ویسے تو خیر ہر قوم کو اللہ نے
چند خصوصیات بخشی ہیں اور یہ خصوصیات ہی اُس کی شناخت کا وسیلہ اور ذریعہ
بنتی ہیں۔ مگر اِس معاملے میں بھی پاکستانی وکھری ٹائپ کے ثابت ہوئے ہیں۔
لوگ سمجھ نہیں پا رہے کہ ہم میں کون کون سی خصوصیات پائی جاتی ہیں! دُنیا
کو اب تک ایسی خصوصیات کی تلاش ہے جن کی بُنیاد پر ہماری شناخت کا تعین
ہوسکے۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ ”پکڑائی“ دینے کے لیے تیار نہیں!
ڈپریشن ساری دنیا میں پایا جانے والاعام سا ذہنی عارضہ ہے۔ ماہرین کا
اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 20 فیصد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اور پاکستان
میں ڈپریشن کے اسیروں کی تعداد 34 فیصد ہے۔ اب چند ایک معاملات ہی رہ گئے
ہیں جن میں ہم دُنیا سے آگے ہیں۔ خوشی منائیے کہ ڈپریشن نے بھی ہمیں مایوس
نہیں کیا!
پاکستان میں ڈپریشن در حقیقت کس سطح پر اور کس نوعیت کا ہے اِس کا اندازہ
لگانا ہے تو اِس حقیقت پر غور کیجیے کہ اب ڈپریشن سے متعلق اندازوں اور
اعداد و شمار کو بھی ڈپریشن ہوگیا ہے! ذرا غور کیجیے کہ قتل و غارت سے بھتہ
خوری تک کون سی عِلّت ہے جو کراچی کے مکینوں کو لاحق نہں۔ اور کون سا بحران
ہے جو کوئٹہ کے رہنے والوں کو گھیرے ہوئے نہیں مگر پھر بھی لاہور کے مکینوں
میں زیادہ ڈپریشن پایا جاتا ہے! کیا یہ بات مزید ڈپریشن میں مُبتلا کرنے کے
لیے کافی نہیں کہ پاکستان میں جہاں سب سے کم ڈپریشن ہونا چاہیے وہاں سب سے
زیادہ ہے؟
اصل رونا اِس بات کا ہے کہ آج تک یہی طے نہیں ہوسکا کہ ڈپریشن ہوتا کیوں
ہے؟ دو یکسر متضاد کیفیات کا ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو ڈپریشن کی شکل
میں ہوتا ہے۔ کوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے تو کچھ نہ ملنے پر ڈپریشن ہو جاتا
ہے اور اگر کوئی جاہل رہ جائے تو بہت کچھ ملنے پر ڈپریشن کا شکار ہو جاتا
ہے! کنوار پن کی زندگی میں جو ڈپریشن دریا کی طرح بہتا ہے کچھ کچھ ویسا ہی
ڈپریشن شادی شدہ زندگی میں بھی موجزن رہتا ہے!
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں لوگ مختلف معاملات میں خدشات کو پروان
چڑھاکر ”بے فضول میں“ ڈپریشن کو گلے لگاتے رہتے ہیں! عید الاضحٰی قریب آتی
ہے تو بکروں کو ذبح ہونے کا شاید اُتنا خوف لاحق نہ ہوتا ہو جتنا ہمیں اُن
بکروں کی خریداری کا سوچ سوچ کر ڈپریشن لاحق ہوتا رہتا ہے! پاکستانیوں کو
تو بس ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا بہانہ چاہیے۔ کسی زمانے میں بھارتی وزیر
اعظم راجیو گاندھی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ صبح ناشتے کی میز پر انٹیلی
جنس والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مشہور اسکائی ڈاﺅر ٹی ایم (طارق
محمود) اِس وقت کہاں ہے؟ اور آج کل بہت سے پاکستانیوں کو یہ فکر لاحق رہتی
ہے کہ وینا ملک اِس وقت کہاں ہوگی! اگر اِنسان ڈپریشن میں مُبتلا ہونا
چاہیے تو طرح طرح کے حیلوں بہانوں کی کوئی کمی نہیں۔ ڈپریشن دراصل شکر کی
طرح ہے۔ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ جو ہر وقت ڈپریشن میں مُبتلا رہنے
کے خواہش مند ہوتے ہیں اُنہیں ربّ کریم اپنے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا،
کوئی نہ کوئی بہانہ بخش ہی دیتا ہے ڈپریشن کے گڑھے میں گرنے کا! بہت سی
باتیں ایسی ہیں جو آپ کو کسی بھی وقت بہت آسانی سے ڈپریشن کا شکار کرسکتی
ہیں۔ مثلاً نواز شریف بہت دنوں سے لندن کیوں نہیں گئے؟ اسفند یار ولی بار
بار پاکستان کا دورہ کیوں کر رہے ہیں؟ چوہدری شجاعت حسین سمجھ میں آنے والے
ڈھنگ سے گفتگو کرنا کب سیکھیں گے؟ عمران خان ”سونامی“ کا راگ الاپنا کب
چھوڑیں گے؟ جاوید ہاشمی کا نواز فوبیا کب ختم ہوگا؟ نجم سیٹھی انٹ شنٹ
بولنا ترک کرکے قدرے ڈھنگ سے اور پاکستان کے حق میں بولنا کب شروع کریں گے؟
لیاری فوبیا کب تک پیپلز پارٹی کی جان کا روگ بنا رہے گا؟ رحمٰن ملک میڈیا
کے سامنے پالیسی بیان جاری کرنے کے نام پر اسٹینڈ اپ کامیڈی کو کب خیرباد
کہیں گے؟
پاکستان میں بیشتر معاملات کی طرح ڈپریشن کے معاملے میں بھی کوئی اُصول دور
دور دکھائی نہیں دیتا۔ جو شخص تین چار سال بیروزگار رہا ہو اور اِس دوران
ذرا بھی مایوس نہ ہوا ہو بلکہ خاصی پُرسُکون زندگی گزارتا رہا ہو وہ نوکری
ملنے پر صرف دو ماہ بعد یہ سوچ سوچ کر جسم و جاں کو ہلکان کرنے لگتا ہے کہ
انکریمنٹ کیوں نہیں ہو رہا!
اگر کوئی رشتہ دار مُدتوں مِلنے نہ آئے تو ڈپریشن ہونے لگتا ہے اور اگر
کوئی رشتہ دار آئے دن مِلنے آنے لگے تو زیادہ اور شدید نوعیت کا ڈپریشن
گھیر لیتا ہے!
تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی بچہ ڈھنگ سے سیکھ نہ رہا ہو تو والدین
ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کلاس میں بچے زیادہ سیکھنے پر تُلے
ہوں تو اساتذہ ڈپریشن کے گڑھے میں جا گرتے ہیں! ایسے طلباءو طالبات کلاس
میں ٹیڑھے میڑھے سوال پوچھ کر اساتذہ کو سارا رٹا ہوا بُھلاکر ڈپریشن میں
مُبتلا کرتے رہتے ہیں!
اگر کسی قومی کرکٹر کو کپتانی سے ہٹادیا جائے تو اُس کے پرستاروں کو ڈپریشن
ہو جاتا ہے اور اگر کپتانی بحال ہو جائے تو مخالفین اور اُن کے پرستار
ڈپریشن کی جھولی میں جا گرتے ہیں!
لوگ حالات کی خرابی کا رونا روتے نہیں تھکتے اور دل و دماغ کو ڈپریشن کی
نذر کرتے ہیں مگر جب معاملات قدرے پُرامن انداز سے چل رہے ہوتے ہیں اور شہر
پر سُکوت اور سُکون کا راج ہوتا ہے تب زیادہ پریشانی لاحق ہوتی ہے! حالات
کا بہت دِنوں تک نہ بگڑنا شدید نوعیت کا ڈپریشن پیدا کرکے دم لیتا ہے!
انسانی فطرت بھی عجیب ہے۔ دل میں ہزاروں خواہشات پنپتی رہتی ہیں۔ مگر جب
کوئی خواہش پوری ہونے لگتی ہے تو دل بُرا مان جاتا ہے! اچانک یہ خواہش پیدا
ہوتی ہے کہ وہ خواہش پوری نہ ہو۔ بقول شاعر
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی!
شعراءہجر کو دیپک راگ کی طرح الاپ کر اُس کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ یہی
ہمارے شعراءکا بنیادی ڈپریشن ہے۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ وہ فراق کے قصیدے گاتے
گاتے اِس میں ایسے غرق ہو جاتے ہیں کہ وصال کا خیال بھی آئے تو خوف سا
محسوس ہونے لگتا ہے اور ڈپریشن کی سطح بلند ہو جاتی ہے! بقول شاعر
فراق میں لذتیں ہیں اِتنی تو سوچتا ہوں
وصال اُس کا نصیب ہوگا تو کیا بنے گا!
جو دور رہ کر حرارتِ جاں بنا ہوا ہے
وہ شخص میرے قریب ہوگا تو کیا بنے گا!
ہم نے زندگی صحافت کی نذر کردی ہے۔ ہم نے تو پہلوئے صحافت سے ہمیشہ ڈپریشن
ہی کو ہویدا ہوتے دیکھا ہے۔ مگر ہم خوش نصیب ہیں کہ صحافتی ڈپریشن سے نجات
پانے کا ایک تیر بہ ہدف نُسخہ اِس شعبے کے ایک بزرگ کی زبانی بہت پہلے ہاتھ
آگیا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب وارد نہیں
ہوا تھا اور پرنٹ میڈیا بھی محدود تھا۔ آج کی طرح ہفتے کے ساتوں دن اور دن
کے چوبیس گھنٹےوں کی نشریات کا کوئی تصور دور دور تک نہیں تھا۔ عام تعطیل
کے موقع پر خبر رساں ادارے بھی بند رہا کرتے تھے۔ اگر عام تعطیل کے دن
اخبار شائع کرنا پڑتا تو اُس کا پیٹ بھرنا جوئے شیر کے لانے سے بھی دُشوار
ثابت ہوتا تھا! ڈپریشن سے نجات کا نُسخہ عطا کرنے والے بزرگ ایک اخبار میں
ڈسٹرکٹ پیج کے انچارج تھے۔ ایک بار عام تعطیل سے ایک دن قبل ہم نے پوچھا کہ
کل تو خبر رساں ادارے بند ہوں گے تو آپ اپنے صفحے کا پیٹ کیسے بھریں گے؟
اُنہوں نے کمال سادگی اور شفقت سے فرمایا ”میاں! کل کے لیے چند اچھی خبریں
ہم نے بچاکر رکھ لی ہیں!“
آج جب ہم ڈپریشن سے نجات پانے کا یہ نُسخہ صحافت سے تعلق رکھنے والے کسی
دوست کو بتاتے ہیں تو وہ ہمیں یوں گھورتا ہے جیسے ہمارے ڈپریشن کی نوعیت
اور شِدّت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہو! |