بوڑھا شیر ، لومڑی اور گیدڑ

ایک شیر بوڑھا ہو گیا تو اس نے ایک لومڑی سے دوستی کر لی۔ لومڑی بھولے بھالے جانوروں کو بہلا پھسلا کر شیر کے پاس لاتی وہ وار کرتا، مار گراتا اور پھر دونوں مل کر کھاتے۔ ایک مرتبہ اس نے گیدڑ کو تیار کیا کہ بادشاہ سلامت بوڑھے ہو چکے اور اب حکومت تمہیں سونپنا چاہتے ہیں، لہٰذا میرے ساتھ چلو۔ دونوں شیر کے پاس پہنچے تو شیر نے آناً فاناً وار کیا، پنجہ گیدڑ کے کان پر پڑا اور کان شیر کے ہاتھ آ گیا۔ وہ الٹے پاﺅں بھاگا اور دور جا نکلا۔

لومڑی پیچھے پیچھے پہنچی اور گیدڑ سے کہا کہ تو بھاگ کیوں آیا....؟ اس نے کہا کہ میرا کان دیکھ لو، اس سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں اب تو کبھی تمہارے کہنے میں نہیں آﺅں گا۔ لومڑی نے اسے کہا احمق ! بادشاہ سلامت تمہیں کان میں سرگوشی سے بادشاہت کے کچھ گر سکھانا چاہتے تھے اور تم بھاگ نکلے۔ گیدڑ باتوں میں آ گیا اور وہاں دوبارہ چل دیا، شیر پہلے سے تیار بیٹھا تھا اب کے وار ایسا پڑا کہ وہ شیر کے پنجوں میں آ کر موت سے ہمکنار ہو گیا۔ لومڑی شیر سے آنکھ بچا کر گیدڑ کا مغز نکال کر خود کھا گئی۔ شیر نے پوچھا، مغز کہاں ہے....؟ لومڑی نے کہا.... وہ تو تھا ہی نہیں، اگر ہوتا تو کان کٹوانے کے بعد وہ دوبارہ کیوں آتا....

پاکستان کی موجودہ صورتحال کچھ اس لطیفے سے کم نہیں ہے۔ اگر پاکستان کو گیدڑ کی مشابہت قرار دینا غلط ہے مگر یہاں پر گیدڑ کا کردار ہمارے حکمران پیش کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان امریکا بھارت کا جنگ کا حصہ روزاول سے بنا کیوں؟ اگر بن گیا تو اس کو اس جنگ میں جس قدر نقصانات اٹھانے پڑے کیا وہ کافی نہیں تھے، پاکستان کے قبائلی علاقوںمیں کیا کچھ نہیں ہوا۔ مگر ان کو ہوش نہیں آیا، آخر کار سلالہ کا واقعہ ہوا تب جاکر ان کی عقل پر بات پڑی مگر وہ بھی چند دن کا جوش تھا جیسے ہی لومڑی نے واپس آکر ان کو قائل کرنا شروع کردیا وہ پھر دام میں آ گئے اور اپنی تباہی کا احمقانہ فیصلہ ایک بار پھر کرنے چل پڑے۔

پاکستان نے بہت منت و سماجتیں کیں کہ خدارا ان سے سلالہ حملوں پر معافی مانگ لو مگر امریکا تھا کہ لچک دکھانے کو تیار نہیں تھا۔ دوسری جانب سے نیٹو سپلائی کی بندش اور جاری ڈرون حملوں و امریکی امداد بند کرنے کی دھمکیوں سے پاکستان پریشان تھا۔ وزیر دفاع کی تو جیسے دنوں کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو کر رہ گئی تھیں۔ اللہ اللہ کر کے امریکا نے معافی کا ناٹک کیا ہی تھا کہ پاکستان کی جانب سے فوری نیٹو رسد بحال کردی گئی۔

ایک جانب پاکستان نے امریکا و نیٹو کو خو ش کرنے کے لئے اپنے نوجوانوں کے خون تک کا سودا کر ڈالا ہے تو دوسری طرف حکمران پاکستانی عوام کی جانب سے نیٹو سپلائی بحالی پر شدید تنقید و دباﺅ کا شکارہیں۔ اب یہ بات تو واضح ہوچکی ہے امریکا نے بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے، جس کے پیچھے پاکستان کی دفاعی طاقت کو شکست دینا مقصود ہے۔ بھارت نے پاکستان کو تو شروع دن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا اب وہ امریکا کے آشیرواد سے اپنے گندے عزائم پورے کرنا چاہتا ہے۔ امریکا و نیٹو کو افغانستان میں جس طرح شکست کا سامنا ہے اس کو خود امریکی و یورپ کا میڈیا بڑے ہی اچھے انداز میں پیش کرچکا ہے اور کچھ تنبیہات بھی کرچکا ہے، کہ آنے والے حالات امریکاو نیٹو کے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہوں گے۔

کچھ خبریں یہ بھی منظر عام پر آئیں ہیں کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو رسد کی بحالی سے امریکا و نیٹو کو افغانستان سے انخلاءمیں آسانی ہوگی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے اب امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے منصوبے بنانے لگا ہے۔ مگر امریکا کے جانے کے بعد بھارت کچھ غیرمعمولی حد تک پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ادھر امریکا نے کہا کہ وہ اپنی کمان اب بھارت کے سپرد کر کے جار ہا ہے مگر بھارت ،بھارت ہے جو امریکی انخلاءسے قبل ہی کچھ افغانیوں و مجاہدین سے خائف ہورہا ہے کہ اب اگر امریکا چلا جاتا ہے تو پھر ان مجاہدین کے حملوں کا رخ ان کی جانب ہوگا۔ ایسے میں بھارت کو چاہئے کہ وہ افغانستان سے امریکی انخلاءسے پہلے ہی خود کو افغانستان سے رفو چکر کر لے ورنہ حالات بہت سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جن تابوتوں میں امریکی و نیٹو فوجیوں کی لاشیں جایا کرتی تھیں اب تابوتوں کی ضرورت بھی پیش نہ آئے اور افغانستان بھارت کے لیے سب سے بڑا شمشان گھاٹ بن جائے، مگر اس میں بھارت کو اپنے مفادات دیکھائی دے رہے ہوں گے تبھی بھارت اس جنگ کا حصہ بننا چاہ رہاہے ۔ اور یقینا یہ مفاد امریکی کندھوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو سرنگوں کرنا ہو سکتا ہے۔

اب پاک بھارت تعلقات جس سرد مہری کا شکار ہیں ان میں پاک امریکا تعلقات بھی کچھ خاص نہیں رہے۔ مگر ہمارے حکمران اپنا واضح اور جان دار کردار پیش کرنے کی بجائے اب امریکا کے سامنے جھکے جارہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے پاس عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے اگر حکومت امریکا کے سامنے جھکنے کی بجائے جواں مردی کا مظاہرہ کرے تو پوری پاکستانی عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، اب تھوڑا دفاع پاکستان کونسل کے احوال پر نظر ڈال لیتے ہیں، دفاع پاکستان کونسل کی ضرورت بھی اسی لئے پیش آئی کہ عوام کو حکومت کی جانب سے کوئی واضح اور ٹھوس موقف سامنے نہیں آیا تو ان کو اپنے جذبات کی ترجمانی کے لئے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت پیش آئی ۔ اس عوامی ضرورت کومحب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے دفاع پاکستان کونسل تشکیل دے کر پورا کر دیا۔ اگرچہ بعد میں دفاع پاکستان میں شامل جماعتوں کے بعض قائدین کو عالمی دباﺅ کا بھی سامنا رہا ہے۔ جن میں جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید ، پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی ودیگر شامل ہیں۔ مگر جودل میں خلوص اور غیرت ایمانی کا جذبہ رکھتے ہیں وہ کسی بیرونی طاقت اور دباﺅ کا شکار نہیں ہوتے۔ حافظ محمد سعید اگر دفاع پاکستان کونسل کے قائدین میں شامل ہیں مگر ان کی شخصیت اور ان کی جماعت رفاہی و فلاحی کاموں میں صف اول میں شمار کی جاتی ہے۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکمران مذکورہ مثال کی طرح امریکا کی جانب سے کیے گئے پہلے حملے میں اپنا کان تو گنوا بیٹھے ہیں مگر اب نیٹو سپلائی بحال کر کے امریکا کو دوسرے حملے کی دعوت بھی دے رہے ہیں اس سے پہلے کہ امریکا اپنا دوسرا وار کردے اور پاکستان کو خد نا خواستہ کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے پاکستان کو سپلائی لائن کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

عوام کو بھی اب دیکھنا ہوگا کہ وہ کس کا ساتھ دے رہے ہیں کہیں ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے تو ان کے قائدین میںشامل نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ
تیر کھا کے دیکھا کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

اس وقت حالات بدل چکے ہیں، بازی پلٹ چکی ہے۔ امریکا افغانستان میں شکست فاش ہوچکا ہے۔ بھارت پاکستان کے حوالے سے اپنا منفی کردار اور موقف واضح کرچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اب بھی امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکے رہے گا یا پھر اپنا وقار اور اپنی عزت کا ثبوت دے گا۔
Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.