قومی اور عالمی معیشت کو لاحق
بیماریوں کے بارے میں قومی اخبارات میں بیان شائع ہوتے رہتے ہیں‘ ڈاکٹر
صاحب سادہ لفظوں میں گہری باتیں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے تصورات
اور نظریات کا ماخذ قرآن کا مطالعہ ہوتا ہے ۔ دانشور‘کالم نگار اور ماہر
معیشت ڈاکٹر مرتضیٰ مغل سے ہم نے ایک مختصر نشست رکھی اور معاشی پہلوﺅں کے
حوالے سے سوالات پوچھے۔موجودہ بجٹ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ
ایک سیاسی بجٹ ہے جسے اشرافیہ نے اشرافیہ کے لئے بنایا ہے ۔اس میں حقائق سے
زیادہ توقعات اور مفروضات پر تکیہ کیا گیا ہے اور عوام کو سبز باغ دکھائے
گئے ہیں اسلئے اسے نہ تو ریفارمسٹ کہا جا سکتا ہے نہ پاپولسٹ۔ ناکام بجٹ نے
حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی داﺅ پر لگا دی ہے۔ بجٹ میں ایک لاکھ افراد کو
روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر جس حکومت کے پاس آئی ایم ایف کا
قرضہ لوٹانے کے لئے رقم نہ ہو وہ قرض واپس کیسے کرے گی۔ تمام نقلابی
اقدامات صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہیں مثلاًبینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کو پچاس ارب کے بجائے ستر ارب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سیاسی
وفاداریاں خریدنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں اس سے با صلاحیت افراد کو بھکاری
بنایا جا رہا ہے جو معیشت پر بوجھ ہونگے۔آئندہ مالی سال میں ریونیو کی
وصولیوں کا ہدف 32/34ارب روپے ہے جو موجودہ حالات میں مشکل نظر آتا ہے اور
اس میں بار بار نظر الثانی ہو گی کیونکہ صنعتیں تو بند ہیں یا بنگلہ دیش
منتقل ہو رہی ہیں۔ برآمدات کم اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ ہر شعبہ زوال پذیر
ہے جس سے ملک ایک طفیلی ریاست بن رہا ہے۔زرعی شعبہ کی ترقی کا بھی یہ حال
ہے کہ اسی فیصد دالیں درآمد کرنا ہونگی۔ بجلی کے نرخ آئے روز نئے منی بجٹ
کی توید دیتے ہیں مگر چار سال میں بجلی پر ایک سو ارب کی سبسڈی کا دعویٰ
بھی کیا جاتا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔خسارے میں چلنے والے ادارے جو سفید
ہاتھی بن چکے ہیں کے بارے میں بجٹ خاموش ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ادارے
آئندہ سال بھی عوام کے خون پر پلتے رہیں گے۔بجٹ میں زراعت، سروس، کنسٹرکشن،
کیپٹل مارکیٹ وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا جو
بینکوں سے قرضے لینے کی پالیسی کے تسلسل کا پتہ ریتے ہیں۔ ۔حکمران مسلسل
قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس میں امن و معیشت میں بہتری
لانااور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ نہ تو ملک میں
توانائی کابحران ہے نہ زرمبادلہ کا اصل بحران ارادوں اور نیتوں کا ہے اسی
لئے حکمران ہمیں لیڈ نہیں چیٹ کر رہے ہیں۔ بجٹ میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر (عوام)
کو بھی کم از کم سامنے ضرور رکھ لینا چاہئے اور 43فیصد خطہ غربت سے نیچے
رہنے والوں کے لئے خصوصاً سوچا جانا چاہیے تھا۔ آمدن بڑھانے کے لئے خصوصی
اقدامات کرنا چاہیے تھے اور شہ خرچیاں کم کرنے پر بھی غور ہونا چاہیے تھا۔
امریکہ اور آرمی کو ساتھ ملانے کے بعد اب ان حکمرانوں کو اللہ کو راضی کرنے
کی سوچ بھی آجانی چاہیے کہ جو فرماتا ہے ”مخلوق میرا کنبہ ہے۔جس نے اس کی
بہتری کے لئے کام کیا وہ مجھے پیارا ہے“۔پاکستان اکانومی واچ کے بارے میں
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک معاشرے اور ملک کے اندر اقتصادی نا
ہمواریاں رہتی ہیں تعلیم ہونے کے باوجود ترقی نہیں ہوتی اوربھوک صحت کو کھا
جاتی ہے۔ملک کے نامور ماہرین اقتصادیات کے اندر تحریک پیدا کی کہ بہتر
اقتصادی نظام کے مختلف ماڈلز سامنے لائے جائیں تاکہ جب بھی قومی سطح پر
بہتر قیادت سامنے آئے تو کم از کم اس کے لئے ”ہوم ورک“ پہلے سے موجود
ہو۔”پاکستان اکانومی واچ“ کا قیام اسی سوچ کے تابع ممکن ہوا۔مجھے2007ءمیں
اس تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا۔آج اکانومی واچ کے اقتصادی تجزیئے صرف قومی
ہی نہیں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتے ہیں۔قومی روزناموں نے
اکانومی واچ کے بروقت تجزیوں کی بنیاد پر اداریے لکھے ہیں۔ پاکستان اکانومی
واچ ایک ایسا ادارہ ہے جو بغیر کسی خوف و خطر‘ ڈر‘ لالچ اور دھمکی کے حکومت
کے غلط اقتصادی فیصلوں پر گرفت کرتا ہے ۔پاکستان اکانومی واچ کا یہ دعویٰ
تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے سونے کے ذخائرسندھ کے تھرکول
ذخائر ‘پاک ایران گیس معاہدے اور آئی ایم ایف امداد کے حوالے سے اس ادارے
نے قوم کو بروقت آگاہ کرکے حکومت کو رجوع کرنے پر آمادہ کیا ہے۔تمام تر
امریکی دباﺅ کے باوجود پاک ایران گیس معاہدے پر عمل درآمد ہورہا
ہے‘بلوچستان کے ذخائر بلوچستان کی حکومت کے حوالے کئے جارہے ہیں اور آئی
ایم ایف کے دباﺅ کو بڑی حد تک بے اثر کردیا گیا ہے۔میری سب سے بڑی خواہش یہ
ہے کہ پاکستان میں ایسے اقتصادی ماڈل کی تیاری ہوجائے جس پر عملدرآمد سے
ملک کو سودی نظام سے نجات ملے‘دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور ہر پاکستانی کو
اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے مطابق کمانے کا موقع مل سکے۔پاکستان کی
معاشی بدحالی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی
بدحالی میں حکمرانوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد بھی ذمہ دار ہے۔ معاشی
تنزلی اللہ کی ناراضگی کا ثبوت ہے جس سے عہدہ برآہ ہونے کی کوشش اس وقت تک
بار آور نہیں ہوگی جب تک ہم اللہ کو نہ منالیں۔ جھوٹ اور منافقت کو کامیابی
کا زینہ تصور کر لیاگیاہے جس کی وجہ سے پاکستان اقوام عالم میں رسوا ہو کر
رہ گیا ہے۔ عوام کی کثیر تعدادنے مالی کرپشن کو معمول سمجھنا شروع کردیا جس
سے حکمران طبقہ کو حوصلہ ملا ہے۔گیس بحران کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا
ہے کہ ترکمانستان سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی درآمد مہنگی اور غیر یقینی
ہے جبکہ پاکستا ن کے پاس توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے ایرانی گیس کے
علاوہ کوئی آپشن نہیں۔امریکی خوشنودی کے لئے تاپی پراجیکٹ پر ملک و قوم کا
سرمایہ اور وقت برباد نہ کیا جائے اور امریکی ناراضگی کے خوف سے ایرانی گیس
کی درآمد موخر کرکے ملک وقوم کا مستقبل تاریک نہ کیا جائے۔کرزئی کی
کمزور‘غیر موثر اور کرپٹ حکومت افغانستان سے گزرنے والی پائپ لائن کی حفاظت
نہیں کر سکے گی جس کی قیمت پاکستان کوچکانا ہوگی۔ امریکی اشرافیہ کی کثیر
القوی تیل و گیس کمپنیوں میں شراکت ڈھکی چھپی نہیں اور دولت آباد کے گیس کے
ذخائر پر بھی ان کی اجارہ داری ہے جس کے ذریعے وہ ہمارا مستقبل برباد کرنے
کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ مقامی آئل و گیس کمپنیاں کرپشن اور اقرباپروری کی
وجہ سے بیٹھ رہی ہےں جبکہ بدانتظامی ایل این جی کی درآمد میں رکاوٹ بنی
ہوئی ہے۔سی این جی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت سی این جی
کی کھپت پیداوار کے 8فیصد سے زائد نہیں‘ سی این جی بند کرنے سے سارا فائدہ
ایک ٹولے کو ہوگا جبکہ کسی اور ایندھن کی درآمد سے ملک کا بھاری زرمبادلہ
ضائع ہوگا۔ اصل معاملہ اربوں روپے کے مزید گھپلوں کا ہے جس کے لئے راہ
ہموار کی جارہی ہے۔پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی وزارت اپنی نااہلی کا اعتراف
کرے اور بین الاقوامی تیل مافیا کے مذموم مفادت کی نگہبانی بند کرے۔ عوام
کو بتایا جائے کہ روزانہ 600 ملین کیوبک فٹ گیس جو پیداوار کا 15 فیصد ہے
کس سیاستدان کے دو بجلی گھروں کا بلاتعطل فراہم کی جارہی ہے جو سی این جی
کی کل کھپت سے دگنی ہے۔ دیگر بجلی گھروںکو گیس فراہمی میں میرٹ کی دھجیاں
کس کے حکم پر اڑائی جارہی ہیں۔پاکستان کے سب سے جدید فرٹیلائزر پلانٹ میں
کس کی شراکت ہے اس شعبہ کے باقی ماندہ یونٹوں کو کون منظم انداز میں تباہ
کر رہا ہے۔ گیس کم تھی تو کھاد کے کارخانے بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی۔
توانائی کے شعبہ کے ارباب اختیار بااثر تیل کمپنیوں کے اشاروں پر ناچ رہے
ہیں اور انہیں کمزور گیس سیکٹر سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ گیس کی آمدنی اور
ٹیکس بھی مرکزی حکومت کو ہی ملتے ہیں۔پنجاب سارے پاکستان کو گندم‘چاول
‘سبزیاں اور پھل کھلاتا ہے اور اس کی کپاس ملک کی سب سے زیادہ زرمبادلہ
کمانے والی صنعت ٹیکسٹائل کو خام مال فراہم کرتی ہے جس سے سارے ملک کو
فائدہ ہوتا ہے مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔مرکزی حکومت ہر معاملہ میں
صوبائیت کو ہوا دینے کی خطرناک پالیسی ترک کرے اور عوام کو جمہوریت کی مزید
سزا نہ دی جائے۔ الزامات کی سیاست‘اقرباپروری ‘ذاتی مفادات کے حصول‘باتوں
اور دعوﺅں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کئے جائیں۔کاٹن مارکیٹ میں حکومت کی
مداخلت سے کاشتکاروں کو نقصان سے بچانے کے لئے کپاس خریدنے کی بجائے انہیں
براہ راست نقد امداد یابجلی کے بلوں اور آبیانہ وغیر ہ کی معافی پر غور کیا
جائے۔ پلاننگ کمیشن پہلے ہی حکومت کی متوقع مداخلت کو فری مارکیٹ کے قوائد
کی خلاف ورزی کہہ چکا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے پاس ٹریڈنگ کارپوریشن کی کپاس
کی خریداری کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ٹیکسٹائل کی وزارت کاٹن جنرز کے جاری کردہ
اعدادوشمار پر فیصلے کرنے کی بجائے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے بھی کپاس
کی پیداوار سمیت تمام معاملات پر رائے طلب کرنے اور میٹنگوں میں صوبوں اور
کاشتکاروں کی نمائندگی یقینی بنائے۔ ملک میں 12598000 گھانٹھ کپاس کی
پیداوار ہوئی جبکہ جننگ فیکٹریاں 11036018گھانٹھ کپاس خرید کر
9013925گھانٹھ فروخت بھی کرچکی ہیں۔ 71.55 فیصد کپاس کی فروخت ہوگئی ہے
جبکہ صرف 1561982گھانٹھ باقی ہے جس کے لئے مداخلت کی منصوبہ بندی بلاجواز
ہے اورا س کا فائدہ صرف واویلا کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کو ہوگا۔حکومت
ذخیرہ اندوزوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر وسائل کا زیاں نہ کرے۔ سال
2011ءپاکستانی معیشت کےلئے انتہائی مایوس کن رہا۔ ملکی معیشت کو جہاں
توانائی کے بحران اور افراط زر کے دباﺅ کا سامنا رہا۔ وہاں پر عالمی
مالیاتی فنڈ کے دروازے بند ہونے سے غیر ملکی امداد قرضے بھی پاکستان کے لئے
بند ہوگئے جس کے باعث سٹیٹ بینک روزانہ دو ارب کے کرنسی نوٹ چھاپ کر حکومتی
اخراجات پورے کرتا رہا جس سے روپے کی قدر گرتی گئی۔ بجٹ میں لگائے گئے
تخمینے میں غیر ملکی قرضے اور اور امداد شامل تھی اور یہ امداد قرضے نہ
ملنے سے پاکستانی معیشت شدید بحران سے دوچار ہوگئی۔ سال بھر توانائی کا
شدید بحران رہا جس سے کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے۔ عوام سے لاتعلق حکمران اس
سال بھی معیشت کی بہتری کا کوئی انتظام اور ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے
ساری توجہ اقتدار برقرار رکھنے پر مرکوزکئے ہوئے ہیں۔سیاست ان کی سوچ کا
محور اور معیشت ایک لایعنی موضوع ہے۔ اس سال شرح نمو میں تین سے چار فیصد
کمی‘ زرعی پیداوار میں سات سے آٹھ فیصد کمی‘ افراط زر اور ڈالر کی قدر میں
اضافہ جبکہ روپے جو امسال پانچ فیصد گرا ئے کی قدر میں کمی ہوگی۔حکومت نوٹ
چھاپتی رہے گی‘روپیہ گرتا رہے گا اور تجارتی خسارہ بڑھتا جائے گا جس
کامداوا کشکول کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت اشرافیہ کو خوش رکھنے کے لئے ٹیکس
نیٹ نہیں پھیلائے گی اور نہ ہی سالانہ چار سو ارب کا نقصان کرنے والی
کارپوریشنوں کی اصلاح کی جائے گی جہاں تھوک کے حساب سے سیاسی کارکنوں کی
بھرتیاں جاری ہیں۔1952 ارب روپے کے محاصل کا ٹارگٹ بھی پور انہیں ہوسکے گا۔
سالانہ حکومتی قرضے ڈیڑھ کھرب روپے ہوجائیں گے۔ تیل وگیس سمیت تمام اشیائے
خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔خطے میں امن سے پاکستان کی معیشت پر کیا
اثراتبارے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ایران اور افغانستان سے مذاکرات
پاکستان کی بڑی کامیابی ہے جس پر حکومت کی جنتی تعریف کی جائے کم ہے۔ تینوں
ممالک بیرونی مداخلت مسترد کردیں تو دنیا کے اس غیر مستحکم ترین خطہ میں
استحکام آئے گا اور عوام سکھ کا سانس لیں گے جبکہ معاشی ترقی قدم چومے
گی۔پاکستان کی جانب سے گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنے اور ایران کی جانب
سے گیس کی سپلائی دگنی کرنے کے فیصلے دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں جس سے
امریکی پالیسی سازوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔تینوں ممالک اپنے فیصلے خود کریں
اور ہزاروں میل دور بیٹھے کسی ملک کو مداخلت نہ کرنے دیں جس نے تینوں ممالک
کو جہنم بنانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تینوں ممالک جلد از جلد باہمی اشتراک
بڑھانے کے لئے معاہدے کریں اور سہ فریقی مذاکرات میں طے پانے والے معاملات
کو عملی جامہ پہنائیں۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کی عوام تیز رفتاری سے غذائی
عدم استحکام کا شکار ہورہی ہے جبکہ ارباب اختیار اس معاملہ کو غیر اہم
سمجھتے ہوئے نظرانداز کر رہے ہیں۔غذائی عدم تحفظ کی وبا نے پورے ملک کو
لپیٹ میں لے لیا ہے مگر شہری علاقوں میں اس کے اثرات زیادہ ہیں جہاں کم از
کم 37فیصد لوگ اس مہنگائی کے دور میں زندہ رہنے کے لئے خوراک پر سمجھوتہ کر
رہے ہی۔ساڑھے چار کروڑ عوام روزانہ 1100 سے کم کیلوریز کھا رہے ہیں جس سے
وہ زندہ لاشیں بن رہے ہیں جن کی کمزوری ان کے گھروں اور ملکی پیداوار کے
لئے خطرناک ہے۔خوراک تعلیم سے زیادہ اہم ہے ۔والدین نے دو وقت کی روٹی
کھانے کے لئے لاکھوں بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا جس سے ملک کا مستقبل خطرات
سے دوچار ہوگیا ہے ۔غذائی عدم تحفظ کی وجوہات میں آبپاشی کے پانی کی
کمی‘سٹوریج کا ناقص انتظام‘ فصل کی کٹائی سے قبل اور بعد کے نقصانات
دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ ‘بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ‘ افراط زر‘پیداوار کی
بڑھتی ہوئی لاگت اور معاشی سست روی شامل ہیں۔تیل کی قیمتیں‘آبادی میں اضافہ‘
فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ ہونا اور ناقص پالیسیوں نے بھی اپنا کردار
ادا کیا ہے جب حکومت بینکوں سے سارا سرمایہ اپنے اخراجات کے لئے نکال لے تو
یہ ادارے زرعی شعبہ کو قرضے کہاں سے دیں گے۔ |