گزشتہ سے پیوستہ
سات، دس اور بارہ فروری کو انہوں نے ایک مسلسل مضمون اسامہ بن لادن یا لارنس آف
عریبیہ۔ کے نام سے لکھا اور جس کا لب لباب یہ تھا کہ اسامہ بن لادن بھی لارنس
آف عریبیہ کی طرح ایک جاسوس ہے جس کو مسلمانوں کے درمیان ایک سازش کے درمیان
لایا گیا۔ ان کے مضمون کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم ایک بات کی وضاحت کر دیں کہ آج
اکثر لوگ اس بات کو موضوع بناتے ہیں کہ یہ جہادی عنصر پہلے امریکہ کے آشیر باد
اور حمایت سے روس کے خلاف لڑے اور آج وہ امریکہ کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں اور اس
کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں تو یہ کھلا تضاد اور دوغلا پن ہے، ایسے لوگوں کی خدمت
میں ہم یہی عرض کریں کہ پہلے افغانستان میں روس نے جارحیت کی تھی اور افغانی
مسلمانوں کو مدد کی ضرورت تھی اس لیے پاکستانی بھائیوں نے ان کی مدد کی، اس جنگ
میں امریکہ کا بھی مفاد تھا تو اس نے اس جنگ میں پاکستان کے جہادی گروپوں کو
پروان چڑھایا، جس طرح اس وقت امریکہ کو ہماری یعنی مسلمانوں کی ضرورت تھی اسی
طرح ہمیں بھی امریکہ کی مدد کی ضرورت تھی اس طرح یہ امداد باہمی کا ایک سودا
تھا۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اب امریکہ کی حمایت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
کل اگر روس غلط تھا تو آج امریکہ غلط ہے، کل جس طرح ہم نے روس کی مخالفت کی اسی
طرح آج ہم امریکہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ لوگوں اور ملکوں کو استعمال
کرنے کے بعد چھوڑ سکتا ہے تو کیا ہم اس بات کے پابند ہیں کہ امریکہ کی غلط
پالیسیوں کے باوجود اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں۔ خیر یہ تو ایک الگ بات تھی اب ہم
اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ نوید صاحب نے لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن ایک آسمانی
عذاب سے کم نہیں ہے تو ان کی خدمت میں یہی عرض کریں گے آسمانی عذاب اسامہ بن
لادن نہیں بلکہ آپ کے ممدوح بش جونیئر ہیں جن کی تعریف میں آپ رطب اللسان ہیں۔
امریکہ نے پہلے تو اپنے مقصد کے لیے مسلمانوں کو استعمال کیا۔ روس کی افغانستان
میں موجودگی کے وقت امریکہ نے جہاد کو سپورٹ کیا، یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے
کہ جہاد پہلے شروع ہوا اور امریکہ نے اس میں بعد میں سرمایہ کاری اور حمایت
کرنا شروع کی۔اور جب افغان جہاد کامیابی سے ہمکنار ہوا تو اس کے بڑے وسیع نتائج
نکلے سب سے پہلا اثر تو یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد کی اہمیت اور عظمت
واضح ہوئی۔ دوسرا اس کے فوراً بعد کشمیر میں بھی بیالیس سال کی پر امن جدو جہد
کے بعد مسلح جہاد شروع ہوا اور پہلی بار بھارت کو کشمیر میں صحیح طور سے معلوم
ہوا کہ مزاحمت کیا ہوتی ہے۔اور پہلی بار عالمی برادری کے سامنے یہ مسئلہ پوری
طرح اجاگر ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مسلمانوں کو بھی ایک جذبہ ایک حوصلہ ملا
اور انکی جدوجہد آزادی میں نئے سرے سے جان پڑ گئی۔ یہ سب کچھ امریکہ کی توقعات
کے برخلاف تھا اور امریکی تھنک ٹینک اور یہودی لابی یہ محسوس کرلیا کہ اگر اس
سلسلے کو نہیں روکا گیا تو پھر دنیا میں مسلمان چھا جائیں گے۔ اس لیے اس کے بعد
جہاد کو دہشت گردی سمجھا جانے لگا البتہ اس وقت یہ سب کچھ اتنا کھلے عام نہیں
ہوتا تھا۔البتہ اس وقت بھی جہادی گروپس کے خلاف کاروائیاں ہوتی تھیں،رمزی یوسف
وغیرہ کی گرفتاری سی سلسلے کی کڑی ہے۔اس پس منظر میں طالبان ظاہر ہوتے ہیں اور
اچانک پورے افغانستان میں چھا جاتے ہیں،ایک طرف تو یہ صورتحال تھی دوسری طرف
اسامہ بن لادن نے جہادی گروپس کی پشتیبانی شروع کردی اور یہ بات مغرب اور
امریکہ کے لیے ناقابل برادشت تھی اس لیے اسامہ بن لادن کو دہشت گرد ثابت کرنے
کی کوشش کی جانے لگی۔اور اسی لیے اسامہ بن لادن کو جہاد کی سزا یہ دی جانے لگی
کہ پہلے ان کو سعودیہ سے بےدخل کرنے کے لیے ان کی سعودی عرب کی شہریت منسوخ
کردی گئی،ان کے اثاثے ضبط کیے گئے اور جب اسامہ بن لادن سوڈان میں گئے تو وہاں
کی حکومت پر دباؤ ڈال کر وہاں سے بھی ان کو بے دخل کیا گیا اس وقت صرف ایک
افغانستان کی حکومت تھی جس نے امریکہ اور مغربی دنیا کو پورا دباؤ برداشت کر کے
بھی اسامہ کو بے دخل نہیں کیا۔اس میں ناکامی کے بعد اسرائیل اور امریکہ نے نائن
الیون کا ڈرامہ تیار پلان کیا اور اس میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسامہ بن
لادن کو ذمہ دار ٹہرایا گیا، البتہ آج تک اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے
بہرحال یہ تمام باتیں ماضی قریب کا حصہ ہیں اور تقریباً ہر فرد اس سے واقف ہے۔
ہم یہاں اپنا ایک نظریہ پیش کریں گے، ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن
کو شہید کیا جاچکا ہے اور اس وقت امریکہ نے ان کے نام کو ایک ہوا بنا کر رکھا
ہوا ہے تاکہ اپنا کام نکال سکے اور ہمارے اس خیال کی بنیاد تورا بورا پر بمباری
ہے کیوں کہ تورا بورا پر بمباری کر کے امریکہ نے ان پہاڑوں کو میدانوں میں
تبدیل کردیا تھا اور اس میں سوال ہی نہیں ہیدا ہوتا کہ کوئی جاندار زندہ رہا
ہو،البتہ القاعدہ اور اسامہ کا نام اس وقت امریکہ کے لیے مفید ہے اس لیے اس کا
نام استعمال کر کے امریکہ اپنا مطلب پورا کرتا ہے۔اگرچہ ہمارے اس نظریہ کی کوئی
باقاعدہ تصدیق نہیں موجود ہے لیکن کچھ دلائل سے یہ بات کافی حد تک قرین قیاس
لگتی ہے اول تو وہی بات جو ہم نے کہی تھی کہ تورا بورا پر بمباری دوم جیسا کہ
خود نوید صاحب نے کہا ہے کہ جب بھی بش کو کہیں مشکل پیش آئی تو اسامہ صاحب نے
اسی وقت مغرب کو مخاطب کر کے مسلمانوں کو پیغام دیا اور بش جونئیر کو مشکل سے
نکالا، یہ بات بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نام سے ڈمی پیغامات پھلائے
جارہے ہیں، ذرا سوچئے کہ آج کے ترقی یافتہ امریکہ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود
ہے کہ وہ موبائل فون کو ٹریس کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھی معلوم کرلیتا ہے کہ اگر اس
کے پاس کوئی ای میل آئی ہے تو وہ کہاں سے کی گئی ہے، کون سے سسٹم اور کس نام سے
وہ آئی ڈی بنائی گئی تھی اور کونسا ڈومین اس کے لیے استعمال کی گیا ہے، اس
امریکہ کے خلاف کوئی فرد ویڈیو، یا آڈیو پیغام بھیجتا ہے اور کسی کو پتہ نہیں
چلتا کہ یہ پیغام کہاں سے آیا ہے؟ یہ تمام باتیں قابل غور ہیں اور صرف ذراسی
توجہ ہے ہم سارا کھیل سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ جب چند سال
پہلے انٹرنیٹ پر عراق کی ویڈیوز جاری ہوتی تھیں جن میں مجاہدین کو امریکیوں اور
غداروں کو ذبح کرتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ جب مجھ سے پہلی بار میرے دوست نے اس
کا ذکر کیا اور مجھے وہ فائلز ڈاؤن لوڈ کر کے دکھائی تو میں نے ان کو ماننے سے
انکار کردیا اور کہا کہ یہ سب امریکن اور اسرائیلی کر رہے ہیں لیکن اس وقت میرے
دوست سمیت کسی کو اس بات کا یقین نہیں آیا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد یہ بات
باقاعدہ ثابت ہوگئی کہ مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے یہ کاروائیاں خود امریکن
فوجی کرتے تھے۔
اور دیکھیں اس بات کو اس طرح بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جب تک امریکہ کا عراق
میں مفاد تھا تو اس وقت تک عراق کے پاس بقول امریکہ کے مہلک ہتھیار تھے۔اور
عالمی امن کو خطرہ تھا لیکن جب چار سال تک امریکہ عراق میں اپنے مقاصد نہیںحاصل
کرسکا انہوں نے یہ اعلان کیا عراق پر حملہ دراصل غلط اطلاعات کی بنیاد پر تھا،
یہاںیہ بات قابل غور ہے کہ یہ اعتراف بش جونئیر نے کوئی ضمیر کی پکار پر نہیں
کیا ہے بلکہ بارک اوبامہ نے حلف اٹھانے سے بھی پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ہم
عراق کے بجائے افغانستان اور پاکستان پر توجہ دیں گے اور اس کے بعد سوچی سمجھی
منصوبہ بندی کے تحت بش جونئیر سے اعتراف کرایا گیا اور اب عنقریب عراق سے
امریکی فوجوں کو انخلاء شروع ہوجائے گا، اسی طرح جب افغانستان میں ان کا مقصد
پورا ہوجائے گا تو اسوقت یہ لوگ اسامہ بن لادن کی شہادت کا اعتراف کرلیں گے یہ
ہمارا نظریہ ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے
رہی بات اسامہ بن لادن کے لارنس اور عریبیہ ہونے کی تو اس کے لیے صرف یہی بات
کافی ہے کہ مغرب کے تمام ایجنٹوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو جہاد سے
دور کیا جائے تو اس لیے امریکہ اور مغرب کبھی بھی جہاد کے نام پر کسی قوت کو اب
سپورٹ نہیں کریں گے اس لیے یہ بات از خود اسامہ بن لادن کے امریکہ ایجنٹ ہونے
کی نفی کرتی ہے۔
آخر میں کچھ باتیں محترم نوید قمر صاحب کے عرض کرونگا کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ
علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ اپنے بھائی کے بارے میں اچھا گمان رکھو، تو میں
اس حدیث کی روشنی میں اپنے بھائی کے میں یہ گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے یہ
تمام نظریات اور آرٹیکل پاکستان اور امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے لکھے ہونگے۔اور
ہوسکتا ہے کہ ان کی یہ تمام کاوش اخلاص پر مبنی ہو لیکن دراصل یہ ایک بین
الاقوامی فورم ہے اور یہاں یہاں ہماری ذارا سی لاپروائی پاکستان اور اسلام کے
امیج کو بگاڑ سکتی ہے، میں اپنی بات اس کہانی پر ختم کرونگا کہ ایک دفعہ ایک
مسافر کو سفر کے دوران ایک جنگل سے گزرنا پڑا وہاں اس کی نظر ایک ریچھ پر پڑی
جو کہ بری طرح زخمی تھا اس فرد نے انسانیت کے ناتے اس ریچھ کی مدد کی اس کے
زخموں پر مرہم رکھا اور اس کے لیا خوراک مہیا کی، اس مسافر کا یہ حسنِ سلوک
دیکھ کر وہ ریچھ اس کا احسان مند ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ہو لیا چلتے چلتے جب
دوپہر ہوگئی تو ایک مناسب جگہ رک کر مسافر نے کھانا کھایا اور قیلولہ کے لیے
لیٹ گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی،ریچھ اس کے برابر میں بیتھ گیا ریچھ نے دیکھا کہ
اس کے محسن چہرے پر مکھیاں بیتھ رہی ہیں اور اس کی نیند میں خلل پڑ رہا ہے تو
وہ اپنے ہاتھوں سے وہ مکھیاں اڑانے لگا لیکن مکھیاں کہیں اس طرح اڑا کرتی ہیں
آخر تنگ آکر اس ریچھ نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور قریب تھا کہ مکھیوں کو مارنے
کے لیے اپنے محسن کے چہرے پر وہ پتھر مار دیتا اور اس کو ہلاک کر ڈالتا کہ اس
دوران ایک چور جو اس مسافر کو لوٹنے آیا تھا اس نے تلوار کا وار کر کے اس ریچھ
کو ہلاک کردیا۔اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہوتا ہے۔
تو اس کہانی کے پس منظر میں جناب نوید قمر صاحب اور دوسرے اصحاب اپنا جائزہ لیں
کہ کہیں وہ بھی پاکستان اور اسلام کے نادان دوست کا کردار تو ادا نہیں کر رہے
ہیں؟ |