دنیا کا کوئی بھی کاروبار چاہے
چھوٹا ہو یا بڑا، اسے عروج ، اس کی تشہیر کرنے سے ملتی ہے۔لوگوں کو اپنے
قریب کرنے یا ان کو اپنی شے فروخت کرنے کا سب سے آسان اور کامیاب ذریعہ
تشہیر ہی ہے۔تشہیر ہی سے لوگوں کے درمیان کاروبار وغیرہ کی مانگ پیدا ہوتی
ہے۔آج کے دور میں جتنے بھی کاروبار ہورہے ہیں ان سب کا مدار تشہیر پر ہی ہے
کیونکہ تشہیر سے شے کی پہنچان اور اس کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ایک
دانشور کا قول ہے کہ ”اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے اور اس کے پاس دس روپے
ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ سات سے آٹھ روپے اس کی تشہیر پر خرچ کرے اور باقی
سے کاروبار شروع کردے ، تشہیر کے بعد اس شخص کا کاروبار زیادہ کامیاب اور
تیزی سے پھیلے گا بنسبت اس شخص کے ، جس کے پاس دس روپے ہوں اور اسی نے سارے
ہی کاروبار میں لگادیئے ہوں“
جس کی مثال آج کے دور میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ کاروبار کے افتتاح یا کسی
شے کو مارکیٹ میں لانے کی ابتداءایک سال بعد ہوگی لیکن تشہیر ابھی سے شروع
کردیتے ہیں۔وقت آنے پر اس شے کی تشہیر اتنی ہوچکی ہوتی ہے کہ ہر خاص و عام
کے اندر وہ شے مقبول ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانگ میں پہلے ہی سے
اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔
کاروبار کے لیے لوگ شروع ہی سے مختلف قسم کے آلات تشہیر کا استعمال کررہے
ہیں۔ہر کوئی اپنے کاروبار اور پسند کے لحاظ سے تشہیر کرنا پسند کرتا
ہے۔کوئی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنی اشیاءکو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے
تو کوئی پرنٹ میڈیا کے توسط سے اپنی اشیاءمتعارف کراتے ہیں اور آج کے دور
میں زیادہ تر لوگ سائن بورڈ کے ذریعے اپنی اشیاءکے تشہیر کو پسند کرتے
ہیں۔پہلے سائن بورڈ سادہ ہوتے تھے یعنی کپڑے یا بڑے کاغذ پر بنے ہوئے ہوتے
تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر جدت پسندی آتی گئی اور آج کے دور میں
ہلتے جلتے سائن بورڈ بھی دستیاب ہوگئے ہیں، جو چاروں طرف حرکت کرتا ہے اور
تو اور جو شے متعارف ہورہی ہوتی ہے وہ بھی حرکت کررہا ہوتا ہے گویا و ہ ایک
طرح کا سکرین ہوتا ہے جس پر کوئی ایڈ چل رہا ہو ،جب سائن بورڈ کی ابتدا
ہوئی تو اس وقت یہ چھوٹے حجم کے تھے لیکن آج تو اتنے بلند اور بڑے ہیں کہ
بڑی بڑی عمارتیں بھی اس سے شرماجاتی ہے ۔اوراس بڑے پن اور بلندی کے بناءپر
اکثر لوگ اسی پر اپنی اشیاءکی تشہیر کرنا پسند کرتے ہیں۔
جہاں تک سائن بورڈ کے فوائد کی بات ہے تو اس کی اہمیت آج کے دور میں بہت
زیادہ ہے ، مگر فوائد کے مقابلے میں اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ہرشاہراہ پر
دس قدم کے فاصلے پر ایک سائن بورڈ لگاہوا ہے اور سب پر الگ الگ قسم کے
اشیاءکی تشہیر ہورہی ہوتی ہے۔دائیں ہو یا بائیں ، قسم قسم کے سائن بورڈ
اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہوتے ہیں، حتی کہ روڈ کے وسط میں اوپر کی جانب بھی
چھوٹے چھوٹے سائن بورڈ لگے ہوتے ہیں۔لیکن اس کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے
اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ، گاڑی چلاتے ہوئے اکثر خواتین و حضرات سائن
بورڈ پڑھنے کے شوقین ہوتے ہیں اور اسی شوق کی بناءپر اپنی جان سے بھی ہاتھ
دھوبیٹھتے ہیں،کئی لوگوں کی زندگیاں اجڑچکی ہیں،کئی ہمیشہ کے لئے معذور بن
چکے ہیں اور کئی لوگوں کے گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔اگر خود کسی
طریقے سے بچ بھی جاتے ہیں تو اس ازالہ دوسرے لوگوں کی جان لیکر کرلیتے
ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ سائن بورڈوں میں نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کی جاتی ہے
اور بلا اختیار اس کی طرف دیکھنے کو جی کرتا ہے ۔بلند وبالا سائن بورڈ کا
ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ کئی جگہوں پر ہوا کے دباؤ سے سائن بورڈ گرچکے
ہیں جسکی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں اور املاک ضائع ہوئے ہیں۔کیا سڑکوں پر
سائن بورڈ لگانا ضروری ہے ، کیا اس کا کوئی متبادل نہیں ؟یہ سائن بورڈ تو
مارکیٹوں اور عام گزرگاہ جہاں پر گاڑیوں کا آنا جانا نہ ہو وہاں بھی تو لگا
سکتے ہیں ،سڑکوں پر ہی کیوں لگاتے ہیں۔
انسان جیسے جیسے وقت گزارتا ہے اسکی خواہشیں لامحدود ہوتی جاتی ہے،جس کے
ساتھ وقت گزارتا ہے یا کاروبار کرتا ہے تو اس کے رسم رواج کو بھی کسی حد تک
اپنا لیتا ہے یا جس کے زیر اثر ہوتے ہیں اس کی تھذیب کا اثر بھی فورا قبول
کرتا ہے۔ذرا ایک نظر آج کے سائن بورڈوں کو دیکھئے کہ یہ کھلم کھلا بے حیائی
اور فحاشی کا ذریعہ ہے،ننگے بدن اور مرد و عورت کا اختلاط سائن بورڈ کی
زینت بن رہی ہے۔اس سے یہ ہمیں کیا سبق دینا چاہتے ہیں،کیا بغیر جسم عریاں
کئے ہوئے اشیاءکی تشہیر ممکن نہیں؟اس کے مضر اثرات جس طرح اس ملک کے
اندرزہر قائل کی طرح پھیل رہے ہیں اس کا اندازہ کسی بھی شاپنگ مال میں جاکر
کرسکتے ہو۔جب ان سے سوال کیا جائے کہ اس کا مقصد کیا ہے تو ہر جگہ سے صرف
ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ” فیشن “ ہے۔اس کی بھرمار اس حد تک ہوچکی ہے کہ
مساجد کے باہر بھی اس طرح کے حیا سوز منظر دیکھنے کو ملیں گے۔اگر کسی کو
اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہوتو PIDC پل سے آگے پیٹرول پمپ کیساتھ ایک بہت بڑی
مرکزی مسجد ہے جس کا نام جامعہ مسجد نعمانیہ ہے اس کے سامنے ہی ایک سائن
بورڈ لگا ہوا ہے جس پر عورتوں کی بڑی بڑی تصویریں ہر ایک کا مسجد کے احاطے
سے استقبال کرتے ہوئے نظر آتی تھی۔کچھ عرصے بعد وہاں سے لوگوں کے ردعمل پر
وہ تصاویر ہٹادی گئی کہ ثواب کمایا ہی نہیں ہوتا کہ واپس گنوادیتے ہیں۔لیکن
اس کے بعد جو تصاویر لگا دی گئی وہ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک تھی ،تصاویر
صنف نازک ہی کی تھی مگر صرف چہرہ نمایا نہیں تھا باقی اکثر اعضاءمسجد کے
باہر دیدار کے لئے پیش تھی ۔ اب ان کو کون سمجھائے ایک تو یہ غلط ہے مگر
پھر مساجد کے سامنے اس طرح کی بے حیائی پھیلانا اور بھی غلط ہے۔
یہ ایک اسلامی ملک ہے اور ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے اس کے قوانین کی
پاسداری کرنی ہوگی ،عریاں بدن اور حیاءسوز مناظر کا تصور تو اس کے اندرسرے
سے ہے ہی نہیں ۔ تشہیرکرنا کاروبار کرنے والوں کا حق ہے ،لیکن اس کے بھی
کچھ حدودمقرر ہیں ،اس حد سے تجاوز نہ کریں اور حد کے اندر رہتے ہوئے اور
اسلامی قوانین کا مکمل خیال رکھتے ہوئے تشہیر کرے،تو سب کے حق میں مفید رہے
گا۔ |