کہ جن جن معاملات میں سیاستدان لڑرہے ہیں ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی کوشش میں عوام کو تکلیف دے رہے ہیں تو پھرشاید فوج ان امورمیں بھی عوام کی فلاح اورآسانی کے لیے نظرآنے لگے۔ اگرحکمران اور نام نہاد اپوزیشن عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتی اور ان مسائل پر ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے ۔ توپھرپارلیمنٹ ایوان اقتدار اوردیگر تمام معاملات میں محض عوام کے لیےمجبورا فوج کو آناپڑے گا۔ ہم تو اس تصویرکو اسی طرح دیکھ رہے ہیں شاید بہت سے لوگ اس پرخوشی کا اظہارکریں۔ کہ چلوسب بدمعاش ہیں تو فوج کو ہی آنے دیاجائے۔ شاید اسے بہتری کہاجائے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا سارا نقصان فوج اورملک کو ہی ہوگا۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے معاملات میں جی ایچ کیو کس حدتک دخیل ہے۔ لہذا توجہ اس جانب دینے کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاست سے بے دخل کردیاجائے جوملک کی سیاست کے معاملات چلانے کے اہل نہیں ۔آخر 8 دس سال سیاست میں براہ راست کودنے یا تیرنے کے بعد فوج کی کرپٹ دونمبراورنااہل لوگوں پرہی کیوں پڑتی ہے۔ اگروہ سنجیدہ ہیں اور اس ملک کی تقدیربدلناچاہتے ہیں توکم ازکم ملک کی سیاست کے دھارے کو آزاد چھوڑدیں۔ عدلیہ کو اپناکام کرنے دیں اور ایک احسان کردیں آزاد اورخود مختارالیکشن کمیشن قائم کردیں۔ اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے اپنی پسندکے لیڈروں اورپارٹیوںکی سرپرستی چھوڑدیں اداروںکوکام کرنے دیں اسی میں ان کی فلاح ہے اس میں ملک کی فلاح ہے ۔اس ملک کے لیے یہ تصویراچھی ہوگی کہ یہاں ہر ادارہ اپنے دائرہ میں کام کرتا دکھائی دے۔ ورنہ ہماری بھی خواہش ہے کہ کراچی میں رمضان کے دوران مہنگائی کو بھی فوج کنٹرول کرے اور دودھ کی ہڑتال کے وقت گھرگھردودھ پہنچانے والے فوجی جوانوںکی سائیکلوں پر تصاویر نظر آئیں ۔ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرزکو بھی فوج پکڑے اور ڈرون طیاروں کو بھی فوج گرائے پھروہ اپنے میدان میں بھی نظر آئیں اور سیاست کے میدان میں بھی کیا ایسا ممکن ہے؟
Rana Bilal
About the Author: Rana Bilal Read More Articles by Rana Bilal: 19 Articles with 14215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.