آیاتِ قرآنی کے بارہ میں یہ
مشہور ہے کہ ان کی تعدادچھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ(6666) ہے۔ یہ عدد اتنا مشہور
ہے کہ ایک ایسا بچہ جو قرآنِ مجید صحیح طرح پڑھ بھی نہیں سکتا ‘ وہ بھی آپ
کو یہ عدد ”ٹھیک ٹھیک “ بتا سکتا ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ عدد کس حد
تک حقیقت پہ مبنی ہے:
جمہور علمائِ کرام کے مطابق آیاتِ قرآنی کی تعداد چھ ہزار دوسو (6200)سے
کچھ اوپر ہے ۔اوپر ی عدد کی تعیین میں چودہ سے لے کر چھتیس تک کے سات مختلف
اقوال ملتے ہیں۔[الاتقان ]ہمارے ہاں کے مصاحف میں کل تعداد چھ ہزار دو سو
چھتیس(6236) ہے جوکہ آپ خود بھی شمار کرسکتے ہیں ۔ اگر ایسے اقوال کو بھی
ساتھ شامل کرلیا جائے جنہیں بعد میں پذیرائی نہ مل سکی اور پیروکار نہ مل
سکنے کی وجہ سے وہ معدوم ہوگئے تو پھر سب سے بڑا عدد جو ہمیں نظر آتا ہے‘
وہ چھ ہزار چھ سو (6600)کا ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف
منسوب کیا جاتا ہے۔[الاتقان ]
پسِ منظر کے طور پر یاد رہے کہ یہ اختلاف محض آیات کے شمار تک محدود ہے ‘
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ قرآن ِ کریم بغیر کسی کم وکاست کے ایک ہی ہے
جو ”الحمد“ سے شروع ہو کر ”والناس “ پہ ختم ہوتا ہے۔ اسے آپ یوں سمجھیں کہ
اگر کسی کے نزدیک آیاتِ قرآنی کی تعداد چھ ہزار دو سو چودہ(6214) ہے اور
کسی کے نزدیک چھ ہزار دو سو چھتیس(6236) ہے تو اس کا یہ مطلب قطعاًنہیں کہ
چھ ہزار دو سو چودہ(6214) والا شرق وغرب میں پڑھے جانے والے قرآن کے بعض
حصوں کو قرآن تسلیم کرنے سے انکاری ہے یا پھرچھ ہزار دو سوچھتیس(6236) والا
اس کو نامکمل سمجھتاہے‘ بلکہ سب کے نزدیک بغیر کسی کمی بیشی کے قرآن وہی ہے
جسے دنیا بھر کے مسلمان قرآن سمجھتے اور پڑھتے ہیں۔ شمار کا اختلاف محض اس
حد تک ہے کہ بعض حضرات نے اپنے پاس موجود دلائل کی روشنی میں قرآن کے ایک
حصہ کو ایک آیت سمجھا اور بعض نے دو آیات اور بس!
جب ہم چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ(6666) کے مشہور ِ عام عدد کا ”شجرہ نسب“ معلوم
کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ”علوم القرآن“ کی معروف کتب:”
البرہان“ [ امام زرکشی] ”الاتقان “ [ امام سیوطی] اور ”مناہل العرفان“ [شیخ
عبدالعظیم الزرقانی]میں اس کا کوئی نام وپتہ درج نہیں ہے ‘مگر سوال یہ ہے
کہ آخر یہ بے بنیاد اور غلط عدد کیوں کر اتنی شہرت اختیار کرگےا کہ جسے
دیکھو یہی بتاتا ہے ۔ جب ہم اس کی ٹوہ میں نکلے تواردو کی بعض کتابوں میں
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ایک گم نام سی بے سند
روایت ملی جس میں یہ عدد انکی طرف منسوب کیا گیا تھا اور ساتھ ہی اس کی
تفصیل یوں درج تھی : آیاتِ وعدہ ایک ہزار‘ آیاتِ وعید ایک ہزار ‘ آیاتِ امر
ایک ہزار‘ آیاتِ نہی ایک ہزار ‘ آیاتِ امثال ایک ہزار ‘ آیاتِ قصص ایک ہزار
‘ آیات ِ حلال دو سو پچاس ‘ آیاتِ حرام دو سو پچاس ‘ آیاتِ تسبیح ایک سو ‘
منسوخ التلاوة آیات چھیاسٹھ [فضائل حفاظ القرآن الکریم‘ قاری طاہر رحیمی
مدنی مرحوم ] تاہم عربی مآخذ میں مجھے کہیں یہ قول نہیں مل سکا۔
اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے بکثرت ذکر ہونے والی آیات کے تخمینی اور تقریبی اعداد کسر
کے بغیر ذکر کیے تھے(مثلا آیاتِ وعدہ ایک ہزار ‘ آیات تسبیح ایک سو
وغیرہوغیرہ)جیساکہ روزمرہ بول چال میں بھی کردیا جاتاہے کہ” کم وبیش ایک
ہزار“ کو سہولت کے لیے صرف ایک ہزار اور” کم وبیش ایک سو“ کوصرف ایک سو سے
تعبیر کردیا جاتاہے۔پھر بعد والوں نے ان اعداد کو جمع کرکے چھ ہزار چھ سو
چھیاٹھ (6666)کے دلکش اور ”آ رٹیفیشل نمبر“ کو قرآنِ مجید کی تمام آیات کا
کامل عدد قرار دے دیاجو کہ درست نہیںتھا۔نیز قابلِ غور امر یہ ہے کہ اس میں
وہ آیات بھی شامل کی گئی ہیں جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے ‘ جیساکہ درج بالا
تفصیل سے ظاہر ہے۔ ایسے میں اس عدد کو موجودہ قرآن ‘ جو اپنی جگہ کامل اور
مکمل ہے ‘ کی آیات کا عدد قرار دینا مغالطہ اندازی کے سوا کیا کہلا سکتاہے؟
اگر چھیاسٹھ کا زائد عدد نکال بھی دیا جائے تو تب بھی چھ ہزار چھ سو(6600)
کا کامل عدد اگر چہ حضرت ابنِ عباس کی طرف منسوب کیا گیا ہے ‘ مگر ہمارے
ہاں کے چھ ہزار دو سو چھتیس (6236)آیات والے مصاحف سے میل نہیں کھاتا۔ باقی
جہاں تک اس روایت کی صحت او راستنادی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک مستقل
پہلو ہے جو غور اور توجہ کا متقاضی ہے۔
ہمارے ہاں عصری تعلیمی اداروں میں ”اسلامیات “ کے نام پر زیادہ تر زور اسی
طرح کی دلچسپ ”قرآنی معلومات“ پر دیا جاتا ہے جبکہ اس میں قلب ونظر کے
تزکیہ اور تربیت کا کوئی سامان نہیںہے۔ پھر حد یہ کہ انہی معلومات کی صحت
کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا جس کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے۔
دوسری طرف دینی مدارس جو دینیات میں تخصص کے ادارے ہیں ‘ اگر چہ ان میں اِس
طرح کی معلومات سرے سے نہیں پڑھائی جاتیں ‘ مگر ان کے بعض طلباءکو میں نے
خود دیکھاکہ وہ اسکولوں کی نصابی کتب دیکھ کر غلط اور صحیح کا امتیاز کیے
بغیر ‘ یہ معلومات اس لیے یاد کرلیتے ہیں کہ کہیں کسی محفل میں سبکی نہ
ہوجائے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے دونوں دھارے اس طرح کے کئی المیوں میں گردن
تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ قرآنی آیات کا مذکور ہ غلط اور بے بنیاد عدد اتنا عام
ہوچکاہے کہ علماءبھی بے دھڑک برسرِ منبر اوراپنی کتابوں میں اس کا ذکر کرتے
ہوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔یہ غلط فہمی بعد میں تناور ہوکر کہیںکسی بڑی
پیچیدگی کا باعث نہ بن جائے!!!
اگر اس غلط فہمی کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ آنے والے وقتوں
میںتحریف قرآن کے قائل مٹھی بھر لوگوں کو پروپیگنڈے کا موقع مل سکتا ہے کہ
اگر آیاتِ قرآنی کی تعداد چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (6666) ہے تو موجودہ قرآن
میں قریباً چارسو (400) آیات کم کیوں ہیں؟؟ اگر خدانخواستہ یہ پروپیگنڈا
شروع ہوا تو خلقِ خدا کے گم راہی کی طرف لڑھکنے کے کتنے مواقع پیداہوجائیں
گے! ہماری نظر میں اس کا حل یہ ہے کہ بلا تفریقِ مسلک پاکستان کے تمام
مقتدر دینی مراکز اور ادارے اپنے اپنے وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لاتے
ہوئے ایک بریکنگ نیوز ٹائپ کا اعلامیہ جاری کریں جس میں آیات ِ قرآنی کی
صحیح تعداد بیان کی جائے۔ اس سے ان شاءاللہ اس غلط فہمی کی جڑ کٹ جائے گی
اور مسلمانوں کی دینی حفاظت کا فریضہ بروقت ادا ہوجائے گا۔ |