شاباش دلیر حکمرانوں

آخرکار ناٹو سپلائی کھولنے کا ڈراپ سین ہوگیا، اور ہمارے دلیر حکمرانو ں نے امریکا سے سوری کہلوا ہی لیا، سول اور فوجی حکمرانوں اور ان کی حلیف جماعتوں کی طرح کاروباری میڈیا بھی بغلیں بجا رہا ہے کہ اس دور کے فرعون سے یہ کلمات کہلوائے ہیں، اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ صرف سات مہینوں میں رسد کی بندش سے امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، حالانکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سپلائی بند کی تھی اسی جذبہ کے تحت کھول بھی دی۔ یہ تو ہمارے قدامت پسند اور حد درجہ جذباتی عوام کا قصور تھا کے ان کو اس آزمائش سے خوامخواہ گزارا، شور شغب، جلسہ جلوس، ہڑتالیں وغیرہ کرکے ان کو مجبور کیا کہ وہ ناٹو سپلائی روکیں ، اپنی ہی حکومت اور اس کے تمام اتحادیوں کا دنیا بھر مذاق بنوادیا، ہماری سرحد پار مجبور و بیکس ناٹو کے سپاہی ہماری حکومت سے التجا کرتے رہے کہ ان کے پیمپرز ختم ہوگئے ہیں کہ طالبان کے خوف سے بیت الخلا بھی نہیں جاسکتے ، غم غلط کرنے کے لیے شراب تک مہیا نہیں، کتنے کٹھن تھے یہ دن پڑوسیوں کی حالت دیکھ کر ہمارے حکمرانوں کی حالت بھی جذبہ خدمت خلق سے غیر ہوئی جاتی تھی، اور بس نہ چلتا تھا کہ فورا ان کی سپلائی کھول دی جائے آخرکار حکمرانوں نے انسانی ہمدردی کے تحت یہ نیک کام کر ڈالا کہ ناٹو سپلائی کھول دی۔ ہمارے کچھ لکھاری دوست خوامخواہ اس کو عزت و ذلت کا مسئلہ بنا رہے ہیں، کہ ملک کی خود مختاری، ملکی تحفظ، شہدا کے خون سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی باتوں پر اپنا زور قلم دکھارہے ہیں۔کیا حکومتی معاملات میں ہر شہری کو اس پر رائے دینے کا اختیار ہے؟ کیا کبھی طبی معاملات پر کسی انجینئر کی بات کی اہمیت ہوتی ہے؟ یا کبھی کوئی ڈاکٹر قانونی معاملات پر اپنی بڑائی منواسکتا ہے؟ تو حکومتی معاملات پر ایک عام شہری کیسے رائے زنی کرنا حق رکھتا ہے ۔ ان باتوں کو و ہی تو سمجھے گا جو ان سے وابستہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا حکمران طبقہ جس تعلیمی سسٹم سے نکلتا ہے اس کی ڈکشنری میں ، عزت و ذلت، خود مختاری، اسلام، دین میں انسانوں کے حقوق وغیرہ جسے الفاظ ہوتے ہی نہیں۔ ان بے چاروں کو تو صرف اور صرف اپنے استعماری آقاوں کی خدمت ، ان کے احکام و فرمان کو بجا لانا ، ان کے لیے اپنے آپ کو مٹا دینے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔کیا ہوا اگر امریکی ڈرون حملوں میں سینکڑوں بے قصور بوڑھے ، عورتیں اور بچے شہید ہوئے، کیا ہوا اگر سلالہ پوسٹ پر ہمارے جوان شہید ہوئے؟ کیا ہوا اگر اپنے ملک کو آگ و خون کے دریا میں دھکیل دیا ؟ کیا ہوا اگر لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا گیا؟ کیا ہوا کہ ملک میں لوگوں سے ان کی خوشیاں چھین لی گئیں؟ کیا ہوا اگر کچھ افراد کو امریکا کے ہاتھ فروخت کردیا گیا؟ کیا ہوا کہ ملک کا ایک صوبہ بغاوت پر اتر آیا؟ کیا یہ سب اتنی اہم باتیں ہیں کہ ان پر ایک سپر پاور سے ٹکر لی جائے؟ اس کو آنکھیں دکھائی جائیں جس کے دم سے ہمارے حکمرانوں میں دم ہے ، ہر صبح کا آغاز انہی کی مرضی سے ہوتا ہے ، اور وہ میڈیا اس پر کیا بولے جس کی تنخواہ بھی وہاں سے آتی ہو؟ پاکستان دفاع کونسل والے اپنے گھر وں سے نکل کر احتجاجی جلوس لیکر اسلام آباد تک پہنچے۔ وہ اسلام آباد کو میدان تحریر بنانے کا عزم رکھتے ہیں، ان کے دباو میں نہ آئیں کہ ان کا کون ہے جو ساتھ دے ، وہ تو مجبور لوگ ہیں کہ ان کے پاس دوہری شہریت ہے ہی نہیں کہ کسی مشکل گھڑی میں موقع ملتے ہی امریکا یا برطانیہ سدہار جائیں،نہ ان کے پاس مال و دولت ہے کہ جس پر وہ ووٹ خرید کر حکومت بنا سکیں، نہ ان کے ساتھ فوج اور پولیس ہے کہ اس کا سہارا لے سکیں؟ اور میڈیاکا حال تو جانتے ہی ہیں کہ وہ ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں نیک اور صالح افراد اقتدار میں نہ آجائیں، ہاں دفاعی کونسل کے پاس بہترین اور با صلاحیت قیادت ضرور ہے، ملک کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ہے، دینی حمیت و غیرت ہے ، قوم کو کچھ دینے کی امنگ ہے، مہنگائی اور بجلی کی ستائی ہوئی قوم کہیں ان کے جال میں نہ آجائے، اس پر ضرور نظر رکھیں اور ہوسکے تو حکومتی مولوی کو ان میں شامل کردیں تاکہ وہ وہاں بھی انتشار پھیلا کر حکومت کی ہمیشہ کی طرح مدد کرسکے۔ اس وقت کی اہمیت و نزاکت کو سمجھ کر اچھا ہوا کہ سب کے سب چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ان میں مکمل اتفاق و ہم آہنگی کی وجہ سے ناٹو سپلائی کھل سکی وگرنہ مشکل ہو جاتی، مگر خیال رکھیں ان پاکستان دفاعی کونسل والوں کا کہ کہیں واقعی اسلام آباد کو میدان تحریر نہ بنا دیں، اور حکومت کو چلتا کردیں تو ایسی صورت میں اپنا پاسپورٹ اور سامان ہر وقت تیار رکھیں کہ جب وقت پڑے تو ملک سے بھاگ سکیں اور امریکا یا بر طانیہ منتقل ہوسکیں۔ ماضی قریب میں جو حکمرانوں کا انجام ہوا ہے اس سے عبرت پکڑیں اور امریکا کو خوش کریں ، آخر تو برے وقت میں دوست ہی دوست کے کام آتا ہے، چاہے معین قریشی ہو، شوکت عزیز ہو ، پرویز مشرف سب کو کیسے مہمان بنا کر رکھا ہے ۔ شاباش دلیر حکمرانو ! تم نے ناٹو سپلائی کھول کر حق نمک ادا کیا اور ہمیشہ کے لیے نمک حرامی کے طعنہ سے تمام پاکستانیوں کو بچا لیا۔
Rana Bilal
About the Author: Rana Bilal Read More Articles by Rana Bilal: 19 Articles with 12905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.