پھر موج ہوا حجان اے میر نظر آئی
شاید کہ بہارآئی زنجیر نظر آئی
اک زمانہ تھا کہ سی این جی کی تعریف کرتے ارباب اختیار تھکتے نہ تھے اور
اخباروں کے صفحے کہ صفحے بھرے ہوتے تھے اور پاکستان کی ترقی کی گن گائے
جاتے تھے ایسا لگتا تھا کہ بس سی این جی کی ترقی سے پاکستان چاند چھوڑ مریخ
پر پہنچ چائے گا ۔ انڈسٹری کی ترغیب دی گئی ۔ گیس کے جنریٹرز لگنے لگے ۔
کاروں میں گیس لگانے کیلئے سی این جی اسٹیشن کھولے گئے ۔ ہر ہر انسٹالیشن
پر اخراجات کے ساتھ کروڑوں روپے رشوت میں گئے اور ہم سب خوش ہو گئے کہ اب
پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے گرین ماحول سے ہم دنیا کی ترقی
یافتہ قوم بن گئے تھے -
پھر جو آفت سی این جی پر آئی تو ترقی کے غبارے کی ہوا نکل گئی باقی جو کچھ
ہو رہا ہے آپ کی سامنے ہے ۔انڈسٹری تباہ ہو گئی کاروں میں سی این جی
استعمال کرنے والے در در بھٹکنے لگے گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع اور اب یہاں
تک کہہ دیا کے سی این جی بالکل معدوم ہو جائے گی ۔ خیالات کا اُجالا یہاں
تک پھیلا کہ گھریلو استعمال کیلئے بھی سی این جی کی افادیت سے منکر ہو گئے
اور کہتے ہیں کہ ملک کی ترقی کیلئے گھر میں بھی ایل پی جی کے سلینڈر
استعمال کیجئے -
لوٹ مار کا نیا دھندا شروع اب ایل پی جی کی تعریفیں کی جا رہی ہیں پہلے تو
گیس بہت خطرناک بتائی جاتی تھی اب سی این جی سے زیادہ محفوظ بتائی جاتی ہے
اس کے فوائد کی انبار لگے ہوئے ہیں پہلے ہی ایل پی جی 28روپے سے 140 روپے
کلو تک پہنچا دی گئی تھی اب لالچ دینے کیلئے 87روپے پر واپس لائی گئی ہے جو
کہ اب تک اس ریٹ پر بکتی دیکھائی نہیں دی فی الحال کم سے کم 90روپے کلو ہے
مگر ایل پی جی اسٹیشن پر گیس بھرانے کیلئے اسپیشل سلنڈر اورکٹ درکار ہیں جن
کی قیمت کم از کم 34ہزار بتائی جاتی ہے ۔
برسہا برس سے ایل پی جی عام دکانوں میں 250روپے کے سلینڈر سے 1800کے سلینڈر
تک میں ایک کلو سے 25کلو تک بھری جارہی تھی اور محفوظ تھی جو حادثات منظر
عام پر آئے وہ اس نوعیت کے تھے کہ اگر لا پرواہی کی جائے تو مٹی کے تیل سے
بھی آگ لگ جاتی ہے اس کا تو کوئی علاج نہیں ہے مگر اب کیوں کہ ایل پی جی
پمپنگ اسٹیشن سے بھری جائے گی تو 34ہزار روپے کی لوٹ مار کا آغاز ہو گیا ہے
اس مرتبہ غریب زیادہ پریشان ہوگا ٹھیلے والا اس سے روشنی کرتا ہے اور رکشے
والا رکشہ چلاتا ہے اور بہت سے غریب پرور کام لیئے جاتے ہیں لہذا 34ہزار
وصول کرنے کیلئے قانون حرکت میں آجائے گا ایل پی جی کا استعمال بے قائدہ ہو
رہا ہے اس کو باقاعدہ کیا جائے گا جب آپ قہر بر جان درویش کے مطابق ایل پی
جی اپنی کاروں میں لگوالیں گے تو پھر اس کے مہنگے کرنے کا کاروبار شروع ہو
گا اور کہا جائے گا کے یہ پیٹرول اور سی این جی سے زیادہ فاصلہ طے کرتی ہے
لہذ ا اسی حساب سے اس کی قیمت بھی نام نہاد عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی
بتائی جائے گی اور پاکستان کی عوام اسی طرح لٹیروں سے برباد ہوتی رہے گی
ٹارگٹ ۔گلینگ ۔بھتہ مافیا۔ پیٹڑل ۔ ڈیزل ۔ گیس ۔ سی این جی ۔ ایل پی جی پر
اوگرا کی مہربانیاں عوام کو قتل کرنے کیلئے کیا کیا ڈھنگ اختیار کئے گئے
ہیں -
عوام کو بجلی اور پانی سے محروم کر کے صنعتی ترقی کا پیہہ جام کر دیا گیا
ہے بہت سی انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو گئی ہے بے روز گاری عام ہے جرائم کا
سیلاب آگیا ہے اور نیرو جلتے ہوئے یونان میں چین کی بانسری بجا رہا ہے
دوسری طرف بھتہ مافیا اقتصادی قتل اور بحران پر معمور ہیں کوئی پوچھنے والا
نہیں سرکاری حکمت عملی عوام کو گھیر کر مصیبتوں میں پھنسا رہی ہیں -
جمہوریت اور سسٹم کے علمبردار اس بات پر مصر ہیں کہ ٹرانزیشن میں تو
قربانیاں دینی پڑتی ہیں آخر آپ آمریت سے جمہوریت میں آئیں ہیں تو اگر
18کروڑ قربان ہوتے ہیں تو ہو جائیں مگر سسٹم کو چلنے دیجئے ۔
محافظ وطن اور انصاف کی ٹھیکیدار دونوں خاموشی سے ملک کی تباہی کا منظر
دیکھ رہے ہیں اور ان کے صبر و تحمل کی بڑی پذیرائی کی جاتی ہے ۔ آنکھ والے
دیکھ رہے ہیں کے اس کشتیئے نوح میں سوراخ کو ن کر رہا ہے کوئی ہے جو اس
تخریب کو روکے یا ہم سب شہید جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس تباہی کی
سمندر میں خاموشی سے غرق ہو جائیں ۔ |