اب یہاں سے کہاں جائیں ہم؟

٭ ”اِس مُلک میں آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟“
.... ”کیوں؟ ایسا کیا ہوگیا جس پر حیرت کا اظہار ضروری ٹھہرا؟“
٭ ”کِسی بھی معاملے میں میرٹ کا خیال ہی نہیں رکھا جارہا۔“
.... ”غلط، بالکل غلط۔ ایک معاملے میں میرٹ کا بھرپور، بلکہ پورا خیال رکھا جارہا ہے۔“
٭ ”ایسا کون سا معاملہ ہوسکتا ہے؟“
.... ”میرٹ کا ذرا بھی خیال نہ رکھنے کا!“
٭ ”مذاق چھوڑیے۔ یہ بہت سیریس معاملہ ہے۔“
.... ”میں نے کب کہا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔ میں بھی سیریس ہی ہوں۔“
٭ ”ملک مزید تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اور اداروں میں صرف تصادم ہو رہا ہے۔“
.... ”تصادم کو تصادم سمجھیں گے تو دِل دہلتا رہے گا۔ یہ سب تو لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ گھر کی رونق کِسی نہ کِسی ہنگامے پر موقوف ہے۔“
٭ ”مگر لہو گرم رکھنے کی کوشش تو قوم کو لہو لہو کر رہی ہے۔“
.... ”اچھی خاصی گفتگو میں پتہ نہیں قوم کہاں سے در آتی ہے؟ کوئی بھی بات ہو رہی ہو، تان قوم پر ٹوٹتی ہے۔“
٭ ”کیوں؟ قوم کا ذکر کیوں نہ ہو؟ ہم قوم ہی تو ہیں۔“
.... ”کِس نے کہا کہ ہم قوم ہیں؟“
٭ ”تو پھر کیا ہیں؟“
.... ”بھیڑ ہیں، ہجوم ہیں، مجمع ہیں، ریوڑ ہیں۔ اور سب کچھ ہیں مگر بخدا قوم ہرگز نہیں ہیں۔“
٭ ”تو پھر قوم کیسے بنیں گے؟ اور بن بھی سکیں گے یا نہیں؟“
.... ”بن تو سکتے ہیں مگر یہ کام ہے بہت محنت طلب۔“
٭ ”محنت؟ یہ ہم سے کہاں ہوگا؟ کوئی آسان طریقہ، کوئی شارٹ کٹ بتائیے۔“
.... ”ہر معاملے میں شارٹ کٹ کی خواہش ہی نے تو پوری قوم کا شارٹ سرکٹ کردیا ہے! محنت سے جی چُرانے کی عادت اپنانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہم سب کے دِلوں میں چور ہے۔“
٭ ”مگر کوئی کیا کرے؟ دُنیا جن اُصولوں کو اپناکر آگے بڑھتی ہے اُنہیں اپنانے کی صورت میں تو بہت وقت لگ جائے گا، بہت دیر ہو جائے گی۔ ہم ترقی کی سڑک ناپتے رہ جائیں گے اور دُنیا بہت آگے نکل جائے گی۔“
.... ”آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے .... محنت کا۔ محنت سے جی چُرانے والوں کو بالآخر اپنے آپ سے نظریں چُرانا پڑتی ہیں۔“
٭ ”اِتنا کون سوچتا ہے؟ اور اِتنا سوچنے کی فُرصت ہے کِسے؟“
.... ”سوچتا تو کوئی بھی نہیں۔ سوچنا پڑتا ہے۔ نہ سوچنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ مگر اِس کے بعد بھی سَر پکڑ کر سوچنا ہی پڑتا ہے!“
٭ ”آج جو اقوام ترقی کی شاہراہ پر بہت آگے ہیں اُن کے ماضی کا ہمیں علم ہے۔ وہ جس طرح یہاں تک پہنچی ہیں وہ سب کرنے کے لیے تو صدیاں درکار ہیں۔“
.... ”اب اِن باتوں کو سوچنے کا محل رہا نہیں۔ اب تو عمل کا مرحلہ درپیش ہے۔ جہاں عمل درکار ہو وہاں کوئی اور چیز نہیں چلتی۔ اور رہا صدیوں کا معاملہ تو ترقی یافتہ اقوام کو بھی پس ماندگی کے دور میں اپنا آپ بدلنے کے لیے صدیاں ہی درکار تھیں!“
٭ ”مگر عمل ....“
.... عمل کے معاملے میں اگر مگر کی گنجائش نہیں۔ یہ تو yes اور no کا معاملہ ہے۔“
٭ ”یعنی اگر yes کہیں تو بگڑی بات بن جائے گی؟“
.... ”یقیناً ´ ایسا ہی ہوگا۔“
٭ ”مگر ہر معاملے میں yes تو ہم کرتے ہی رہے ہیں۔ اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پھر معاملات درست کیوں نہیں ہو پائے؟“
.... ”سوال ہتھوڑے پر ہتھوڑے مارنے کا نہیں بلکہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ چوٹ کہاں ماری جارہی ہے!“
٭ ”تو کیا yes کہہ دینا کافی نہیں؟ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ yes کب، کہاں اور کِس معاملے میں کہا گیا ہے؟“
.... ”بالکل۔ گاڑی اینٹوں پر کھڑی ہو تو ایکسیلریٹر دبانے سے پہیّے گھومیں گے مگر گاڑی تو اینٹوں ہی پر رہے گی!“
٭ ”تو کیا ہماری گاڑی اینٹوں پر کھڑی ہے؟“
.... ”اِس میں تو اب کوئی شک بھی نہیں رہا۔ ہم کولھو کے بیل کی طرح ہیں۔ اصلی آنکھوں پر غفلت کی پَٹّی باندھے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ اور ”چشم تصور کی آنکھ“ سے خود کو دُنیا کی سیر کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں!“
٭ ”مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ’ہر عروج را زوال است‘ کے مِصداق کبھی وقت کا پہیّہ اُلٹا گھومے اور ’ہر زوال را عروج‘ کے اُصول کو قبولیت ملے۔ یعنی قدرت ہمیں خود ہی زوال سے دور کرے۔“
.... ”خوابوں اور خیالوں کی دُنیا میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے اور ہوتا آیا ہے! جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے آنے والے کل کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اُن کی خوش گمانیوں کو قُدرت خوب پروان چڑھاتی ہے اور وہ کم از کم خواب و خیال کی حد تک تو تسکین کی دولت پا ہی لیتے ہیں! اب یہ فیصلہ تو ہمیں کرنا ہے کہ آباد ہونے کے لیے کون سی دُنیا اچھی ہے۔ گمان کی یا یقین کی؟“
٭ ”اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اب یہاں سے کہاں جائیں؟“
.... مشکل یہ ہے کہ ہم کہیں کھڑے بھی تو نہیں۔ اگر کوئی سیدھے راستے پر گامزن نہ ہو تو غلط راستے پر چلتا ہے۔ اِسے گمراہی کہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کِسی راہ پر گامزن ہی نہیں۔ سیدھا راستہ نہ مِلے تو غلط ہی سہی۔ کوئی تو راہ ہو جس پر ہم گامزن ہوں۔ کہیں جانا ہے اِس کا تعین کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری، بلکہ لازم ہے کہ ہم کہاں ہیں، کِس مقام پر ہیں۔ مَخمَصہ یہ ہے کہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں ہیں!“
٭ ”تو پھر کیا ہوگا؟ حالات کی اِس قید سے کیسے نکل پائیں گے ہم؟“
.... ”نکل نہیں پائیں گے، نکلنا ہوگا۔ یعنی خود نکلنا پڑے گا۔ نجات دہندہ کا انتظار قید کو مزید طویل اور جاں گُسل بنادے گا۔ خیالات کے پُرکیف گلشن سے نکل کر عمل کے دشت کی ”سیر“ ہی ہمیں اُس راہ پر لائے گی جو منزل کی طرف جاتی ہو۔“
٭ ”تان پھر عمل پر ٹوٹ رہی ہے! عمل کرکے بھی دیکھ لیا، کچھ بھلا نہ ہوا۔“
.... ”کون سا عمل؟“
٭ ’عملیات‘ میں بھی عمل تو پورا کا پورا شامل ہے، جیسے ’نا اُمیدی‘ میں اُمید پوری کی پوری موجود ہے!“
.... لفظوں کا اُلٹ پھیر چھوڑیے، مفہوم کی دُنیا کو اپنائیے۔ ’عملیات‘ اور ’عامل‘ وغیرہ کے داو ¿ پیچ سے جان چھڑاکر خالص عمل کی دُنیا کو اپنائیے، تقدیر بدلے گی بھی اور سنورے گی!“
٭ ”کوشش کر دیکھیں گے، کوشش کرنے میں تو خیر کوئی ہرج نہیں۔“
.... ”کوشش ووشش نہیں، کرنا ہی پڑے گا۔ اب عمل کے میدان میں قدم رکھنے کے سِوا چارہ نہیں۔ تاخیر کی گنجائش نہیں کیونکہ اِس معاملے میں بھی اب بہت دیر ہوچکی ہے! منزل کا تعین تو بعد میں بھی ہوسکتا مگر پہلے مرحلے میں تو یہ لازم ہے کہ جہاں ہیں وہیں پڑے یا کھڑے نہ رہیں۔ اگر قدم نہ بڑھایا تو سمجھ لیجیے گئے کام سے!“
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524411 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More