سیاست کے بازار کی رونق بڑھتی
جارہی ہے۔ مگر یہ رونق صرف بھیڑ کی حد تک ہے۔ بڑے شہروں کے چھوٹے علاقوں
میں رمضان کے آخری عشرے میں لگنے والے بازار بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر طرح
کے شوقین اِن بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں مگر اُن میں خریدار معدودے چند
ہی ہوتے ہیں! اِس وقت سیاسی بازار میں بھی خریدار کم اور تماش بین زیادہ
ہیں۔ اور یہ تماش بین بھی ایسے ظالم و خسیس ہیں کہ کوئی اچھا تماشا دیکھنے
کے بعد بھرپور داد دینے کے بھی روادار نہیں! جب بھی کوئی انہونی ہو جاتی ہے،
سب محظوظ ہوکر ایک طرف کو ہو لیتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کی رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو چیف
ایگزیکٹیو کے منصب پر بٹھا تو دیا مگر ”ایگزیکیوشنرز“ اُن کی تاک میں ہیں!
بات خط سے چلی تھی اور پھر خط پر آگئی ہے۔ عدلیہ کی مہربانی ہے کہ ایوان
صدر کو تمام مصروفیات سے گلو خلاصی دِلاکر وزیر اعظم کے دفاع پر لگادیا گیا
ہے۔ سارے معاملات، سارے جھمیلے ایک طرف اور راجہ صاحب کی گردن این آر او
کیسز کے معاملے پر خط لکھنے کے عدالتی مطالبے سے بچانے کی کوشش ایک طرف!
راجہ پرویز اشرف کا بھی عجیب ہی معاملہ رہا ہے۔ جب وہ پانی اور بجلی کے
وزیر تھے تب قوم بجلی کو ترستی رہی۔ وہ اپنے بیانات کے ذریعے جھٹکے دیتے
رہے مگر قوم کی تشفی نہ ہوئی۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے میں ناکام رہنے
والے راجہ پرویز اشرف کو اب وزیر اعظم کی کُرسی مسلسل جھٹکے دے رہی ہے۔ اگر
اِتنے جھٹکے پہلے مِلے ہوتے تو وہ قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دِلا چکے ہوتے!
مرزا تنقید بیگ کی حالت عجیب ہے۔ ٹی وی پر سیاسی مناظرے بازی یعنی ٹاک شوز
دیکھنے کے شوق نے اُنہیں کہیں کا نہ رہنے دیا۔ اُن کی باتوں میں پہلے ہی
کون سا ربط تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ کہنا کچھ چاہتے ہیں اور منہ سے نکلتا کچھ
ہے! ٹاک شو دیکھنے کی عادت نے اُن کی گفتگو میں دُنیا بھر کے بے سر و پا
تصورات کو سمودیا ہے! ہم نے اُن سے کہا کہ راجہ پرویز اشرف نے پانی و بجلی
کے وزیر کی حیثیت سے قوم پر یہ احسان تو کیا تھا کہ پرائم ٹائم میں بجلی
غائب رہنے سے لوگ سیاست دانوں اور اینکرز کی انٹ شنٹ باتیں سُننے سے بہت حد
تک محفوظ رہے تھے! مرزا کو جب کوئی بات بُری لگتی ہے تو اینکرز کی طرح انٹ
شنٹ بولنے لگتے ہیں اور پھر اُن پر قابو پانا خاصا دُشوار ثابت ہوتا ہے۔ وہ
راجہ پرویز اشرف سے الرجک رہے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے سے متعلق
اُن کی دی ہوئی ڈیڈ لائنز پر بھروسہ کرکے مرزا کئی بار شدید مایوسی کا شکار
ہوئے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم راجہ پرویز اشرف کے حق میں کچھ کہیں گے تو مرزا
بدک جائیں گے اور کچھ نہ کچھ ایسا ویسا ضرور ارشاد فرمائیں گے جس سے ہمیں
کالم لکھنے کی تحریک مِِِلے! مگر یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی
کہ مرزا نے راجہ پرویز اشرف کے حق میں کہی جانے والی بات سُن کر ذرا بھی
ناراضی کا اظہار نہ کیا۔ ہم یہ سوچ کر سہم گئے کہ ٹی وی چینلز پر سیاسی
گفتگو سُن سُن کر شاید مرزا کے ذہن نے کام کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے! پھر ہم
نے یہ دیکھا کہ مرزا کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر شاید موزوں ترین الفاظ اُن
کے ذہن کی اسکرین پر نمودار نہیں ہو رہے تھے! مرزا کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں
بہت رنج پہنچا۔ ہماری سیاست بھی کیا کیا گل کِھلا رہی ہے!
کچھ دیر بعد مرزا کے حواس بحال ہوئے تو ہم قدرے سُکون کا سانس لیا کہ وہ
ذہنی طور پر کچھ تو سلامت ہیں۔ یعنی کچھ دیر گپ شپ رہے گی۔ مرزا کی ذہنی
حالت پر افسوس کا محل تھا مگر جب حواس بحال ہونے پر اُنہوں نے بولنا شروع
کیا تو اندازہ ہوا کہ سیاست کے جلووں کی فراوانی اور ہماہمی نے اُنہیں حواس
باختہ ہی نہیں، حواس رفتہ بھی کردیا ہے! ایسے میں یہ خیال آیا کہ مرزا کے
حواس کا گم رہنا ہی بہتر حالت ہے!
حکومت اور عدلیہ کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب حکمرانی
صرف اداروں کے درمیان تصادم کا نام ہے۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاو ¿س کو
ملک اور قوم کے معاملات سُلجھانے اور عوام کے مسائل حل کرنے ہیں۔ مگر سارا
زور وزیر اعظم کو بچانے پر لگایا جارہا ہے۔ جس حکومت کا بیشتر وقت اور
توانائی اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر صرف (یا ضائع) ہو وہ ہمارے لیے کیا
کر پائے گی، اِس کا اندازہ لگانا کچھ دُشوار نہیں۔
مرزا اِس بات کو روتے رہتے ہیں کہ انتقامی سیاست اور اداروں کی محاذ آرائی
نے ملک کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب دُنیا تماشائی ہے اور ہم تماشا۔
ہمیں اُن کے رونے پہ ہنسی آتی ہے۔ ہم اُن کی بات سے متفق نہیں۔ ایک قوم کی
حیثیت سے ہم میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر دُنیا متوجہ ہو۔ ایسے میں بھی
اگر دُنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے تو یہ ہماری ناکامی کی کامیابی ہے! مرزا
کو صرف رونا آتا ہے۔ اہل دانش کہتے ہیں کہ زندہ قومیں وہ ہیں اپنے حال پر
ہنسنے کا حوصلہ اور ظرف رکھتی ہوں۔ اور اگر زندہ قوم ہونے کا یہ معیار طے
کرلیا جائے تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنے
”مِشن“ میں ناکام نہیں رہیں! سیاست، حکمرانی اور اداروں کے درمیان معاملات
خالص چُوں چُوں کے مُربّے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ایسے میں اپنے حال پر
ہنسنے کے سِوا کچھ کرنا ممکن دِکھائی نہیں دے رہا! ویسے تو مُربّہ کھایا
جاتا ہے مگر ہماری سیاست نے چُوں چُوں کے ایسے مُربّے کی شکل اختیار کی ہے
جو پوری قوم کو کھاگیا ہے! مرزا جیسے روتے، منہ بسورتے لوگوں کو یہ سوچ کر
مطمئن ہو رہنا چاہیے کہ ہم ایک مثال بن کر دُنیا کے سامنے کھڑے ہیں۔
کامیابی کی نہیں سہی، ناکامی کی مثال سہی! |