جب پاکستان کی تاریخ کے سب سے
نیک ، شریف، دیانتدار ، ایماندار اور منصفی کے منصب سے ریٹائر ہونے والے
صاحب جناب عزت مآب رفیق تارڑمملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت
کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے ، تو وہ اپنے گرد پھیلی سیکورٹی سے کہتے تھے،
”مینوں کنہے مارناایں“، جب کسی صحافی نے یہ کہہ ہی دیا کہ جناب اگر ایسا ہی
ہے تو پروٹوکول کے لئے رکھے گئے اتنے بڑے لاؤ لشکر میں کمی کا اعلان
فرمادیں، تو ان کا جواب سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل تھا، انہوں نے
فرمایا، ’یہ آئینی مجبوری ہے‘۔ظاہر ہے ایک سابق جج کو تو آئین کی پاسداری
عام لوگوں سے زیادہ ہی کرنی چاہیئے۔
ابھی تک تو قوم کے علم میں یہی تھا کہ پاکستان کا صدر کسی عدالت، کسی
پارلیمنٹ اور کسی عوام نامی مخلوق وغیرہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، اسے ہر
معاملہ میں استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر عدلیہ نے کبھی کوئی سوال پوچھ لیا تو
پاکستان کا آئین ڈھال بن کرسامنے آکھڑا ہوا۔ موجودہ حکومت کا پسندیدہ ، اہم
اور سب سے زیادہ لگایا جانے والا نعرہ ہے ”پارلیمنٹ بالادست ہے“۔ اس نعرہ
کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کہ عدلیہ آزاد ہے، اور اس کی آزادی کے
اثرات بے مہار حکومت کی ’آزادی‘ پر پڑ رہے ہیں۔ نئے سربراہ حکومت نے کہا ہے
کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے، جمہوریت میں واقعی پارلیمنٹ ایک مقدس
گائے ہوتی ہے۔
وفاقی کابینہ نے صدر کے استثنیٰ سے بھی دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک نئے بل
کی منظوری عنایت فرمادی ہے ، جس کے مطابق اب صدر ، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ،
اور وزیر توہین عدالت سے مستثنیٰ ہونگے۔ کابینہ نے ویسے تو اور بھی کئی
انقلابی فیصلے کئے ہیں ، مگر یہ استثنیٰ والا فیصلہ بہت تاریخی ہے ، جسے
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا طبقہ کا استحقاق
نہایت درجے نازک واقع ہوا ہے، وہ ذراسی ٹھیس بھی برداشت نہیں کرتا ، بہت
جلد مجروح ہوجاتا ہے اور مجروح ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمنٹ میں پیش
ہوتا ہے۔ لیکن کیا ان لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہوناچاہیئے کہ وہ عدلیہ کے
بارے میں جو چاہیں فرمان جاری کرتے رہیں، عدلیہ کے احکامات سے جو چاہیں
سلوک کرتے پھریں،گویا وہ کسی قانون اور ڈسپلن کے تابع نہ ہوں، ان کی مرضی
ہی قانون ہو ، ان کی خواہش ہی آئین ہو ۔
جمہوریت پر منفی تبصرہ آئین سے غداری کے زمرے میں آجاتا ہوگا، مگر یہ
جمہوریت کی برکات ہی تو ہیں کہ سب انسان برابرنہیں ،( مسجد اور قبر میں تو
سب برابرہی ہوتے ہیں)اگر مندرجہ بالا ہستیاں توہین عدالت سے مستثنیٰ ہیں تو
گورنروں کو بھی شامل کرلیجئے، وفاقی اور صوبائی اداروں کے سربراہ،
سیکریٹریز وغیرہ بھی اس میں شامل ہوجائیں، مشیروں اور ٹاسک فورسوں کے نام
نہاد چیئرمینوں کو بھی عدلیہ سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کروادیا جائے،
سیاستدانوں نے بھی کبھی حکومت اور کبھی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہوتا
ہے ، انہیں بھی استثنیٰ مل جائے تو بہتر ہے۔
یہ سب لوگ جس طرح چاہیں عوام کا خون نچوڑیں، جیسے چاہیں ملک کو لوٹیں، جتنی
چاہیں دولت بنائیں، جس قدر ہوسکے کرپشن کریں، اسمبلیوں میں جتنا جاہلانہ یا
غیرسنجیدہ رویہ ممکن ہے اپنائیں، ایوان کے اندر مغلظات بکنے کا مظاہرہ اور
ریکارڈ قائم کریں، اسمبلی کے اندر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوکر اپنے معزز
اور باوقار ہونے کے معاملہ پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ لوڈشیڈنگ سے بھی
مستثنیٰ، یہ لوٹ مار کے بھی ماہر، یہ ملک وقوم کے نام پر قومی خزانے کو
اپنے آبا کی وراثت تصور کرکے ہڑپ کریں، اپنی مراعات میں اضافے پہ اضافہ
کرتے جائیں۔ کیا عوام بھی کبھی سوچیں گے کہ کیا یہ ہمارے ہی نمائندے ہیں؟
کیا استحقاق اور استثنیٰ انہی کے لئے ہے، کیا اس کے بدلے میں عوام کے لئے
صرف ”استحصال“ ہے ، جو ہوتا آیا ہے، اس باخبر اور آگاہی کے دور میںبھی جاری
ہے۔ کیا استثنیٰ اور استحصال اسی طرح جاری رہے گا؟ |