لغت ونحواورعربی ادب کے امام
عبدالملک بن قریب بن عبدالملک اصمعی (متوفی 216ھ)کہتے ہیں کہ میں نے ایک
دیہاتی بچی کو یہ فصیح وبلیغ اشعارکہتے سنا:
استغفراللہ لذنبی کلہ
قبلت انسانا بغیر حلہ
مثل الغزال ناعما فی د لہ
فانتصف اللیل ولم اصلہ
میں نے کہا:اللّٰہ تجھے مارے !توکس قدر فصیح ہے۔“اس نے جواب دیا:اویعد ہذا
فصاحة مع قولہ تعالییعنی کیا اس فرمانِ باری تعالیٰ کے سامنے میری اس بات
کو فصیح کہاجاسکتاہے؟=]وَاَوحَینَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوسٰٓی اَن اَرضِعِیہِ
فَاِذَا خِفتِ عَلَیہِ فَاَلقِیہِ فِی الیَمِّ وَ لَا تَخَافِی وَلَا
تَحزَنِی اِنَّا رَآدُّوہُ اِلَیکِ وَ جَاعِلُوہُ مِنَ المُرسَلِینَ
0(پ20،القصص:۷)ترجمہ:اور ہم نے موسٰی کی ماں کو الہام فرمایاکہ اسے دودھ
پلا پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہوتو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈراور نہ غم
کربیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔“[=میری یہ
بات اس کے سامنے ہرگز فصیح نہیں کیونکہ اس ایک آیت میں دو امر ،دونہی،دوخبریں
اور دوبشارتیں ہیں ۔ (النکت والعیون،ج۳،ص265،تفسیر قرطبی،ج۷،ص۱۹۱)
قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی جووجوہات ہیں ان میں سے سب سے اعلی اورسب پر
مقدم قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت ہے ....دورِ جاہلیت میں اہل عرب کو فصاحت
وبلاغت میں جومقام حاصل تھا وہ کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوا....اہم
مواقع پر وہ اپنے اس فن کے عجائبات بدیہی طور ظاہر کیا کرتے تھے .... مجالس
میں فی البدیہ خطبے پڑھ دیاکرتے تھے....کھڑے کھڑے تین تین سو اشعار
سنادیاکرتے تھے....میدانِ جنگ میں جب گھمسان کارن پڑتاتوسیف وسنان کی ضربوں
کے درمیان رجز پڑھا کرتے تھے....ا س فن سے وہ بزدل کو دلیر ،بخیل کو
سخی،ناقص کو کامل،گمنام کو نامور او رمشکل کو آسان کردیتے تھے....جسے چاہتے
تعریف کرکے شریف اور ہجو کرکے گھٹیابنادیتے.... بغض وکینہ دور کرکے بیگانے
کو اپنا بنالیتے.... انہیں یقین تھا کہ اقلیم سخن کے مالک اور میدان فصاحت
وبلاغت کے شہسوار ہم ہی ہیں ....اورانہیں گھمنڈ تھاکہ کوئی کلام ہمارے کلام
پرسبقت نہیں لے جاسکتا....کلام کے اس کمال کے باوجودان کی ذاتی ومعاشرتی
حالت نہایت ہی دگرگوں ی ہوئی تھی ....عقائدواعمال دونوں میں افراط وتفریط
کا شکار تھے۔کفر وشرک اوربدعملی وبداطواری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ....الغرض
دن رات بدکاری ،شراب خوری ،جوئے بازی اور قتل وغارتگری میں مشغول رہتے تھے
۔
ایسے حالات میں ضرورت تھی کہ زمین کے اس مرکز میں خدائے وحدہ لاشریک کی طرف
سے کوئی کامل وروحانی طبیب مبعوث ہو.... چنانچہ ،رب العالمین جل جلالہ نے
ان کی طرف ایک کامل واکمل ہستی کو بھیج دیا جوایک کامل کتاب ساتھ لے کر آئی
....جس میں قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے سارے امراض کا نسخہ کیمیاءدرج
تھا....امی لقب پانے والی اس کامل ہستی نے اپنی نبوت کے ثبوت میں جو کتاب
اہل مکہ کے سامنے پیش کی وہ انہی کی زبان میں تھی ....ا ور اسی فن(فصاحت
وبلاغت) میں ان سے معارضہ طلب کیا جس میں وہ پوری دنیا کو چیلنج کرتے تھے....اس
میں کوئی دورائے نہیں کہ ان لوگوں میں انتہائی فصیح وبلیغ خطباءاور ذہین
وفطین شعراموجود تھے مگرجب بطورِ معارضہ ان کے سامنے قرآن کریم پیش کیا گیا
تو ان کی عقلیں حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئیں ....قرآن کریم نے واشگاف
لفظوں میں فرمایا:
قُل لَّئِنِ اجتَمَعَتِ الاِنسُ وَالجِنُّ عَلٰٓی اَن یَّاتُوا بِمِثلِ
ہٰذَا القُراٰنِ لَا یَاتُونَ بِمِثلِہ وَلَو کَانَ بَعضُہُم لِبَعضٍ
ظَہِیرًا 0
(پ15،بنی اسرائیل:88)
ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ
اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک
دوسرے کا مددگار ہو۔
پھرلگام کو تھوڑاڈھیلاکرکے فرمایا:
قُل فَاتُوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِّثلِہ مُفتَرَیٰتٍ وَّ ادعُوا مَنِ
استَطَعتُم مِّن دُونِ اللہِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ 0(پ12،ہود:13)
ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اوراللہ
کے سوا جو مِل سکیں سب کو بلالو اگر سچے ہو۔
پھرحجت کوپوراکرنے کے لئے دس کے بجائے ایک ہی سورت بناکر لانے کا چیلنج کیا:
قُل فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّثلِہ وَ ادعُوا مَنِ استَطَعتُم مِّن دُونِ اللہِ
اِن کُنتُم صٰدِقِینَ0(پ۱۱،یونس :38)
ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ تو اس جیسی ایک سورة لے آؤ اوراللہ کو چھوڑ کر
جو مل سکیں سب کو بُلا لاؤ اگر تم سچے ہو ۔
اور یوں وہ خاتم الانبیاءوالمرسلین صلی اللّہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں
مسلسل دس برس کفارومشرکین کو چیلنج کرتے رہے .... پھر جب مدینے میں رونق
افروز ہوئے تو وہاں بھی دس سال :فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثلِہ(پ۱،البقرة
:23)سے تحدی ومعارضہ کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ:فَاِن لَّم تَفعَلُوا وَلَن
تَفعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُہَا النَّاسُ وَالحِجَارَةُ
اُعِدَّت لِلکٰفِرِینَ(پ۱،البقرة :24)سے انہیں چونکاتے ،برانگیختہ کرتے
اورڈراتے رہے ....غورفرمائیے !جس وقت عرب میں فصاحت وبلاغت اپنے کمال
کوپہنچی ہوئی تھی اس زمانے میں فصحاءوبلغاءچھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضہ
سے عاجز آگئے .... توبعد والوں اور غیر عرب کا عاجز وبے بس ہونا خودہی ثابت
ہوگیا....اور یہ رسالت مصطفی کی ایسی ساطع وقاطع دلیل ہے کہ آج 14 سوسال سے
زائد کا عرصہ گزر چکا مگرکوئی اس چیلنج کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور نہ ہی
قیامت تک کوئی اس پر قادر ہوگا۔
اگر ہم کسی انسان کے فصیح وبلیغ کلام کا مطالعہ کریں تو اختلافِ مضامین ،اختلاف
احوال اور اختلاف اغراض سے ان کی فصاحت وبلاغت میں فرق ضرور نظر آئے گاجیسے
اہل عرب کے جن شعراءاور خطبا ءکی فصاحت وبلاغت میں مثالیں دی جاتی ہیں ....ان
میں سے کوئی تعریف ومدح بہت بڑھ چڑھ کرہے تو ہجومیں معمول سے زیادہ گرا ہوا
اور کوئی اس کے برعکس ہے ....کوئی مرثیہ گوئی میں فوقیت رکھتاہے تو غزل میں
بھداہے اورکوئی اس کے برعکس ہے....اوریوں ہی کوئی رجز میں اچھا ہے تو قصیدے
میں خراب اورکوئی اس کے برعکس ....اس تمام کے برعکس قرآن کریم پر غور
فرمائیے !اس میں وجوہِ خطاب بھی مختلف ہیں : کہیں قصص ومواعظ ہیں.... کہیں
حلال وحرام کا ذکر....کہیں اعذاروانذارتو کہیں وعدہ ووعید ....کہیں تخویف
وتبشیرتو کہیں اخلاق حسنہ کا بیان ہے مگریہ کتاب ہر فن میں فصاحت وبلاغت کے
اس اعلی درجے پر فائز ہے جوبشری طاقت سے باہر ہے ....یوں تو قرآن کریم کی
فصاحت وبلاغت کے سلسلے میں بے شمار واقعات وروایات ہیں ،سردست صرف دوکے ذکر
پر اکتفاءکرتاہوں:
(۱)....درسِ نظامی (عالم کورس)کے نصاب میں داخل مشہورکتاب سبع معلقات کے
فصیح وبلیغ شعراءمیں سے ایک حضرت لبید بن ربیعہ رضی اللّٰہ عنہ ہیں ۔ انہوں
نے اسلام قبول کیا اور قبول اسلام کے بعد 60سال زندہ رہے ....نیز اسلام
لانے کے بعد انہوں نے صرف یہی ایک شعرکہا:
ماعاتب المرءالکریم کنفسہ
والمرءیصلحہ القرین الصالح
ٍایک دن امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللّٰہ عنہنے ان سے فرمایا:”اپنے
اشعارمیں سے مجھے بھی کچھ سناﺅ۔“تو انہوںعرض کی: ماکنت لاقول شعرابعد ان
علمی اللّٰہ تعالی البقرة وال عمران یعنی جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے سورہ
بقرة اور سورہ ال عمران سکھادی ہے میں کوئی شعرنہیں کہتا۔(اسد الغابة،ج ۴،
ص540)
(۲)....دورتابعین سے تعلق رکھنے والے فصاحت وبلاغت میں یگانہ روز”ابن
المقفع“ کے متعلق منقول ہے کہ اس نے قرآن کریم کا معارضہ کرنا چاہاتو ایک
کلام نظم کیا ، اسے مفصل بنایااور اس کا نام ”سورتیں“ رکھا.... ایک دن وہ
کسی مدرسے کے پاس گزراتو اس نے کسی بچے کو قرآن کریم کی یہ آیت طیبہ پڑھتے
ہوئے سنا :
وَ قِیلَ یٰٓاَرضُ ابلَعِی مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقلِعِی وَغِیضَ المَآءُ
وَقُضِیَ الاَمرُ وَاستَوَت عَلَی الجُودِیِّ وَقِیلَ بُعدًا لِّلقَو ±مِ
الظّٰلِمِینَ 0 (پ 12،ہود:۴۴)
ترجمہ کنزالایمان :اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے
آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہِ جودی
پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ ۔
یہ سن کروہ واپس لوٹااورگھر آکر جوکچھ لکھا تھا سب مٹاڈیااور کہا کہ اشہد
ان ہذا لایعارض ابدا وماہو من کلام البشر یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اس
کتاب کا معارضہ کبھی نہیں ہوسکتا اور یہ انسان کا کلام نہیں۔(تفسیر
الماوردی،ج۱،ص31،المواہب اللدنیة مع شرحہ الزرقانی،ج۶،ص۴۴۴)یا اس نے یہ
کہا:ہذا کلام لایستطیع احد من البشران یاتی بمثلہ یعنی یہ ایسا کلام ہے کہ
کوئی بشر اس جیسا کلام نہیں کرسکتا۔(تفسیر البحرالمحیط ،ج۵،ص229)
اپنی گفتگو”تفسیر مظہری (مترجم)کے مقدمہ “سے اس اقتباس پر ختم
کرتاہوں:”بھلا وہ کلام جو اپنے الفاظ ومعانی فصاحت وبلاغت عذوبت وحلاوت
،جامعیت وآفاقیت اور اثر انگیزی وسحرطرازی میں اس عظمت وشان کا حامل ہو کہ
ہر دور کے منکرین کو یہ چیلنج دے رہاہو:” فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثلِہ
وَادعُوا شُہَدَآءَکُم مِّن دُونِ اللہِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ(پ۱،البقرة
:23)تولے آﺅ ایک سورت اس جیسی اور بلالو اپنے حمائتیوں کو اللہ کے سوا اگر
تم سچے ہو۔“
تو پھر کون ہے ؟جو اس کے حقیقی کمالات واوصاف بیان کرسکے۔۔ذراغورتو
کیجئے.... کون ہے ؟جو اس عظیم کلام سے وابستہ ہو اور دوجہاں میں سرخرو نہ
ہو....کون ہے ؟جو عامل قرآن تو ہو مگر خالق کائنات نے اسے اپنے خصوصی
انعامات سے نہ نوازہو....کون ہے ؟ جس نے اس بحرذخار میں غواصی کی ہو مگر اس
کادامن لعل وگوہر سے نہ بھراہو....کون ہے ؟جس کا سینہ مسکن آیات قرآنیہ ہو
دل ان کی ضیاءسے ضوفشاں ہواور ذہن ان میں تدبر کناں ہو مگر وہ تجلیات ربانی
کا مرکز نہ ہواور کتاب الہی کے اسرار ورموز اس پر ظاہر نہ ہوں....کون ہے
؟جس کا مسیحا قرآن ہومگر وہ شفایاب نہ ہو....کون ہے ؟جس کاہادی ورہبر قرآن
ہو مگر وہ صراط مستقیم پر گامزن نہ ہو....کون ہے ؟جس کا شفیع قرآن ہومگر وہ
جنت کی بہاروں کا مستحق نہ بنے....کون سا وہ گھر ہے ؟جس میں تلاوت قرآن تو
ہومگر وہ ملائکہ رحمت کی آماجگاہ نہ بنے....اور کون سا وہ معاشرہ ہے ؟جس
میں دستور ِقرآن رائج توہو مگر وہ امن وآشتی اور سکون وراحت کا گہوارہ نہ
ہو....بلکہ جس کا تعلق قرآن سے مستحکم ہوجاتاہے ،قرآن کریم میں وہ جملہ
اوصاف وکمالات اور فضائل ومحاسن موجود ہیں کہ اسے گوہر مقصودحاصل ہوجاتاہے۔
(تفسیرمظہری (مترجم)،التقدیم،ج۱،ص21)
(نوٹ:یہ مضمون علامہ نوربخش توکلی رحمة اللّٰہ علیہ کی مشہور تصنیف ”سیرت
رسول عربی “کی روشنی ورہنمائی میں تحریرکیا گیاہے) |