جنّتی آدمی

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”ابھی تمہارے پاس ایک جنّتی آدمی آئے گا“۔ اتنے میں ایک انصاری آئے جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ اور انھوں نے جوتے بائیں ہاتھ میں تھام رکھے تھے۔

دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات ارشاد فرمائی اور پھر وہی انصاری اسی حال میں آئے جس حال میں پہلی مرتبہ آئے تھے۔ تیسرے دن پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی انصاری اسی پہلی حالت میں آئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مجلس سے ) اٹھے تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ان انصاری کے پیچھے گئے اور ان سے کہا کہ والد صاحب سے میرا جھگڑا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میں نے قسم کھالی ہے کہ میں تین دن تک ان کے پاس نہیں جاﺅ ں گا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اپنے یہاں تین دن تک ٹھیرا لیں۔ انھوں نے فرمایا بہت اچھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ان کے پاس تین راتیں گزاریں ، میں نے انھیں رات میں کوئی عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ جب رات کو آنکھ کھل جاتی اور بستر پر کروٹ بدلتے تو اللہ کا ذکر کرتے اور اللہ اکبر کہتے، یہاں تک کہ فجر کی نماز کے لئے بستر سے اٹھتے اور ایک بات یہ بھی تھی کہ میں نے ان سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں سنا۔

جب تین راتیں گزر گئیں ، میں ان کے عمل کو معمولی ہی سمجھ رہا تھا ،( اور حیران تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اتنی بڑی بشارت دی ہے اور ان کا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں) ،تومیں نے ان سے کہا ، اللہ کے بندے میرے اور میرے باپ کے درمیان نہ کوئی ناراضگی ہوئی ہے اور نہ جدائی ۔ لیکن (قصہ یہ ہوا کہ ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ”ابھی تمہارے پاس ایک جنّتی آدمی آنے والا ہے اور تینو ں مرتبہ آپ ہی آئے ، اس پر میں نے ارادہ کیا کہ میں آپ کے یہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں تاکہ پھر اس عمل میں آپ کے نقشِ قدم پر چلوں۔میں نے آپ کو زیادہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اب آپ بتائیں ، آپ کا وہ کونسا خاص عمل ہے ، جس کی وجہ سے آپ اس مرتبہ پر پہنچ گئے ۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے ارشاد فرمایا۔

ان انصاری نے کہا کہ میرا کوئی خاص عمل تو نہیں ، یہی عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہ سن کر چل پڑا ، جب میں نے پشت پھیری تو انھوں نے مجھے بلایا اور کہا ”میرے اعمال تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں ۔ البتہ ایک بات یہ ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے اور کسی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص نعمت عطا فرمارکھی ہو تو میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا یہی تو وہ عمل ہے جس کی وجہ سے تم اس مرتبہ پر پہنچے ہو۔ یہ ایسا عمل ہے جس کو ہم نہیں کرسکے۔ ( مسند احمد)

حسد ایک بد ترین بیماری اور مہلک گناہ ہے۔ جس کی حقیت یہ ہے کہ کسی کے پاس دین یا دنیا کی نعمت دیکھ کر دل میں جلنا اور یہ آرزو کرنا کہ یہ نعمت اس سے چھین لی جائے ، حسد کرنے والا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور تقدیر پر اعتراض کرتا ہے۔ کہ اللہ نے یہ نعمت فلاں کو کیوں عطا کی اور مجھے کیوںنہیں دی۔ سب سے پہلے حسدکا گنا ہ ابلیس نے کیا تھا جب حضرت آدم علیہ السلا م کو خلافت عطا کی گئی ، وہ انسان کی عظمت و توقیر کو برداش نہ کرسکا اور جل بھن گیا ، یہ حسد ہی کی بیماری تھی جس نے یہود کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا ۔ وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ آخری نبی ، بنی اسرائیل میں مبعوث ہوگا۔ لیکن جب ان کی امید کے برخلاف جناب خاتم النبیاءحضرت محمد ﷺ بنی اسمٰعیل علیہ اسلام میں پیدا ہوگئے تو وہ حسد میں مبتلا ہوگئے ۔ سورة النساءمیں ہے ”اللہ نے لوگوں کو جو اپنا فضل نبوت عطا کر رکھا ہے ، یہ اس پر حسد کرتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”تم لوگ حسد سے بچے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح سے کھا جاتا ہے ، جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے“ (ابو داﺅد)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسد کی بدترین بیماری اور مہلک گناہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 323080 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.