گزشتہ سے پیوستہ:
آگے نوید صاحب نے لکھا ہے کہ " پاک بھارت تعلقات بھی اس وقت تک معمول پر نہیں
لائے جا سکتے جب تک کہ پاکستانی حکومت درج بالا لوگوں کے خلاف واضح اور سخت
کاروائی نہیں کرتی۔ دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ اعتماد کی فضا قائم کرنے کے
لیے ضروری ہے کہ لشکر طیبہ، مشترکہ جہاد کونسل اور نام نہاد جہادی حضرت مولانا
مسعود اظہر کے خلاف پاکستانی اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات قائم کیے جائیں کیونکہ صرف
پابندی لگانے سے ہم دنیا اور بھارت کو مطمئین نہیں کر سکتے۔ "یہاں بھی کالم
نگار نے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا ہے کیوں کہ مولانا مسعود اظہر،حافظ سعید اور
سید صلاح الدین جیسے کردار ہماری تاریخ میں زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سال پہلے
داخل ہوئے ہیں۔ جبکہ بھارت کی پاکستان دشمنی ساٹھ سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے،
یہاں ہم مختصراً ذکر کریں گے 1965 میں بھارت نے بلا جواز پاکستان پر حملہ کردیا
تھا اسوقت نہ تو یہ جہادی گروپ تھے، نہ سید صلاح الدین تھے، نہ ہی حافظ سعید
تھے اور نہ کشمیر میں مسلح جدو جہد کا آغاز ہوا تھا مگر اس کے باوجود بھارت نے
پاکستان پر حملہ کردیا تھا، اسی طرح ایوب خان کے دور میں بھارت نے پاکستان کا
پانی بند کردیا تھا اور پھر ایک معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے پانچ دریاؤں میں
سے دو دریاؤں سے دستبردار ہونا پڑا۔1971 میں سازش کے تحت مشرقی پاکستان کو ہم
سے جدا کردیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ہماری اپنی غلطیاں بھی تھیں
لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت اس معاملے میں پوری طرح ملوث تھا۔اور پاکستان کے
دولخت ہونے پر اندرا گاندھی یہ مشہور جملہ کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ
کو خلیج بنگال میں غرق کردیا“اس کے علاوہ 1974میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے
خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا تھا۔ یہ سب باتیں بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ
بھارت کی پاکستان دشمنی اظہر من الشمس ہے اس لیے جناب نوید صاحب کا یہ کہنا غلط
ہے کہ پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لیے جہادی لیڈرز کو کڑی سزا دینی چاہیے۔
چاہے ہم کچھ بھی کرلیں بھارت ہم سے خوش نہیں ہوگا تو پھر کیوں نہ بھارت سے
تعلقات کی نوعیت اس شعر کے مطابق کرلی جائے کہ ع وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم
اپنی وضع کیوں بدلیں- سبک سر ہو کر کیوں پوچھیں ہم سے سرگرداں ہو کس لیے؟
پانچ فروری کو جب پوری قوم اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کر رہی تھی تو اسوقت نوید
صاحب نے ایک متنازعہ آرٹیکل لکھ کر اس دن کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی
ہے۔آئیے ذرا ان کے اس مضمون کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔نوید صاحب نے لکھا ہے کہ "
ریاست بہاول پور، سوات گلگت کی شمولیت کا فیصلہ وہاں کے نوابوں نے کیا اسی طرح
بلوچستان کا فیصلہ کوئٹہ میونسپل کمیٹی میں سرداروں کی متفقہ رائے سے پاکستان
کے ساتھ الحاق کی صورت میں سامنے آیا۔ جہاں تک ریاست کشمیر کا مسئلہ تھا تو
وہاں کے راجہ نے پیسے لے کر یا ہندو ہونے کی وجہ سے یا کسی سازش کا حصہ بن کر،
بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقسیم کے فارمولے
کو مانا جائے تو کشمیر پر ہمارا دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اول تو
قائداعظم کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کی
نمائندہ جماعت تھی، نے اس فارمولے کو تسلیم کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان نے
کبھی بھی کشمیر کو اپنی ریاست کا سٹیٹس نہیں دیا۔ اور کشمیر کو ایک آزاد ریاست
کا درجہ دیا۔ "یہاں کچھ تاریخی حقائق کی بات ہوجائے مشہور محقق جناب سبطِ حسن
صاحب نے اپنی کتاب پاکستان ناگزیر تھا میں لکھا ہے کہ تقسیم کے وقت کشمیر کے
مہاراجہ نے قائد اعظم سے ایک معاہدہ کیا کہ اسوقت معاملات کو جوں کا توں رکھا
جائے اور کچھ عرصے کے بعد عوام کی رائے کے مطابق الحاق کردیا جائے گا قائد اعظم
نے یہ بات مان لی البتہ مہاراجہ کی نیت میں کھوٹ تھا اور اس نے تقسیم برصغیر
کےاصول کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی وہ علاقے پاکستان میں شامل
کیے جائیں گے اس کے بجائے اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی، کشمیر
عوام نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور مہاراجہ کے خلاف بغاوت کردی مہاراجہ نے
مسلمانوں کا مطالبہ ماننے کے بجائے سکھوں کے گروپ بنا کر اچانک کشمیری مسلمانوں
کا قتل عام کیا بعض محققین کے مطابق مہاراجہ نے اس دوران ڈیڑھ لاکھ کشمیر
مسلمانوں کو شہید کردیا لٹے پٹے یہ مسلمان ہجرت کر کے صوبہ سرحد کی طرف نکل گئے
غیور پٹھان قوم نے جب اپنے مسلمان بھائیوں کی یہ حالت دیکھی تو وہ فوراًَ اپنے
بھائیوں کی مدد کو آئے اور انہوں موجودہ آزاد کشمیر کو مہاراجہ کے قبضہ سے آزاد
کرالیااور قریب تھا کہ وہ سری نگر ائیر پورٹ پر بھی قبضہ کر لیتے اور یہ قصہ
ہمیشہ لیے ختم ہوجاتا کہ مہاراجہ نے راتوں رات بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا
اور بھارت سے مدد کی اپیل کردی بھارت نے راتوں رات اپنی فوجیں کشمیر میں اتار
دیں۔جب اس صورتحال کو دیکھ کر قائد اعظم نے اس وقت پاکستان اور بھارت کی افواج
کے مشترکہ چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کیا کہ وہ پاکستان کی فوجیں بھی کشمیر میں
اتار دے مگر برطانوی شہری جنرل گریسی نے جان بوجھ کر حکم عدولی کی اور بھارت کو
کشمیر میں فوجی قبضہ کرنے کا موقع دیا،اہل کشمیر اور پاکستان کے مسلسل احتجاج
کے بعد بھارت نے اس مسئلے کو استصواب رائے سے حل کرنے کا وعدہ کیا جو کہ آج تک
وفا نہیں ہوا۔اور اس وقت سے بھارت کشمیر پر قابض ہے۔
جہاں تک نوید صاحب کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان نے آج تک کشمیر کو آزاد ریاست کے
طور پر ٹریٹ کیا ہے اور بھارت نے اپنی ریاست کے طور پرٹریٹ کیا ہے، تو یہاں ہم
یہ عرض کردیں کہ بھارت ایک دہشت گرد اور ہٹ دھرم ملک ہے اس نے اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کی خلاف ورزی کر کے اہل کشمیر کو ان کا حق دینے کےبجائے کشمیر پر
قبضہ کر رکھا ہے جوکہ قانونی۔اخلاقی طور پر غلط ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی کے
باعث اس کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جبکہ پاکستان ایک ذمہ داراور قانون پسند
ملک ہونے کے ناتے سے اقوام متحدہ کی قرار داداں کا احترام کرتا ہے اور پاکستان
نے محض اسلیے کہ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں زیر بحث ہے اپناحق چھوڑا ہوا ہے۔
آگے نوید صاحب نے ایک بالکل بچکانہ بات کی ہے کہ ان کے دوست کے بقول“1990 میں
پاکستانی ایجنسیوں نے جہاد کشمیر کے نام پر پورے پاکستان سے مذہبی جماعتوں کے
تعاون سے جہادی قوتوں کو پروان چڑھایا اور کشمیر میں بھارتی کیمپس اور کشمیر کی
منتخب اسمبلی کے نمائندوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ سو بھارتی حکومت کو کشمیر
میں فوج کی ضرورت محسوس ہوئی“زرا غور کیجیئے کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ تاریخ
کے طالبعلم ہیں اور ماضی قریب کی تاریخ کے بارے میں ان کی معلومات کا یہ حال ہے
کہ ان کو یہی نہیں پتا کہ بھارت نے اپنی فوجیں 1990 میں نہیں بلکہ 1948میں
کشمیر میں اتاری تھیں (جس کا ہم مضمون کے آغاز میں ذکر کر چکے ہیں )1948 سے
1989 تک کشمیریوں کی جدوجہد غیر مسلح اور پر امن تھی مگر جب اس سے مسئلہ حل نہ
ہوسکا تو پھر مجبوراً کشمیری نوجوانوں نے جہاد کا آغاز کیا۔اس لیے نوید صاحب کا
یہ کہنا کہ پاکستانی جہادی قوتوں کی کاروائیوں کے بعد بھارت نے اپنی فوجیں
کشمیر میں اتری ہں سرار جھوٹ، ہے اور یہ بات تاریخ کے اوپر ایک ظلم ہے۔میرے اس
مضمون کو پڑھنے والا کوئی بھی صاحب علم فرد ان حقائق سے انکار نہیں کرسکتا۔
یہ تو تاریخی حقائق ہیں اب ذرا اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کشمیر اٹوٹ انگ
یا شہہ رگ ہے دیکھیں ایک بہت عام سی مثال ہے کہ انسان جس کو اپنا سمجتا ہےاس سے
محبت بھی کرتا ہے اور اس کا خیال بھی رکھتا ہے۔جبکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت
ہے کہ آٹھ اکتوبر 2005میں کشمیر میں قیامت خیز زلزے کے بعد بھارتی حکومت اور
بھارت عوام نے کشمیری عوام کی امداد اور ہمدری میں ایک لفظ نہیں کہا صرف دہلی
میں ایک سکھ این جی او نے اپنے طور پر تھوڑی بہت امداد کی جس کے لیے ہم ان کے
مشکور ہیں البتہ مجموعی طور پر بھارتی حکومت اور عوام کا رویہ اس معاملہ میں
ایسا تھا جیسا کہ غیروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس اہل پاکستان اور
پاکستانی حکومت نے اس موقع پر آگے بڑھ کر اپنے بھایئوں کی مدد کی ان کے چندا
دیا سامان بھیجا،پوری دنیا سے اس کے لیے اپیل کی گئی اور عوام نے نہ صرف مال و
دولت سے اپنے بھائیوں کی مدد کی بلکہ اپنا وقت بھی وہاں لگا یا اور اپنا گھر
بار،نوکریاں چھوڑ کر اپنے مصیبت زدہ بھایوں کی مدد کی اور آج تک کر رہے ہیں اور
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انٹر نیشنل میڈیا کے مطابق زلزلہ کے بعد سب سے پہے مدد
کے لیے لشکر طیبہ کے کارکنان آئے۔اور اس کے بعد سید صلاح الدین کی حزب
المجاہدین کے کارکنان نے صورتحال کو سنبھالا،کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جن کو
دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے وہ تو جان جوکھوںمیں ڈال کر متاثرین کی مدد کرہے
تھے اور اٹوٹ انگ کا نعرہ لگانے والے خاموش تھے؟جس طرح بھارت نے ممبئی حملوں کے
دوران پیتالیس پچاس افراد کی ہلاکت پرپورے میڈیا کو متحرک کردیا اور پوری دنیا
کو اس حوالے سے باخبر رکھا لیکن 2005 کے قیامت خیز زلزلہ میں ایک لاکھ سے زائد
مسلمانوں ہلاکت پر بھارتی میڈیا حسب معمول اپنے راگ رانگ کے پروگرام ہیش کرتا
رہا،اور اس کو انہوں نے ایک روٹین کی خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس سے یہ بات
بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ پاکستان کی شہہ رگ
ہے اور کشمیر سے ہماراتعلق نہ صرف قومی اور دینی ہے بلکہ جغرافیائی تعلق بھی ہے
اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
ہم اس بات کی بھی وضاحت کردیں کہ نوید صاحب نے اپنے مضمون کے آغاز میں یہ بھی
کہا کہ “ جہاں تک ریاست کشمیر کا مسئلہ تھا تو وہاں کے راجہ نے پیسے لے کر یا
ہندو ہونے کی وجہ سے یا کسی سازش کا حصہ بن کر، بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقسیم کے فارمولے کو مانا جائے تو کشمیر پر ہمارا
دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا،“ تو ہم عرض کردیں کہ جناب اس فارمولے کے تحت تو
بھارت کو حیدر آباد دکن کو آزاد کردینا چاہیے کیوں کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت
ہے اور ریاست جونا گڑھ جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا اس کے
فیصلے کو ماننے کے بجائے بھارت نے فوج اتار دی اور زبردستی اپنی سرحدوں میں
شامل کردیا تھا اور آج تک اس پر بھارت کا قبضہ ہے۔شائد یہ بات بھی نوید قمر
صاحب کے علم میں نہیں ہے۔یا وہ جاننا نہیں چاہتے ہیں جاری ہے |