پروفیسر مظہر
گزشتہ کئی دنوں سے ”Sorry “ اور ”Apology“ کی بحث سن سن کر کان پَک گئے ہیں
۔دانشور اور لکھاری دور کی کوڑیاں لاتے ہوئے نت نئے معانی و مفاہیم بیان
کرکے اپنے تبحرِ علمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ٍ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر
اُن کی اس بحث سے قوم کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے؟۔ سیدھی سی بات ہے کہ
امریکہ اگر سوری نہ بھی کہتا تو نیٹو سپلائی تو بہرحال بحال ہونی ہی تھی
کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو اب ”تھوک کے چاٹنے“ کی کچھ عادت سی ہو چلی ہے
وگرنہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور ایبٹ آباد آپریشن ہماری غیرتوں پر کوئی کم
تازیانے تو نہیں تھے ۔آخر قوم کو کب سمجھ آئے گی کہ حکمرانوں اور ان کے بہت
سے حواریوں کا خُدا وہ ربِ لم یزل نہیں جو خالق و مالکِ کائینات ہے بلکہ
امریکہ ہے ۔امریکہ بھی ہمارے میڈیا پر لگ بھگ 65 ملین ڈالرہمیں یہ یقین
دلانے کے لئے صرف کر رہا ہے کہ اس عالمِ آب وگِل کی ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے
۔باقی تو سب پُتلیاں ہیں ، محض پُتلیاں۔سلالہ کے چوبیس شہید بھی حکمرانوں
کے نزدیک کٹھ پُتلیاں ہی تو تھے ۔سیاسی اور عسکری قیادت کے اس متفقہ فیصلے
پر فوج مگر بُری طرح بے چین ہے ۔شاید وہ ابھی تک امریکی خُداؤں کی بندگی پر
تیار نہیں۔ وزیرِ اطلاعات قمر ا لزماں کائرہ صاحب نے فرمایا کہ مسئلہ
ٹرانزٹ فیس کا نہیں بلکہ غیرت کا تھا اس لئے ہم نے خود ہی فیس کا مطالبہ
نہیں کیا ۔درست فرمایا لیکن ہماری قومی غیرت اس وقت کہاں جا سوتی ہے جب ہم
کشکولِ گدائی لئے اسی کے در پہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں؟۔ہماری غیرتوں پہ اس
وقت ضربِ کاری کیوں نہیں لگتی جب اِدھر نیٹو کنٹینر افغانستان کی سرحد میں
داخل ہوتے ہیں اور اُدھر امریکی ڈرون وزیر ستان میں ہمارے چوبیس پاکستانیوں
کو شہید کر دیتے ہیں ؟(شاید یہ محض اتفاق ہو لیکن ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے
فوراََ بعد بھی ڈرون طیاروں نے ریمنڈ کو چوبیس پاکستانیوں کے خون کی سلامی
دی تھی) ۔تحقیق کہ بھکاری کی کوئی غیرت نہیں ہوتی اور نہ ان حاکموں کی
ہے۔آقا ﷺ کا فرمان ہے ”اللہ غیرت مند ہے اور غیرت مندوں کو دوست رکھتا
ہے“۔لیکن یہ غیرت مند کیسے ہو سکتے ہیں جن کا رب ہی کوئی اور ہے ۔حکمت کی
عظیم ترین کتاب کہتی ہے ”جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سر پرست بنا
لئے اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے کمزور
گھر مکڑی کا ہوتا ہے (العنکبوت)۔لیکن کیا کیجئے کہ مکڑی کے گھرتعمیر کرنے
والے ان حکمرانوں، حواریوں اور کاسہ لیس لکھاریوں کے نزدیک اس دورِ جدید
میںیہ سب باتیں فرسودہ ہیں۔چلئیے انتظار کرتے ہیںکیونکہ ہمارا تو ایمان ہے
کہ ”اللہ کا مقررکیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا “ (سورہ
نوح)۔
امریکی تنخواہ دار کچھ دانشور اپنی تمام تر توانائیاں یہ ثابت کرنے میں صرف
کر رہے ہیں کہ امریکی مخاصمت سرا سر گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ ناراض امریکہ
جب جی چاہے ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل سکتا ہے ۔بجا ارشاد ۔سوال مگر یہ
ہے کیا کسی مذہبی یا سیاسی جماعت نے آج تک یہ کہا ہے کہ امریکہ کے خلاف
طبلِ جنگ بجا دیا جائے؟۔مطالبہ ہے تو فقط یہ کہ پاکستان کو اپنی چراہ گاہ
سمجھنے والے اس امریکی عفریت سے ہاتھ باندھ کر جان چھُڑا لی جائے جو ہمیں
”جہنم سے نکلا ہوا اتحادی“ قرار دیتا ہے۔ویسے ان بزرجمہروں کی خدمت میں عرض
ہے کہ جتنا وہ ہمیں امریکہ سے خوف زدہ کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تو
امریکہ ہم سے خوف زدہ ہے ۔پچھلے دنوں پینٹا گون میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ
میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں امریکی صدر اوباما کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ
بتلایا گیا کہ پاکستان پر حملے کا آپشن سامنے رکھ کر فوراََ مسترد کر دیا
گیا کہ انیس کروڑ کے ایٹمی ملک پر حملہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے ۔ایرانی صدر
احمدی نژاد نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ انہیں نیست و نابود کر سکتا
ہے ۔لیکن اس سے پہلے ایران اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا اوراسرائیل
تو وہ طوطا ہے جس میں امریکی جن کی جان ہے۔لیبیا کا معمر قذافی جب تک ڈٹا
رہا ، بچا رہا ۔لیکن جوں ہی اس نے تمام ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کیے ،
اس کی بربادیوں کی سرگوشیاں فضاؤں میں گونجنے لگیں۔ جب تک امریکہ بہادر کو
مکمل یقین نہ ہوا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں اس نے حملہ کرنے کی
جرات نہیں کی ۔شمالی کوریہ آج بھی آکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے اور
وینزویلہا اور بولیوبا بھی نابود نہیں ہوئے حالانکہ انہوں نے امریکہ سفیروں
کو ذلیل کرکے نکالا ۔بے سرو سامان افغانی طالبان نے گزشتہ دس سالوں میں
نیٹو افواج کا حشر کیا اور کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔اگر ترکی
ہمیشہ وہی کرتا ہے جو اس کے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے تو ہم
کیوں نہیں؟۔پھر یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ تو اب ہر ملک کا پڑوسی ہے
اور ڈاکٹر عبد ا لقدیر نے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بھارت کا بعید ترین شہر
بھی ہمارے ایٹمی میزائیلوں کی زد میں ہے تو پھر کیا ہمارا پڑوسی امریکہ
ہمارے میزائیلوں کی زد میں نہیں اور کیا امریکہ اس سے بخوبی اگاہ نہیں؟۔
مسئلہ یہ نہیں کہ امریکہ ہمیں برباد کر دے گا بلکہ مسلہ یہ ہے کہ امریکہ
ہمارے حکمرانوں کو نیست و نابود کر دے گا ۔کیونکہ ان کے سارے اثاثے تو
امریکہ اور یورپ میں بکھرے پڑے ہیں اوراولادیں بیرونی یونیورسٹیوں میں زیرِ
تعلیم یا اپنے کاروبار میں مگن ۔ان کا پاکستان میں ہے کیاجو انہیں اس مٹی
سے ہمدردی ہو ؟۔یہ تو اپنے آقا کے اشارہ ابرو پر یہاں آتے ، تفویض کردہ ذمہ
داریاں نبھاتے اور واپس چلے جاتے ہیں شاید اسی لئے ”دوہری شہریت “کے خاتمے
پر وہ بہت بے چین ہیں۔ لیکن ہم نے تو یہیں جینا مرنا اور اپنی راہوں کا خود
انتخاب کرنا ہے۔ فرمانِ ربی ہے”اللہ تعالےٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا
جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدلتی(الرعد)۔یہ مغرب زدہ لکھاری لاکھ مو
شگافیاں کریں لیکن تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ قومیں جب عزم با لجزم کے ساتھ
اٹھ کھڑی ہوتی ہیں تو ہمیشہ کامران رہتی ہیں ۔اسلامی تاریخ ایسے بیشمار
واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں ربِ کردگار نے ہمیشہ قلت کو کثرت پر غالب
کیالیکن ایسی مثالوں سے کچھ مہربانوں کے چہرے کھچ جاتے ہیں البتہ میرے
سامنے سپین کا فرانسسکو پیزارو ہے جس نے 1532 میں محض 177 سپاہیوں اور 62
گھوڑوں کے ساتھ پیرو جیسی سلطنت کو فتح کیا جس کی آبادی اس وقت بھی چھ ملین
سے زیادہ تھی ،جس کے حکمران ”انکا“ کو ہندوستانی دیوتا کا درجہ دیتے تھے ،
جس کے پاس بیشمار فوج اور دولت کی ریل پیل تھی ۔حیرت ہوتی ہے کہ سپین ہی کے
ہر نیندو کور ٹیز نے پیزارو سے محض دس سال بعد 533 سپاہیوں( جن میں سے صرف
تیرہ کے پاس پستول اور بتیس کے پاس تیر کمان تھے )چودہ توپوں ، سولہ گھوڑوں
اور گیارہ بحری جہازوں کے ساتھ میکسیکو جیسے عظیم سلطنت کو فتح کیا ۔کورٹیز
نے طارق بن زیاد کی طرح حملہ کرنے سے پہلے تمام کشتیاں جلا ڈالیںاور فتح
یاب ہوا۔ربِ کردگار بلا امتیاز ہر اس قوم کو فتح یاب کرتا ہے جس کا جذبہ
جوان ہوتا ہے ۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اب اس قوم کا مقدر الیکشنوں سے نہیں
بدلنے والا کہ جس غلیظ سیاست و جمہوریت سے اس قوم کو پالا پڑا ہے اس میں تو
ایسی ہی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جیسی ہم بھگتتے رہے اور بھگت رہے ہیں۔ |