مہلت

حکومت اور عدلیہ میں برتری کی جنگ جاری ہے اور عوام حیران و پریشان مبہوت کھڑے ہیں اور انھیں بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ برتری کی یہ جنگ ملک کو کہاں لے جا کر ڈبو ئے گی؟ عوام نے آزاد عدلیہ کےلئے اس لئے جدو جہد نہیں کی تھی کہ وہ ایک مخصوص جماعت کو اپنے انصاف کے نشانے پر رکھے اور دوسری طرف سے آنکھیں بند کر لے۔ یہ سچ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے انتہائی اہم راہنما اور صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنااللہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کے چچیرے بھائی ہیں لیکن انصاف کی دنیا میں کو ئی بھائی وائی نہیں ہو تا بلکہ قانون ہو تا ہے جس کی عمل داری کو یقینی بنا نا ہو تا ہے اور قانوں کی نظر میں سب برابر ہو تے ہیں لہذا رشتے ناتوں کی انصاف کی دنیا میں کو ئی اہمیت نہیں ہو نی چا ئیے لیکن لگتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی نہیں بلکہ ذاتی رشتوں کی مضبوطی اور انا کی تسکین کی جنگ جاری ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص جماعت عدلیہ کی بے رحم شمشیر کی زد میں ہے۔سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی یہ دکھانے کےلئے کافی تھی کہ اگلا وار اس سے بھی شدید تر ہو گا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روح سے آصف علی زرداری کو ۵ ستمر تک مہلت دی گئی ہے کہ وہ صدر ِ پاکستان اور پارٹی عہدہ (شریک چیرمین پی پی پی ) میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور اگر انھوں نے ۵ ستمبر تک ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی ہو گی اور صدرِ مملکت کو بھی سید یوسف رضا گیلانی کی طرح نا اہل قرار دے کر ایوانِ صدر سے کسی اچھوت کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا جائےگا۔ عدلیہ کا احترام اور وقار اسی لئے ہو تا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو تی ہے لیکن اگر وہ کسی ایک فریق کو دبانے کی راہ پر نکل پڑے تو اپنا احترام کھو دیتی ہے اور اس کے تقدس پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ دو تہائی ووٹوں سے منتخب صدر کی اوقات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک معزز جج صدرِ پاکستان کو ان کے عہدے سے بر طرف کرنے کی سعی کر رہا ہے جس کا آئین کی شق 248 کی موجودگی میں اسے بالکل اختیار نہیں ہے ۔ آئین کی کیا خوبصورت تشریح ہے جس کی ذمہ داری آج کل عدلیہ نے اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا ئی ہو ئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کاایک معزز جج صدرِ پاکستان کو بر خاست کر سکتا ہے یقین تو نہیں آتا لیکن جس ملک میں سپریم کورٹ متفقہ وزیرِ اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے وہاں پر صدرِ مملکت کو ہائی کورٹ کا جج تو کیا کسی ماتحت عدالت کا ایک مجسٹریٹ بھی گھر بھیج سکتا ہے کیونکہ عدلیہ میں آج کل یہی انداز دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عدلیہ اس وقت جارحانہ موڈ میں ہے اوراس میں ذاتی مفادات کےلئے ہوا بھرنے کا فریضہ اپوزیشن جماعتیں سر انجام دے رہی ہیں۔ مقامِ فکر ہے کہ ملک کے صدر کو جب ایک جج کی ذاتی خوا ہش کی بھینٹ چڑھا دیا جائےگا تو پھر ایسے آئین کو کون مانے گا اور ایسی عدلیہ کا احترام کون کرےگا؟لوگ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر جانبداری کا چو غہ پہن کر عوام کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ دے تو پھر عوام اپنی جان بچانے کےلئے ہاتھ پاﺅں تو ماریں گئے اور اپنی عافیت کےلئے کسی ممکنہ راہ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گئے ۔اضطرار ی حالت میں حرام چیزوں کے کھانے کی اجازت تو ربِ کا ئنات نے بھی مرحمت فرما رکھی ہے لہذا عدلیہ کے پھندوں میں پھڑ پھڑاتے عوامی راہنماا گر اپنے عہدے کے دفاع میں تندو تیز جملوں کا استعمال کرتے ہوئے پائے جائیں تو اسے عوامی ردِ عمل سمجھ کر در گزر کیا جانا ضروری ہے ۔۔

ساری دنیا کو علم ہے کہ موجودہ عدلیہ کے ہو تے ہوئے اس ملک میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بھی تھے اور صدرِ مملکت بھی تھے لیکن اس وقت تو عدلیہ کے کسی معزز جج کے اندر اتنی جرات پیدا نہ ہو سکی کہ وہ آئین کی بالادستی کےلئے آمروں کو ایک عہدہ رکھنے پر مجبور کرتے اور ان کے خلاف صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی طرح کا کو ئی اچھوتا فیصلہ صادر کرکے انھیں ایوانِ صدر سے نکال باہر پھینکتے ۔ اس وقت تو عدالتیں ما ر شل لاﺅں کو جائز بھی قرار دے رہی تھیں اور آمروں کو آئین میں تبد یلی کا اختیار بھی عطا کر رہی تھیں۔ غلام اسحاق خان ایوانِ صدر میں بیٹھ کر کیا کیاساز شیں نہیں کیا کرتے تھے اور کیا کیا گل نہیں کھلا یا کرتے تھے لیکن کسی معزز جج نے انکا محاسبہ نہیں کیا اور نہ ہی انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔ یہی آئین تھا یہی عدلیہ تھی لیکن ہر سو خا موشی تھی لیکن جیسے ہی پی پی پی اقتدار میں آتی ہے آئین پر عملداری کا جذبہ بھی جوان ہوجا تا ہے اور آئین کے تقدس کا جنون بھی جوان ہو جاتا ہے اور پی پی پی کی منتخب حکومت کے خاتمے کا بیڑہ بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ ہو جا نا ضروری ہے کہ پی پی پی کے ساتھ کچھ قوتوں کو خدا واسطے کا بیر کیوں ہے اور وہ اس جماعت کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ جاتے ہیں ؟ارے بھئی پی پی پی کسی مارشل لائی قانون کے تحت اقتدار میں نہیں آئی بلکہ پاکستانی عوام نے اسے پانچ سال کےلئے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لہذ ا اسی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہو ئے اس کے خلاف سازشوں کو بند ہو جا نا چائیے اور عدالتی مارشل لائی سوچ کو دھیما ہو جاناچا ئیے۔ یہ سچ ہے کہ پی پی پی کی لیڈر شپ کا تعلق پنجاب سے نہیں ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب پی پی پی کا مضبوط قلعہ ہے اور پنجاب کے لوگ ذولفقار علی بھٹو کی جماعت سے محبت کرتے ہیں اور اس پر اپنے ووٹوں اور نو ٹوں کی بارش کرتے ہیں جو پنجاب کے سیاسی ادا کاروں اور لوٹوں کو بالکل پسند نہیں آتا لہذا پی پی پی کے خلاف سازشیں جنم لینا شروع ہو جا تی ہیں۔ارے خدا کا خوف کھا ئیے اگر آئین کو نہ ماننے کا سوال ایک دفعہ اٹھ گیا تو پھر اسے سنبھالا نہیں جا سکے گا ۔ خدا را اس ملک کی سالمیت سے مت کھیلئے ۔ عوامی نمائندوں کا احترام کرنا سیکھئے، پارلیمنٹ کو آزادی سے کام کرنے دیجئے اور وفاقِ پاکستان کو انصاف کے نام پر ذبح مت کیجئے ۔۔

پی پی پی سے جن حلقوں کی ذاتی پر خاش ہے وہ کسی دوسرے انداز سے اپنا حساب بیباق کر لیں جس کےلئے بڑے طریقے ہیں لیکن وفاق کی علامت جماعت (پی پی پی ) کے شریک چیرمین اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ایک صوبے کی عدالت سے برخاست کروا کے اسے نقصان پہنچانے کی کوششوں کو روکنے کی سبیل کیجئے ۔ عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے حکومتوں کی برخاستگی کے فیصلوں کا اجراءایک بڑا خطرناک کھیل ہے خدا را اس سے باز آ جا ئیے۔ اس سے ملکی سالمیت پارہ پارہ ہو جائےگی لہذا اس کی سالمیت کا خیال کیجئے اور اس طرح کے غیر جمہوری اور گھناﺅنے افعال سے باز آجا ئیے ۔ شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ بھی اسی طرح کا کھل کھیلا گیا تھا اور اگر تلہ سازش کیس کے تحت اسے جیل میں ڈال دیا گیا تھا جس نے بنگالیوں کو آتشِ پا کر دیا تھا لہذا چھوٹے صوبوں کی قیادت کو اس جانب مت دھکیلئے کہ پاکستان کی وحدت پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں۔ میاں برادران اقتدار کےلئے عقل و شعور سے کام نہیں لے رہے اور انھیں اپنے مفادات کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ(ق) کے ممبرانِ اسمبلی پر حملے اسی اقتدار پرستی کے شاخسانے ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد کی 1977 کی تحریک کے بعد یہ پہلی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتوںکے خلاف میاں برادران اس طرح کی مہم چلا رہے ہیں اور لوگوںکو اس بات پر اکسا رہے ہیںکہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مخالفین کا صفایا کر دیں۔یہ وفاقِ پاکستان کے خلاف کھلی بغا وت ہے جس کا نوٹس لیا جا ناضر وری ہے ، مفا ہمت ایک اچھی چیز ہے لیکن مفاہمت کے کہیں بھی یہ معنی نہیں ہیں کے مفاہمت کے نام پر کچھ لوگوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ مفاہمت کے نام پر اس ملک کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں کرنے لگ جائیں۔ اگر کچھ ہاتھ دستار کی عظمت طرف بڑھنے لگ جائیں تو پھر ان ہاتھوں کاکاٹا جانا ضروری ہو جا تا ہے ۔ دستار کی حرمت ہر چیز سے مقدم ہو تی ہے۔ انسان اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے ملک اہم ہوتے ہیں لہذا اگر کچھ ادارے اور لوگ اس ملک کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جانا ضرور ری ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ ملکی سالمیت کی حفاظت کرے ۔۔

سید یوسف رضا گیلانی کے بعد اب نئے منتخب وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کو بھی سوئس حکام کو خط لکھنے کےلئے سپریم کورٹ نے 25 جولائی تک کا وقت دیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو حکم دیا گیا ہے ۵۲ جو لائی سے قبل عدا لت کو بتائیں کہ وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئیس حکام کو خط لکھیں گئے کہ نہیں۔عدالت انتہائی عجلت میں ہے اور اس کے احکامات اس با ت کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ عدالت پی پی پی حکومت سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسمبلی کے اندر سے پی پی پی کی موجو دہ حکومت کو کسی بھی طرح سے ہٹا یا نہیں جا سکتا لہذا اس کے دو ہی راستے ہیں یا تو اسے فو جی جنتا کے شب خون سے ہٹا یا جا ئے یا پھر عدالتی مارشل لا کے ذریعے اس کی چھٹی کروائی جا ئے۔ امریکہ سے خراب تعلقا ت ،خراب معیشت،، دھشت گردی کی جنگ ، افغانستان کی بگڑتی ہو ئی صورتِ حال اور ابتر ملکی حالات کے پیشِ نظر فوج اقتدار پر قبضے کے معاملے میں فی ا لحال یک سو نظر نہیں آ رہی لیکن عدالتی رویہ اسے یہ موقعہ شائد فراہم کر دےگا کہ وہ یک سو ہو کر جمہوریت پر وار کر دے ۔ ملک عدمِ استحکام کا شکار ہو تا ہے تو ہونے دیجئے ، نفرتیں بڑ ھتی ہیں تو بڑھنے دیجئے لیکن پی پی پی کو اقتدار سے ہٹا نا ضروری ہے ۔ یہ ایک مشن ہے جسے عدلیہ ایجنسیوں ،میڈیا اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمتِ عملی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کے ہٹ جانے سے بھی اگر وہ مقاصد پو رے نہیں ہو تے تو پھر کیا ہو گا ؟ توہینِ عدالت کی تلوار کیا صوبوں کے وزرائے اعلے پر بھی چلائی جائے گی کیونکہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد صوبوں میں حکومتیں تو ختم نہیں ہو تیں لہذا کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے وہ مقاصد پورے ہو جائیں جن کےلئے سارا ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت سے عدلیہ کا مو جود ہ تصادم اور محاز آرائی ملکی سالمیت پر بڑے منفی اثرات پیدا کرے گی جس کا پاکستان اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس باہمی تصادم کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہی قوتیں ایک دفعہ پھر اقتدار پر قابض ہو جائیں جن سے قوم نے بڑی مشکلوں سے جان چھڑائی ہے۔خدا را انصاف کے نام پر اس ملک کو اندھیروں کے حوالے مت کیجئے۔ جمہوریت کو چلنے دیجئے کہ اسی میں ملک وقوم کی بقا ہے۔ جمہوریت نہ رہی تو ایسا غدر مچے گا جو پھر کسی سے بھی سنبھا لا نہیں جائےگا۔عدالتیں اور ادارے بے بس ہو جا ئیں گئے ، ہر سو انارکی کا راج ہو گا، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہو گا اور اندھیرے ایک دفعہ پھر قوم کا مقدر بن جائیں گئے جس سے نکلنے کےلئے پھر جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑیں گئے اور اب ہمارے پاس تو کوئی بے نظیر بھی نہیں جو اپنے لہو سے ان اندھیروں کو مٹا کر جمہوریت کی شمع روشن کر سکے۔۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.