موبائل فروش پرویز مشرف اور شہباز شریف کے لیپ

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بیرونی طاقتوں کی معیشت کو سہارا دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے ملک میں معیشت اور صنعتوں کا پہیہ جام کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اگرچہ کہ اس میں بھی بیرونی دباﺅ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا مگر عزم مصمم ہو اور ملک و قوم کی ترقی کا جذبہ سینوں میں موجزن ہو تو کوئی طاقت ہم کو ترقی کی راہ پر چلنے سے نہیں روک سکتی اگر بیرونی طاقتیں ہم کو مختلف زاویوں سے ڈرا دھمکا کر اپنی صنعتوں کا پہیہ اس لیے جام کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں کہ اس خطے میں بھارت کو معاشی بالا دستی حاصل ہو سکے تو ہم ان بیرونی طاقتوں کی کمزوریوں سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھرے جلسے میں بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ اس نے 25 ارب روپے کے موبائل فون بیچے ہیں ۔اگرچہ کہ اس نے یہ اعلان اس شور کو دبانے کے لیے کیا تھا کہ ہر طرف سے اور ہر ہر زاویئے سے تیار کی گئیں مختلف سروے کمپنیوں کی رپورٹوں کے مطابق ملک کی ستر فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور مختلف حلقوں اورسیاسی قیادت کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ یہ اعلان کر کے ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جب لوگ 25 ارب روپے کے موبائل خرید سکتے ہیں تو غربت کا کیا سوال؟ یہ ایک ڈکٹیٹر کی سوچ تو ہوسکتی ہے مگر ایک ماہر معاشیات اور قوم کا درد رکھنے والی قیادت کے لیے تازیانے سے کم نہیں۔ پرویز مشرف یہ بھول گئے تھے کہ اربوں روپے کے یہ موبائل فون پاکستان میں نہیں بنائے گئے تھے۔ یہ درآمد کیے گئے تھے۔ اس لحاظ سے 25 ارب روپے ملک سے باہر چلے گئے اور ملک کی معیشت 25 ارب روپے کے اضافی بوجھ تلے دب گئی۔ دنیا میں وہی ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہوسکتا ہے جو درآمدات کو کم سے کم کر کے برآمدات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے اس طرح زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ اس کی کرنسی بھی مستحکم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہماری مالیاتی پالیسیاں عالمی ساہوکاروں کے اشارہ ابرو کی منتظر ہوتی ہیں اور ان کی ناراضگی مول لینا اس وقت موجود کسی بھی سیاسی قیادت کے بس کی بات نہیں۔ ملک کے تمام سیاسی ٹائیکونز ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں کرتے کیونکہ ان میں سے کسی کے پاس بھی قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے ۔کسی سیاسی جماعت نے بھی صنعتوں کی زبوں حالی کو سہارا دینے زراعت کو ترقی دینے کے اقدمات روزگار کے مواقع نکالنے کے لیے صنعتوں میں اضافے، ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی قومی ائیر لائین، پاکستان اسٹیل، ریلوے، کاٹن انڈسٹری، پلاسٹک انڈسٹری الیکٹرانک انڈسٹری غرض کے کسی بھی شعبے میں انقلابی اقدامات کا کوئی پروگرام پیش نہیں کیا۔اور یہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ بیشتر پارٹیاں عالمی طاقتوں کے اشاروں پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں اور وقت آنے پر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور دکھائے جا رہے ہیں۔ محترم شہباز شریف نے بھی بیرون ملک سے درآمد شدہ کمپیوٹرز کی خریداری پر بجٹ میں اربوں روپے کی خطیر رقوم رکھی ہوئی ہیں جو اس صوبائی بجٹ پر اضافی بوجھ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ٹافیوں کی طرح لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی گلی گلی بٹوار کیا ملک سے فارن ایکس چینج کو باہر بھیجنے کا باعث نہیں بنے گی جبکہ ہم پہلے لیے ہوئے ڈالر کے دباﺅ کا شکار ہیں اور ہمارا فارن ایکس چینج ذخیرہ پہلے ہی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور قوم بھوک اور افلاس بیروزگاری اور چھینا جھپٹی کے عذاب سے دوچار ہے۔ میاں شہباز شریف کی دیکھا دیکھی خیبر پختون خوا کی حکومت نے بھی لیپ ٹاپ پالیسی اپنانے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس نے بھی بیرونی آقاﺅں کو خوش کرنے کے لیے ان کی کمپیوٹرا نڈسٹری کو سہا را دینے کی ٹھان لی ہے۔ خیبر پختون خوا کا صوبہ پہلے ہی شدید بدانتظامی، امن و امان، بیرونی مداخلتوں اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے تو ایسے میں یہ پالیسی کس طرح صوبے کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ بظاہر بے پناہ سیاسی بعد رکھنے والی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور اے۔ این۔ پی غیروں کی کمپیوٹر انڈسٹری کو سہارا دینے کے معاملے پر ایک نظر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف اغیار کے اشاروں پر کا صیغہ اکثر استعمال کرتے ہیں۔ کیا لیپ ٹاپ پالیسی اپنوں کے اشارے پر بنائی گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں صوبوں کی حکومتیں ان اربوں روپے کی خطیر رقم سے اپنے اپنے صوبوں کے غریب اور بے سہارا طلبہ و طالبات کو مفت کتابیں بستے، ٹرانسپورٹ اور وظائف کا اجرا کرتیں تو ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کے بجائے صعوبتوں کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اور ان کی دعاﺅں کا مستحق ہونے کا طریقہ اپنایا جا سکتا تھا اس سے آگے اپنی ڈوبتی ہوئی صنعتوں کو سہارا دینے کی پالیسی بناتے، یا کم ازکم کمپیوٹر وںکی اسمبلنگ اس سطح تک لے آتے کہ کمپوٹر بیرون ملک فروخت کر کے اربوں ڈالر اپنی قومی پیداوار میں شامل کرتے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کی زراعت کو14فیصد بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ کیا ہم ٹافیوں کی طرح بانٹنے والے لیپ ٹاپ کی اربوں کی رقم کو صرف اسی ایک مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے کہ چین کے ساتھ معاہدہ کر کے اس سے وہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی جائے کہ ہم اپنی زراعت کو14کے بجائے 25فیصد خود ہی بڑھانے کے قابل ہو جائیں اور 36روپے فی کلو آٹا خریدنے پر مجبور سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بھوکے انسانوں کوآدھی کے بجائے پوری روٹی کھلائی جا سکے۔ قدرت کی بے پناہ عنایتوں اور دنیا کے بہترین نہری نظام سے مزین اپنی سرزمین کو ہم خود خاطر خواہ انداز میں استعمال نہیں کر رہے جبکہ دوست بھی دست تعاون بڑھانے کو تیار ہوں تو قصور کس کا ؟ہمارا یا ہماری ترجیحات کا۔
Rana Bilal
About the Author: Rana Bilal Read More Articles by Rana Bilal: 19 Articles with 14223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.