رمضان کی بہار ، وینا ملک کا استغفار

ٹی وی دیکھتے ہوئے اچانک نجی چینل کی ایک ایڈورٹزمنٹ پر نظرپڑی۔ تولکھا ہوا تھا ”خبردار اپنے گناہوں سے توبہ کا وقت آچکا ہے“ اور اس کے بعد جو چہرہ نمودار ہوا وہ تھا وینا ملک کا جو کہہ رہی تھی کہ” اب پورا رمضان میں کروں گی آپ کے ساتھ اپنے اور آپ کے گناہوں کا استغفار“

وینا ملک پاکستانی ادکارہ ہے جس نے پچھلے دنوں اسلام اور پاکستان کی عزت گنوائی اور خود شہرت پائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ پاکستان میں اس کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھا گیا۔ اس پر پاکستان آنے کی پابندی کے مطالبے کے ساتھ اس کے خلاف بہت کچھ کہا اور سنا گیا۔

یورپی ممالک میں لا تعداد وینا ملک پائی جاتی ہیں جو پاکستانی بھی ہیں اور مسلمان بھی مگر وہ غیر مسلموں کے رنگ میں رنگی جا چکی ہیں ۔ وینا ملک ایک اداکارہ ہے اور وہ دشمن ملک جا کر بے نقاب ہوئی ہے لہٰذا اس کے ان کارناموں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ امریکہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں پاکستانی کمیونٹی سے ایسی ایسی شرمناک کہانیاں منسوب ہیں کہ اگر لکھیں تو سینکڑوں صفحات سیاہ ہو جائیں مگر ہر کہانی کے پیچھے پاکستان کی بدنامی ہے ۔ اس لیے اس مرض کی جڑ کو پکڑنے کی ضرورت ہے۔

اصل مسئلہ وینا ملک نہیں بلکہ ہماری منافقت ہے جس کے سبب نہ جانے کتنی وینا ملک ایسے اقدام اٹھا رہی ہیں۔ اداکارہ وینا ملک نہ تو مسئلہ کشمیر ہے اور نہ ہی نیٹوسپلائی ہے جس کو ایشو بنایا جا ئے۔ وہ ایک پاکستانی عورت ہے اور اداکاری اس کا پیشہ ہے۔ جو کام وہ پاکستان میں کرتی ہے وہی کام اس نے پڑوسی ملک میں کر نے میں شرمندگی محسوس نہیں کی۔ جو کام پاکستان کے شوبز میں کرنابرا نہیں سمجھا جاتا، وہی کام بیرون ملک کرنے میں کیا عار ہے؟ یہ پاکستانی قوم اس قسم کے شگوفوں میں خوش رہتی ہے۔ وینا ملک پاکستانی معاشرے کی تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ پاکستان کے معاشرے کا ایک حصہ ہے جہاں اسلام بھی ہے، ہندو کلچر بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی تمدن بھی ابھر رہا ہے۔ میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ایک ہی چھت تلے ایک ہی خاندان میں مختلف عقائد اور سوچ جنم لے رہی ہے۔ وینا ملک کی پرورش بھی اس معاشرے میں ہوئی ہے جہاں عریاں لباس بھی پہنا جاتا ہے، چادر بھی اوڑھی جاتی ہے ، مغربی افکار بھی موجود ہیں اور نماز روزہ بھی ہوتا ہے۔ وہ شخص جو وینا ملک کے کردار پر شرمندہ ہے اس کی غیرت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں بھارت اور پاکستان کے فحش پروگراموں کا بائیکاٹ کرے۔ وینا ملک کا تو پیشہ ہی ناچنا ، گانا اور بدن دکھانا ہے جبکہ پاکستان کے کیبل نیٹ ورکس پر جو پاکستانی مجرے پیش کیے جارہے ہیں وہ کوئی مسلمان اور شریف النفس دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کاسٹیج بھی قابل شرم ہے۔ سٹیج کو بازاری زبان دینے والوں کو جب ٹی وی چینلز پر مہذب گفتگو کرتے دیکھتے ہیں تومنافقت فوراًذہن میں آجاتی ہے اور یوں تصویر کے دونوں رخ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اب تو ڈراموں میں بھی بے حیائی عام ہوگئی ہے ۔ بیٹیاں عریاں لباس میں باپوں کے ساتھ لاڈیاں کر رہی ہیں۔ ہندو اور پاکستانی کی ثقافت مختلف ہے۔ ہندوکی ثقافت اس کا مذہبی رسم و رواج ہے جبکہ پاکستان کی ثقافت اس کی شرم وحیا میں ہے۔ وینا ملک مسئلہ کشمیر یا پاک بھارت تجارتی ایجنڈا لے کر بھارت نہیں گئی تھی وہ تو اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے گئی تھی۔ ہمیں ہمیشہ روشن پہلو کو اجاگرکرنا چاہیے۔ امریکہ کو بھی اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ مغرب میں اسلام تیزی کے ساتھ کیوں پھیل رہاہے؟گزشتہ برس صرف انگلینڈ میں پانچ ہزار گورے مسلمان ہوئے ہیں جبکہ پورے یورپ اور امریکہ میں قبول اسلام کا سلسلہ جاری ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گناہگار سے نفرت نہ کرو، اس کے گناہ سے نفرت کرو۔ ۔اس صورتحال میں نجانے کیوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب یہودیوں نے شرارتاًایک زانیہ کو پیش کیا اور کہا کہ اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیجیے۔ اس شرارت کاآپ نے جو جواب دیا وہ آج ہزاروں سال بعد بھی بے مثال ہے۔ آپ نے فرمایا کہ” تم میں سے جو بے گناہ ہو پہلے وہی اسے پتھر مارے“۔یہ سن کر سب لوگ پیچھے ہٹ گئے۔

مغرب اور بھارت میں مسلمان چونکہ اقلیت میں ہیں لہٰذا اسلام کے بارے میں محتاط اور حساس ہیں لیکن پاکستان کے مسلمان اسلام کو گھڑے کی مچھلی سمجھتے ہیں۔ اور ان پاکستانی مسلمانوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے اس کے باوجود ”آدھے تیتر آدھے بٹیر“ نظر آتے ہیں۔

رمضان ہر مسلما ن کے لیے رحمت اوربرکت کے ساتھ ساتھ استغفار کاموقع بھی لاتا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ کب اور کس وقت کس کو ہدایت کاراستہ دکھا دے۔ شاید اللہ تعالیٰ اس رمضان کی برکتوں سے اس کے گناہوں کی بخشش کردے اور اس کو سیدھاراہ دکھا دے۔ توبہ و استغفار اللہ کو بہت پسند ہے اور جو شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کو فوراًمعاف فرما دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیںہیں جو اپنے دور میں ہر وہ کام کرتے تھے جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔ جن میں جنید جمشید کی مثال آپ کے سامنے ہے وہ ایک نامور گلوکار تھا اور اب جب اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت کا راستہ دکھا یا تو آج اس کے چہرے پر نور کی برسات ہے اور جو کل تک دوسرے ممالک میں گلوکاری کرتا تھا آج وہ ان ممالک میں دین اسلام کی تبلیغ کررہا ہے۔ ایسی ہی مثالیں کرکٹر ز کی ہیں جن میں سعید انور، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور انضمام الحق شامل ہیں اور ان سب سے بڑھ کرمحمد یوسف کی مثال ہے جو پہلے ایک عیسائی تھا اور آج الحمدا للہ مسلمان ہے اور پوری دنیا میں اسلام کو اجاگر کررہا ہے۔

جب یہ لوگ سیدھی راہ پر چل سکتے ہیں تو وینا ملک کیوںنہیں اپنی بخشش کرواسکتی اور وہ کیوں نہیں سیدھی راہ پر چل سکتی۔اللہ جب چاہے اپنے بندوں کے لیے رحمت کے خزانے کھول سکتا ہے لیکن لینے والے کی نیت بھی صاف ہونی چاہیے ۔ یہ نہیں کہ میڈیا کو دکھانے کے لیے منافق والا راستہ اختیار کرے ان کے سامنے کچھ اور حقیقت میں کچھ۔ خدا سے میری یہی دعا کرہے کہ وہ ہر بھٹکے ہوئے مسلمان کو نیک راہ دکھائے اور اپنے اس برکتوں اور رحمتوں والے ماہ صیام میں تما م مسلمانوں کی توبہ کو قبول فرمائے۔ آمین بشکریہ
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 147 Articles with 120811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.