تمام والدین کا خواب ہوتا ہے کہ
اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائے ۔ اس میں سے کچھ کے خواب پورے
ہوجاتے ہیں اور کچھ کے نہیں۔ جن والدین کے خواب پورے ہوجاتے ہیں وہ اپنے آپ
کو بڑا خوش نصیب سمجھتے ہے اور جن کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں وہ خود کو
بدنصیب سمجھتے ہیں ۔ ان بڑے لوگوں میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز بھی
شامل ہیں لیکن مجھے یہ لکھتے ہوئے انتہائی دکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ یہی
ڈاکٹر جس وقت میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیںتو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ
”ہم ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے“ مگر جب ڈاکٹر بن جاتے ہیں
تو پھر یہ خدمت کے دعوے کو بھول جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹرز نے جو کیا وہ
کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جن لوگوں کے جگر گوشے ، والدین اور عزیز و اقارب ان
ڈاکٹرز کی لاپرواہی سے اس دنیا سے چلے گئے ان کی ذمہ داری کس پر آتی ہے؟
کہاں گئے یہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے؟ دوٹکوں کے مفاد کے لیے ڈاکٹرز
نے ان لوگوں کا ناقابل تلافی نقصان کردیا۔ کیا یہ ڈاکٹرز ہڑتال کے بعداپنے
مطالبات منواسکیں ہیں؟ اگر انہوں نے کوئی ایک مطالبات منوا بھی لیے تو اب
وہ لوگ ان ڈاکٹرز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے جولوگ ان کی لاپرواہی کی وجہ
سے اس دنیا سے کوچ کرگئے کیا یہ ان کو واپس لاسکتے ہیں؟
تب وہ بدنصیب والدین جن کے بچے بڑے آدمی نہ بن سکے وہ اپنے آپ کو خوش نصیب
سمجھتے ہیں کہ چلو ہم نے کسی کو کچھ دیا نہیںتو کسی سے لیا بھی نہیں۔ کم
ازکم وہ کم تعلیم یافتہ لوگ خندہ پیشانی سے اپنے ملک و قوم کی خدمت کررہے
ہیں۔ ان کی تنخواہیں سال میں 10%سے15%فیصد بڑھا کر (آٹے میں نمک کے
برابر)انہیں خوش کردیتے ہیں اور وہ لوگ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے
ہیںاور دوسری طرف یہ لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والوں کا حوض نہیں بھرتا ۔ڈاکٹرز
بھی عوامی نمائندے ہوتے ہیںکیونکہ یہ بھی ملک کی خدمت کرنے کے دعوے داربنتے
ہیں اور پھر اپنے مفاد کے لیے اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
اب ایسا ہی کام ہمارے دوسرے عوامی نمائندے جوا پنے آپ کو ملک کے حقیقی
محافظ سمجھتے ہیںکرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پچھلے دو دن سے ہم دوہر ی شہریت اور
توہین عدالت کے قانون کے متعلق بڑے زور و شورپڑھ اور سن رہے ہیں۔
پاکستان کی عوام اپنے ووٹ کے ذریعے نمائندگان کو منتخب کرکے اسمبلی میں
بھیجتی ہے تاکہ وہ عوامی کی فلا ح اور ملک کی خدمت کرسکیں ۔الیکشن کے دنوں
میں ان عوامی خیر خواہوں کے بلند و بالا دعوے سن سن کر عوام ان پر یقین
کرکے ووٹ دے دیتی ہے اور یہ جیت کر اسمبلی میں بیٹھ جاتے ہیںاور پھر عوام
کی بھلائی اور مفاد کے لیے قانون سازی بھی کرتے ہیں۔ آج کل اسمبلی میں دو
بل پاس ہورہے ہیں ایک توہین عدالت کا بل جو پاس ہوگیا ہے جس سے ہمارے عوامی
نمائندگان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں ہوسکے گی اور دوسرے وہ
عدلیہ کے فیصلوںپربراہ راست تنقید کر سکتے ہیں۔ کیا یہ عوام کے لیے قانون
پاس کیا ہے؟ عوام نے تو ذرا عدلیہ پر تنقید کی اور وہ فوراًتوہین عدالت کیس
میں دھر لیے جائیں گے۔
ان دنوں سپریم کورٹ پاکستانی قوانین کے مطابق دوہر ی شخصیت (دوہری شہریت)
رکھنے والے عوامی نمائندگان کو نااہل قرار دے رہی جب تک وہ ایک شہریت نہ
رکھے۔ اور ہمارے چندمفاد پرست عوامی لیڈروں کو یہ بات بالکل پسند نہیں۔ وہ
چاہتے ہیں کہ ہم حکومت تو پاکستان پر کریں مگر شہریت دوسرے ملکوں کی رکھیں۔
اگر پاکستان کی شہریت ان کو پسند نہیں ہے تو پھریہ مفاد پرست حکمران ملک
چھوڑ کردوسرے ملک کیوں نہیں چلے جاتے جس کی ان کے پاس شہریت ہے ۔ شاید اُس
ملک سے انہیں لوٹنے کے لیے کچھ نہیں ملے گا جس طرح یہ پاکستان سے لوٹ رہے
ہیں ۔
ہمارے عوامی نمائندوں میںخصوصیات توبہت ہیں مگر آج جن پر بات ہورہی ہے وہ
ہے دوہر ا معیار۔ سیاستدان حکومت تو پاکستان پر کرتے ہیں مگر شہریت دوسرے
ممالک کی رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے بنک اکاونٹس اور کاروبار دوسرے ممالک
میں کرنا پسند کرتے ہیں۔ حتٰی کہ وہ اور ان کی فیملی شاپنگ تک دوسرے ممالک
سے کرنا پسند کرتے ہی نہیں بلکہ سو فیصد کرتے ہیں۔
اس وقت اس بل کی مخالفت میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود حکومتی ممبران بھی
پیش پیش ہیں کیونکہ کوئی بھی محب وطن نہیں چاہتا کہ ان کے اوپر دوسرے ملکوں
سے لا کر حکمران مسلط کئے جائیں۔پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں جتنے لیڈرز کی
دوہر ی شہریت ہے وہ حکومت ختم ہوتے ہی ملک سے فرار ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ
اقتدار کے دنوں میں تو ان کوکوئی چھو بھی نہیں سکتا اور اقتدار کے خاتمے کے
بعد یہ ملک میں رہ نہیں سکتے۔
معین قریشی، شوکت عزیزاور پرویز مشرف جیسے لوگوں کی مثال آپ کے سامنے ہیں۔
اب ان کی کرپشن سامنے آبھی جائے تو کون ان کو دوسرے ملکوں سے لیکر پاکستان
آئے گا اور ان کے خلاف کاروائی کرے گا؟ یہ خود تو پاکستان میں آنا پسند
نہیں کرتے ۔ اب موجودہ حکومت میں بھی کچھ لوگ ایسا ہی چاہتے ہیں کہ ان کا
اقتدار ختم ہونے کے قریب ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسا قانون پاس کرالیں
تاکہ انہیں ملک سے فرار ہونے میں آسانی رہے۔مگرمیں یہاں پرخراج تحسین پیش
کروں گا چیف جسٹس آف پاکستان کو جو ہرغیر قانونی کام کرنے والے کے سامنے
سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اب پھروہ وقت قریب آرہا ہے جس میں عوام کو لولی پاپ دےکر ان کی قسمت سے
کھیلا جائے گا۔کبھی پٹرول سستا توکبھی لوڈشیڈنگ میں کمی، کہیں پرہوں گے
ترقیاتی کام تو کہیں پر ملے گا روز گار۔یہ وہ سونے کے نوالے ہیں جن کو یہ
لیڈر اب عوام کے منہ ڈالیں گے اور ہم پچھلے ساڑھے چار سال کی شدید تکالیف
کو بھول کر پھران کے چکر میں آجائیں گے۔ اگر اب بھی عوام نے آنکھیں نہ
کھولی اوراپنے اور ملک کے خیر خواہوں کا ساتھ نہ دیا تو پھر ہر بار کی طرح
پانچ سال ان کواپنا مقدر سمجھ کر رونا پڑے گااور اپنا خون دینا ہوگا۔آج وقت
ہے کہ ہم انصاف کو گھر گھر پہچانے کے لیے اپنے عدلیہ کا ساتھ دیں۔چیف جسٹس
کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائیںاور ان عوامی لیڈران کا ساتھ دیںجو سوفیصد
پاکستانی ہوں،پاکستان اور اس کی عوام کا بھلا چاہتے ہیں۔ (بشکریہ پی ایل
آئی) |