اخوان المسلمین کی مسلسل جدوجہد
کے بعد بالآخر کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے۔ مصر میں اسلامی انقلاب لانے
کا ایک موقع انہیں فراہم ہوا،آگے یہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور کس
طرح اس کامیابی سے نام اور ملک کی لاج رکھتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی
بتائے گا، مگر امید ہے کہ یہ لوگ ہماری سوچ اور معیار کے مطابق ہی اتریں گے۔
دنیا کے کونے کونے میں جو بھی مسلمان رہتا ہے وہ دنیا بھر کے لوگوں کے لئے
دہشت گرد ہے کیونکہ ان کی ذہنوں میں یہ بات بٹھالی گئی ہے کہ مسلمان دہشت
گرد ہوتا ہے ،ان کی ذہنوں پر ہزارہا محنت کی جائے تو کم ہی ایسے نکلیں گے
جو اس بات کو تسلیم کرلیں گے کہ ہم غلط ہیں اور مسلمان دہشت گرد نہیں۔باہر
ممالک میں جو مسلمان آباد ہیں وہ نہ تو کسی بڑے عھدے پر فائزہوسکتے ہیں اور
نہ ہی سیاست میں انھیں کوئی اعلی مقام مل سکتا ہے کیونکہ یہ دجالی قوتوں کی
سوچ ہے کہ جہاں بھی مسلمان ہوگا وہاں وہ اپنے مذہب کی پرچار کرے گا یعنی
دہشت گردی کی پرچار کرے گا ،حالانکہ مسلمان کے اعمال اور طرز زندگی ہی ایک
عقل سلیم رکھنے والے شخص کی راہنمائی کے لیے کافی ہے یہ تو صرف ملک کے ایک
شعبے کی صورتحال ہے لیکن جب پورے ملک کی بھاگ دوڑ ایک مسلمان تنظیم کے ہاتھ
لگتی ہے تو دجالی قوتوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ اب جہاں پے ان کا ہاتھ
ہوگا وہاں پر اسلام تیزی سے اوربھی پھیلے گا ،اس طرح تو دجالی قوتوں کے
خواب چکنا چور ہوجائینگے،مستقبل کے سارے ارادے اور فیصلے بے کار
ہوجائینگے۔اس سے پہلے کہ کوئی انقلاب کی طرف سوچنے لگے ،ان کی سوچ مصر سے
ہٹا کر برما کی طرف کردیاگیا اور وہاں دجالوں نے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ
قائم کردی ،چند ہی ہفتوں میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے شہید
کردیا گیا، اور پانچ سو سے زائد افراد کو بے گھر کردیاگیا ،کیاکوئی ان کا
قصور بتا سکتا ہے؟صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ مسلمان تھے۔اور تو اور مسلمان
ملک بنگلہ دیش نے بھی ان کی مدد کرنے سے منہ موڑ دیا،اس کے بارے میں پشتو
کا ایک شعر جو اس حالت کی خوب منظر کشی کرتا ہے کہ ،(پشتو اردو کے الفاظ
میں لکھی گئی ہے تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو)
دا جرم ہس ثبوت می ورسرہ نشتہ
خپل پرادی رانہ خفا دی، آخر پہ سہ،
( میرے جرم کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ، مگر پھر بھی اپنے اور پرائے مجھ
سے منہ موڑے ہوئے ہیں، آخر کیوں؟)
میڈیا جو ہر خبر پر نظر رکھنے کا دعوی کرتے ہیں اس وقت وہ خاموش کیوں
ہیں؟صرف اور صرف اپنے مفاد کے خبریں نشر کرنا یہ کہاں کی poetic justic ہے
۔ایک عام بندہ معمولی سی حرکت کرتا ہے تو پورا ہفتہ اس خبر کو نشر کرکے
لوگوں کا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔مگر جب بات آج مسلمانوں پر ظلم کی آئی تو
سارے میڈیا کے حضرات نے خاموش کا لبادہ او ڑھ لیاہے۔
ایک طرف مسلمان برسر اقتدار آگئے اور دوسری طرف ہزاروں مسلمانوں کا ناحق
خون خرابہ شروع ہوگیا ،اس پر تمام ممالک کی حکومتیں خاموش کیوں ہیں؟اقوام
متحدہ جو امن و خوشحالی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتی آج وہ بھی ہاتھی کے
کان میں سورہا ہے۔یہ کیوں ، صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ مسلمان تھے۔اگر بات
کسی دوسرے مذہب والے کی ہوتی توپھر اقوام متحدہ کا کردار دیکھتے کہ ان
دوسرے مذہب والوں کی خاطر کیا کیا نہیں کرتے اور ہماری میڈیا ان کے تعریف
کے قلابے آسمان اور زمین سے ملاتے ملاتے نہیں تھکتے ۔مگر افسوس کہ وہ لوگ
مسلمان تھے اور اس وجہ سے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔
برما میں مسلمانوں کے قتل عام کی وبا ان ممالک کو بھی متاثر کرسکتی ہے جہاں
پے مسلمانوں کی اقلیت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے کس طرح چھٹکارا
حاصل کی جائے، برما اپنے فعل سے یہ راستہ بھی دکھا رہی ہے۔جن ممالک میں
مسلمانوں کی اقلیت ہے وہاں تو پہلے سے ہی ان دجالوںنے مسلمانوں کا جینا
حرام کر رکھا ہے،اگر کوئی تحفظی قدم نہیں اٹھا گیا تو خدا نہ کرے کہ یہ
حالت باقی ممالک کی طرف سرایت کرے اور وہ بھی برما کے مسلمانوں کی طرح ان
مسلمانوں پر بھی ہا تھ صاف کرنا شروع کردے۔مسلمان ممالک ذرا ہمت تو
کریں،اپنی عیاشیوں کو وقتی طور پر ترک کرکے یک آواز ہوکر اس کے خلاف اقدام
کرے اور اس کے بارے میں کوئی مظبوط ئحہ عمل قائم کریں تو ضرور بضرور اﷲ
عزوجل ان کا حامی و ناصر ہوگا۔
جو یقین کی راہ پر چل پڑے،
انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنھیں وسوسوں نے ڈرادیا
وہ قدم قدم پر بہک گئے
اگر مصر میں اسلامی انقلاب آگیا ،تو باقی ممالک کے لوگ بھی اسلامی انقلاب
لانے کی بھر پور کوشش کریں گے،جس کی وجہ سے دجالی لابی کے مہرے جو ہرجگہ
اپنی قدم جمارہے ہیں ان کی سازشیںخاک میں مل جائیں گے،اسی وجہ سے یہ لوگ
باقی ممالک کی توجہ مصر سے ہٹانے کے لیے برما کے مسلمانوں پر یہ ظلم شروع
کردیا۔مگر مسلمانوں کواپنا ہوش ہی نہیں وہ تو اپنے جھگڑوں کے گرداب میں
پھنسا ہوا ہے کوئی اقتدار کے لئے ، کوئی باہر ممالک میں جگہ بنانے کے لیے
اور کوئی اپنوں کو اعلی عھدے پر فائز کر کے لئے اپنے ہی مسلمان بھائی کا
خون کررہا ہے،اور ہم مزے سے یہ خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں،جو ہماری بے حسی
کا کھلم کھلا ثبوت ہے۔ |