ایک گمنام انسان کی گمنام
خودنوشت
دہلی سے اپریل 2012 میں شائع ہونے والے ایک ادبی پرچے کا تازہ شمارہ راقم
الحروف کو بھیجا گیا۔ اس میں درج مختلف موضوعات پر مشتمل کتابوں کی ایک
طویل فہرست میں ایک خودنوشت کا نام شامل تھا۔ اس کے لکھنے والے مسعود علی
نامی صاحب تھے جن کا پتہ بھی فہرست میں درج تھا۔ یہ کراچی کی ایک دور
افتادہ بستی میں مقیم 72 سالہ آرٹسٹ جناب مسعود علی ہیں جن کے غلط پتے کو
ہم نے کچھ دیر کی محنت کے بعد کھوج نکالا۔ وہ اس وقت اپنی قیام گاہ پر تنہا
تھے ۔ گفتگو کا آغاز ہوا تو وقت گزرنے کا علم ہی نہ ہوا۔مسعود صاحب کا دل
ہمیں جلدی رخصت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اپنا گھر بھی دکھایا اور خودنوشت
ہاتھ میں تھام کر اس کے مندرجات بھی پڑھ کر سناتے رہے۔ تین بیٹیوں کی
شادیاں کرنے کے بعد مسعود علی اور ان کی اہلیہ کا خیال تھا کہ اکلوتے بیٹے
اور اس کے دو ننھے بچوں کے سہارے بقیہ زندگی چین سے کٹ جائے گی لیکن قدرت
کو کچھ اور منظور تھا۔ چند برس پیشتر ان کا بیٹا کلفٹن میں گاڑیوں کی دوڑ
کے مقابلے کو دیکھنے گیا جہاں ایک گاڑی بے قابو ہوئی اور اگلی صبح ایک
بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کی قبر کو مٹی دے رہا تھا۔ اس حادثے نے انہیں اور
ان کی اہلیہ کو توڑ کر رکھ دیا ۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مسعود علی کی فطری
بذلہ سنجی عود کرآئی اور بظاہر وہ یہ غم بھلانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس عمر
میں بھی ایک ادارے میں ملازمت کرتے ہیں ، وقت پر سونا، وقت پر جاگنا اور
خوش رہنا ۔۔۔یہ ان کی زندگی کے چند زریں اصول ہیں جن پر عمل کرکے وہ آج
بہتر برس کی عمر میں بھی کم از کم اپنی عمر سے بیس برس چھوٹے دکھائی دیتے
ہیں۔دوران گفتگو ان کی اہلیہ بھی آگئیں۔مسعود علی اپنے کمرے کے غسل خانہ کا
دروازہ کھول کر دکھانے لگے: ” یہ دیکھیے! خاصا بڑا ہے۔ ’ نہلانے‘ میں آسانی
رہے گی“۔۔۔ان کے اس جملے پر میں نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔ وہ دوبارہ
گویا ہوئے ” ارے بھئی! میں نے تو اپنی تینوں بیٹیوں کی شادیاں بھی کراچی ہی
میں کی ہیں، یہ سوچ کر کہ انتقال کے بعد کوئی امریکہ سے آتی تو کوئی لندن
سے اور میں ادھر ایدھی کے سرد خانے میں دو روز تک پڑا ان کا ا نتظار کرتا
رہتا۔“ ۔۔۔
مسعود صاحب کی صاف گوئی نے مجھے ایک لحظے کو سن کردیا۔۔۔!
|
|
اچھا یہ تو بتائیے کہ ’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘ بقول آپ کے نہ تو
بازار میں رکھوائی گئی اور نہ ہی کسی اخبار میں اس پر تبصرہ شائع ہوا، پھر
یہ دہلی کیسے پہنچی حضرت ؟ “ ۔۔۔میرے اس سوال پر مسعود علی نے کہا کہ وہ
خود حیران ہیں کہ یہ کیا معمہ ہے۔کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے ” رسالہ ہمدرد
صحت میں اس کا مختصر تعارف شائع ہوا تھا۔“ ۔۔۔ادھر میں جھٹ معاملے کی تہہ
تک پہنچ گیا۔ ہمدرد کراچی کے علاوہ یہ ادارہ دہلی میں بھی تو ہے جہاں اسے
حکیم سعید کے والد حکیم عبدالمجیدنے 1960 میں قائم کیا تھا۔یقیننا ہمدرد
صحت کا وہ شمارہ دہلی گیا ہوگا جہاں سے اس پرچے کے مدیر تک پہنچا ہوگا جس
میں کتابوں کی وہ فہرست شائع ہوئی ہے جس میں مسعود علی کی کتاب کا نام بھی
شامل کیا گیا ہے۔
کچھ وقت گزرا کہ مسعود علی اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لائے جس میں ان کے مارچ 2012
کے دورہ لکھنو کی ویڈیو محفوظ تھی۔ ہم کراچی کے ایک دور پرے کے علاقے میں
خوشگوار ٹھنڈی ہوا میں لکھنو میں گزرے لمحات کو دیکھتے رہے۔ بقول مسعود علی،
انہوں نے یہ خودنوشت اپنے دوستوں اور عزیز اقارب کے لیے لکھی ہے لیکن
اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میں انہیں اس
کتاب کو اردو بازار میں کتابوں کی چند بڑی دکانوں پر رکھوانے پر آمادہ کرتا
رہا۔
مسعود علی کے والد لکھنو کے موضع کیولی سے تعلق رکھتے تھے۔سرکاری ملازم تھے
، طبیعت میں سختی تھی۔ ان کے والد اپنے دیگر اہل خانہ کے ساتھ تقسیم ہند کے
فورا بعد کراچی آگئے تھے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش
آیا جس سے وہ بدل ہوگئے۔وہ ایک روز کہیں بس میں سفر کررہے تھے۔کنڈکٹر بار
بار آگے بڑھنے پر اصرار کررہا تھا۔وہ ہر مرتبہ اس کے ہانک لگانے پر آگے بڑھ
جاتے تھے۔آخر میں کنڈکٹر زور سے بولا ’ اوئے شیروانی!آگے بڑھو‘۔۔۔مسعود علی
کے والد کا پارہ چڑھ گیا۔لاحول پڑھ کر کہنے لگے اس ناہنجار نے ہمیں شیراونی
کہہ کر مخاطب کیا۔ انہوں نے بس رکوائی اور نیچے اتر گئے۔گھر پہنچ کر اپنے
بچوں سے کہا کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہے، یہاں کسی کی کوئی عزت ہی نہیں
ہے، سو میں واپس لکھنو جارہا ہوں۔ سب لوگوں نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی
لیکن وہ فیصلہ کرچکے تھے۔واپس گئے تو ایسے کہ پھر پاکستان کبھی نہیں لوٹے۔
ہندوستان میں مسعود علی کے والد نے آسودہ حال زندگی گزاری ۔ وہ نیپال کی
ترائی میں ریاست نانپارہ میں تعینات تھے۔ مسعود علی تقسیم سے قبل اپنی بچپن
کی یادوں کے باب میں لکھتے ہیں: ” والد صاحب شکار کا خاص اہتمام کیا کرتے
تھے۔ان کو قورمہ زیادہ پسند تھا۔اس کے ساتھ گرم روٹیاں پکا کر بھیجی جاتی
تھیں۔مرتبانوں میں چٹنیاں اور اچار بھی دستر خوان کی زینت بڑھاتے تھے۔سبزی
اور دال تازہ گھی میں بگھاری ہوتی تھی، قورمے میں دو انگل چکنائی کا تار
ضروری تھا۔پودینے کی چٹنی اور خشکہ چاول تو دستر خوان کے لازمی جز تھے۔سالن
دو طرح کے ہوتے تھے،کبھی لوکی گوشت، کبھی پالک گوشت۔شکار کے گوشت کا بڑا
اہتمام ہوتا تھا۔کالے اور بھورے تیتر مسلم بھون کر پکائے جاتے تھے۔سارا
کھانا اصلی گھی میں پکتا تھا۔جب سرسوں کی فصل تیار ہوتی تھی تو والد صاحب
قرب و جوار کے گاؤں سے شہد کے بڑے بڑے چھتے منگواتے تھے۔اس پیلے شہد کا ایک
منفرد ذائقہ ہوتا تھا، سال بھر کی ضرورت کے لیے شیشے کی بوتلوں میں بھر کر
رکھ لیا جاتا تھا۔ “
|
|
مسعود علی نے بچپن میں ہر وہ کام کیا جو ایک بچے کو کرنا چاہیے۔ان کے
دوستوں نے کھیت میں طوطے پکڑنے کا طریقہ وضع کیا ہوا تھا۔پتلی رسی میں بانس
کی نلکیاں ڈال کر اسے لمبائی میں کھیت کے اوپر باندھ دیتے تھے ۔جونہی طوطوں
کاجھنڈآکر اس کے اوپر بیٹھتا تھا، وہ نلکیاں گھوم جاتی تھیں اور طوطے الٹے
لٹک جاتے تھے۔طوطے کی یہ خصلت ہے کہ جب تک وہ سیدھا نہ ہوگا، نلکی کو سختی
سے پکڑے الٹا ہی لٹکا رہے گا اور آزاد ہونے کی کوشش کرتا رہے گا۔اسی سے
فائدہ اٹھا کر انہیں دبوچ لیا جاتا تھا ، دن بھر کی قید کے بعد شام کو یہ
طوطے آزاد کردیے جاتے تھے اور اس طرح وہ دوبارہ کھیت کا رخ کرنے سے اجتناب
برتتے تھے۔ بارشیں معمول سے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ اس دوران ندی میں مگرمچھ
آجایا کرتا تھا، بکری اس کی مرغوب غذا تھیں۔ گاؤں والوں نے مگر مچھ سے
نمٹنے کا ایک انوکھا حل نکلا تھا۔ بکری کے بچے کی کھال میں چونا بھر کر اس
کی سلائی کردیتے تھے اور اسے بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ تالاب کے کنارے لے
جاتے تھے۔ چونے سے بھرا بکری کا بچہ ندی کنارے کھڑا کردیا جاتا تھا اور کچھ
دیر بعد بکریوں کو محفوظ جگہ پر لے جایا جاتا تھا۔سب لوگوں کے جانے کے بعد
مگر مچھ تیزی سے اپنے ’ڈمی‘ شکار پر حملہ آور ہوتا تھا اور اسے ہڑپ کرنے کے
بعد واپس پانی میں چلا جاتا تھا۔ اس کے پیٹ میں موجود چونے کو جیسے ہی پانی
ملنا شروع ہوتا ، چونا آہستہ آہستہ گرم ہو کر کھولنے لگتا، مگر مچھ اس
ناگہانی افتاد سے پریشان ہو کر پانی میں بھاگا بھاگا پھرتا اور بلاآخر دم
توڑ دیتا تھا۔
مسعود علی تقسیم کے بعد پہلے لاہور اور بعد ازاں کراچی آئے۔کراچی میں ان کا
قیام بہار کالونی میں تھا جہاں زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے سخت محنت
کرنی پڑتی تھی۔ نئی جگہ، نیا ماحول۔ایک واقعہ تو ان کے ساتھ خاصا دلچسپ پیش
آیا۔مسعود علی کا ہم جماعت جس کے وہ ساتھ مل کر پڑھا ئی کیا کرتے تھے، ایک
روز نہ آیا، یہ اس کے بتائے ہوئے پتے پراس کی تلاش میں نکلے۔ پاؤں میں سلیم
شاہی جوتی اور سفید کرتہ پاجامہ پہنے مسعودعلی گلیوں گلیوں بھٹک رہے تھے کہ
انہیں احساس ہوا کہ ایک گھر کی چاردیواری پر بیٹھے چار پانچ لڑکے انہیں
حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے انہیں کرخت لہجے میں
آواز دی: ” اوئے ایتھے آ“۔مسعود علی نے بوکھلا کر عقب میں دیکھا کہ شاید
مخاطب کوئی اور ہے، پھر غلطی کا احساس ہوا تو بے اختیار ان لڑکوں کے پاس
چلے گئے اور لکھنو کے نستعلیق لہجے میں گویا ہوئے : ” فرمائیے“۔اس سننا تھا
کہ وہ تمام لڑکے لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہنے لگے ” لو بھئی فرماؤ۔۔۔۔اے کیہڑی
شے اے“۔مسعود علی حیران ہوکر ان کا منہ تکنے لگے۔ بہت برسوں بعد ایسا ہی
کچھ ایک مرتبہ دوبارہ ہوا جب مسعود علی کے دفتر میں ایک دبلے پتلے لکھنوی
بزرگ ملازم رکھے گئے۔ عید کا دن تھا۔دفتر کے ایک اور ملازم مجید صاحب کہ
بہت لمبے تڑنگے تھے اور پنجاب سے ان کا تعلق تھا، ان لکھنو ¿ی بزرگ سے عید
ملنے کے لیے ان کے گلے لگ گئے ، خوب بھینچ بھینچ کر عید ملتے رہے ۔ادھر وہ
بزرگ چلاتے رہے کہ قبلہ! خدارا مجھے چھوڑ دیجیے۔مجید صاحب نے جب انہیں
چھوڑا تو وہ تکلیف سے کراہتے ہوئے زمین پر گر گئے۔ اب تو مجید صاحب بہت
گھبرائے، سب نے انہیں اٹھایا اور اسپتال لے گئے۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ان
بزرگ کی دو پسلیاں ٹوٹ چکی ہیں۔
|
|
خودنوشت کا ایک بڑا حصہ ہندوستان میں ان کے بچپن کی یادوں پر مشتمل ہے۔اس
کے علاوہ اس میں مسعود علی نے اپنے اہل خانہ کے بارے میں تفصیلات بیان کی
ہیں ، کچھ واقعات دفتر کے ہیں۔ کتاب میں چند خطوط شامل کیے گئے ہیں اور آخر
میں مصنف اور ان کی اہلیہ کے سفر لکھنو کی روداد بھی موجود ہے۔
”بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ‘ ‘ ایک بذلہ سنج انسان کی داستان حیات ہے۔
انداز تحریر میں شوخی ہے۔ مسعود علی نے یہ کتاب اپنے عزیز و اقارب اور دوست
احباب کے لیے تحریر کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ عام قارئین تک بھی پہنچے۔ |