محترم سلیم بھائی آپکی دونوں تحاریر کا مطالعہ کرنے کے بعد میں آپ سے مخاطب ہوں۔
آپ نے نہایت ہی شائستہ الفاظ میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے جس سے متفق نہ ہونے
کے باوجود آپکی کاوش کی داد دیتا ہوں۔آپ نے بہت ہی مفصل آرٹیکلز میں میری طرف
سے پیش کیے گئے چند مضامین کی نفی فرمائی ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ میں ایک
صحافی ہوں اور تاریخ میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میری تحاریر سے کچھ
دوستوں کی بشمول آپ کے دل آزاری ہوئی ہو، لیکن از راہ کرم مجھے یہ بتائیے کہ آج
اکیسویں صدی میں کیا ہم دنیا سے کٹ کے رہ سکتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل بھی دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
میں سو فی صد اس بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن مہربان یہ بتائیے کہ اگر یہ ممالک
ایسا کر رہے ہیں تو کیا ہم بھی ایسا ہی کرنے لگ جائیں؟
میری آخری تحریر کا اختتام ان الفاظ پر ہوا ہے آپ کو وقت ملے تو ضرور پڑھیے گا؛
اسامہ بن لادن کا لارنس آف عریبیہ سے موازنہ کرنے میں میرا کوئی پوشیدہ ایجنڈا
نہیں ہے اور نہ ہی میں قارئین کی برین واشنگ کرنا چاہتا ہوں۔ صرف اور صرف یہ
خواہش ہے کہ لوگوں کو اسلام کے بنیادی رکن جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق
واضح کر سکوں۔ اسامہ بن لادن اور طالبان کی طرف سے اسلام کی جو تصویر سامنے آتی
ہے اس سے مسلمان دنیا میں منہ دکھانے لائق نہیں رہے۔ جہاں دہشت گردی وہاں اسلام
اور جہاں مسلمان وہاں دہشت گرد کا فلسفہ زبان زد عام ہے۔ اور یہ سب برکات موصوف
اسامہ بن لادن اور طالبان کی کرم نوازی سے ممکن ہوا ہے۔ اگر ان نکات پہ غوروفکر
کی جائے تو صورت حال عیاں ہو جاتی ہے کہ ان حضرات نے اسلام کے سافٹ امیج کو
کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ اور یہی مقصد عالمی سماج کے مفادات کو تحفظ دیتا ہے۔
اسی بنیاد آج ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس موضوع پہ مزید کچھ لکھنے یا کہنے
سے پیشتر میں چاہوں گا کہ قارئین اپنی آرا اور تبصرے سے میری رہنمائی فرمائیں۔۔۔
اب آپ ہی فرمائیے کہ کیا اسلام کا درد صرف مخصوص طبقے کو ہی ہے؟ کیا میں بطور
مسلمان اسلام کے حقیقی تصور انسانیت کے مجروح ہونے پر نوحہ کناں نہیں ہو سکتا؟
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ |