اصمعی اور اس کا دوست
اصمعی سے اس کے دوست نے قرض مانگا، اس نے کہا: بہت خوب ! لیکن میرے دلی
سکون کے لئے تم میرے پاس کسی ایسی چیز کا رہن رکھوائو جس کی قیمت تمہارے
قرض کی مطلوبہ رقم سے دگنی ہو‘‘ اس نے کہا:’’اے ابو سعید! کیاآپ مجھ پر
اعتماد نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’کیوں نہیں !دیکھو یہ ابراہیم خلیل
اللہ ہیں جواپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں،پھر بھی انہوں نے کہا:’’لیطمئن
قلبی‘‘﴿تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے﴾‘‘﴿العاملی: المخلاۃ،ص۶﴾
نابینا اور چراغ
ایک آدمی کہتے ہیں: ایک رات میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں بستی سے نکلا،
ایک نابینا کو دیکھا،اس کے کندھے پرمٹکا اور ہاتھ میں چراغ تھا اور وہ چلتے
چلتے نہر تک پہنچا،گھڑابھرااورواپس لوٹا،میں نے اس سے کہا: ’’میاں جی! آپ
اندھے ہیں، دن ہو یارات وہ آپ کی نظر میں برابرہیں پھر آپ یہ چراغ لے کر
کیوں چلتے ہیں؟ اس نے کہا:’’اے زیادہ بک بک کرنے والے ! میں تم جیسے دل کے
اندھوں کے لئے چراغ اُٹھاتا اور روشنی کرتا ہوں تاکہ تم اندھیرے میں لڑکھڑا
کر مجھ پر نہ گرو اور تمہاری وجہ سے میں گروں اور میرا گھڑاٹوٹ جائے۔
﴿النویری :نھایۃ الادب،۴/۲۲﴾
انشائ اللہ کہو!
ایک صاحب کہتے ہیں:ابو جوالق﴿ اپنے دور کا مشہور احمق ہے﴾ ایک دن گھر سے
نکلا، راستے میں ایک دوست سے اس کی ملاقات ہوئی،اس نے پوچھا:’’ابو جوالق!
کہاں .؟ اس نے کہا:’’گدھا خریدنے جارہا ہوں‘‘ دوست نے کہا:’’ انشائ اللہ﴿
اگر اللہ چاہا تو﴾کہہ دو‘‘ ابو جوالق نے کہا:بھلایہ بھی انشائ اللہ کہنے کا
موقع ہے، دراہم میری جیب میں ہیں،گدھا بازار میں ہے اور میں بازار جاہی رہا
ہوں‘‘ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ راستے میں ان کے دراہم چوری ہو گئے، چنانچہ
وہ واپس لوٹ رہے تھے دوبارہ دوست سے ملاقات ہوئی، اس نے پوچھا:گدھا خرید
لیا.؟‘‘ ابو جوالق نے جواب دیا:’’ انشائ اللہ درہم چوری ہوگئے ہیں‘‘﴿ ابن
الجوزی: اخبار الحمفی والغفلین،ص۵۴۱﴾
بیٹا باپ جیسا
شاعر محمد بن بشیر کا ایک موٹا تازہ جسیم لڑکا تھا، انہوں نے اسے کسی کام
کے لئے بھیجا تو اس نے کافی دیر لگادی، پھر جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے
مطلوبہ کام بھی نہیں کیا تھا، باپ ٹکٹکی باندھے اسے ایک لمحہ دیکھتا رہا،
پھر اس نے یہ شعر کہا:
’’اس کی عقل پرندے جیسی ہے جبکہ اپنی بناوٹ میں یہ اونٹ ہے‘‘
بیٹے نے برجستہ جواب دیا:
’’اباجان! میں بالکل آپ جیسا ہوں،سرِمو آپ سے بدلا ہوا
نہیں‘‘﴿الابشیھی:المستطرف:۲،۴۱﴾
نادان کورزق کیوں ملتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی بھیجی:’’ کیا
تم جانتے ہو،میں احمق ﴿بیوقوف﴾ کو رزق کیوں دیتا ہوں، موسیٰ علیہ السلام نے
عرض کیا:’’نہیں، اے میرے رب!‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
تاکہ عقلمند انسان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ رزق کی طلب عقل کے داؤ پیچ
لڑانے سے نہیں ہوتی‘‘۔
ایک عرب شاعرنے کہاہے:
’’اگر کسی دن آپ کو تنگی پیش آئے تو گھبرائیے نہیں، کیونکہ طویل زمانہ آپ
آسانیاں دیکھیں گے۔﴿۲﴾اپنے رب سے گمان برامت کیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر
جمیل کرنے والے کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔﴿۳﴾بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی
ہوتی ہے﴿یہ اللہ کا وعدہ ہے اور﴾ اللہ کی بات سب سے سچی ہے﴿ اس میں شک کی
گنجائش نہیں﴾ ﴿۴﴾اگر رزق فقط عقل کے بل بوتے پر حاصل ہوتا تو مال صرف ارباب
دانش کے پاس ہوتا۔﴿الا بشیھی: المستطرف،۱/۶۹﴾
آئینہ دیکھ
اطلیموں اخیر﴿یعنی شاہ روم﴾ کہا کرتا تھا:’’عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ
آئینہ دیکھے، اگر اپنا چہرہ اسے خوبصورت نظرآئے تو عمل قبیح﴿عمل بد﴾ سے اسے
دھبہ سے نہ لگائے اور اگر پہلے ہی وہ بدصورت ہوتو﴿قبیح حرکت کرکے﴾ دوقبیح
چیزوں کو جمع نہ کرے، اسی کے متعلق کہا گیا ہے:
۱﴾اے خوبصورت چہرے والے!فحش گوئی سے بچ،زینت سے ہرگز نہ ملا۔
۲﴾اے بدصورت چہرے والے!اچھے کام کر،دو قبیح چیزوں کو جمع نہ
کر۔﴿الثعالبی:لطائف،ص۲۳﴾
میاں بیوی کے درمیان گفتگو
ابن الجوزی ایک آدمی کا قصہ نقل کرتے ہیں جس کانام یزید تھا، وہ انتہائی
بدصورت تھا، جب اس کی بیوی کو حمل ٹھہرا تو بیوی نے اس سے کہا:’’تیری ہلاکت
ہے اگر میرابچہ تیری شکل پر گیا‘‘ شوہر نے جواباً کہا:’’ نہیں، بلکہ تیری
ہلاکت ہوگی اگر میرا بچہ میرے علاوہ کسی اور کی شکل سے ملتا جلتاپیدا
ہوا‘‘۔﴿بلاحوالہ﴾
|