مصر کی تازہ صورتحا ل کو سمجھنے
کےلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 1952 کی فوجی بغاوت میں شاہ فاروق کے تختہ پلٹ
کے بعد کرنل ناصر نے جو فوجی آمریت قائم کی تھی اور جس میں اقتدار پر قابض
فوجی افسران کی کوئی عوامی جوابدہی نہیں تھی، حسنی مبارک کے زوال کے باوجود
اس کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی کو یہ گمان نہیں رہنا
چاہئے کہ صدر حسنی مبارک کا نا مسعود دورِجبر راضی خوشی ختم گیا ۔ یہ
سمجھنا کہ مبارک کو عوامی ابال کی وجہ سے کرسی چھوڑ دینی پڑی،بہت بڑا
مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی ایماءپر اس عوامی ابال سے موقع پاکر
ان کے وزیر دفاع فیلڈ مارشل حسین طنطاوی نے ان کو قصر صدارت سے چلتا کیا ۔بحیثیت
وزیر دفاع طنطاوی کی فوج پرمضبوط گرفت مظبوط تھی اوراب بھی ہے ۔ مبارک
کواقتدار سے برطرف کرکے ’مسلح افواج کی سپریم کونسل‘ (SCAF) کے چیرمین کی
حیثیت سے اقتداراصلاً ان کے ہی ہاتھ میں آگیاہے اور اب نو منتحب صدر محمد
مرسی کی حلف برادری کے باوجودوہ اس کونسل کے ذریعہ اقتدارپر قابض رہنا
چاہتے ہیں۔جبکہ مرسی اپنے منصب کے وقار کی بحالی کےلئے برسر پیکار ہیں۔ صدر
کے منصب پر مرسی کی حلف برداری پر خبرکہ یہ شہ سرخی محض مبالغہ آمیز ہے کہ
فوج نے اقتدار ملک کے جمہوری نمائندے کے سپرد کردیا ہے۔ مصرمیں مرسی کی
صدارت کے باوجود اقتدار کی حقیقی منتقلی ابھی دور کی بات ہے۔
یہ صورتحا ل غیر متوقع یا انوکھی نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا رہا ہے
کہ فوجی آمریت کا دورختم ہوجانے کے دعوے اور جمہوریت کی نمائش کے باوجو د
فوج اختیار و اقتدارپر کنٹرول سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی ۔ مصر میں تو
پچھلے ساٹھ سال سے فوج کے ذریعہ ہی حکومت ہورہی ہے۔ فوجی تنظیم کی پوری
ساخت اور اس کی تربیت ہی اس ڈھنگ سے ہوئی ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ
مصروفیات میں یا اپنی فوجی بیرکوں میں محدود رہنا نہیں جانتی ۔جن ممالک میں
غیر فوجی نظام حکومت موثر نہیں ہوتااورانور سادات اور حسنی مبارک جیسے عیار
حکمراں فوج کی مدد سے اقتدار پر قابض رہتے ہیں،ایسے ممالک کی افواج میں یہ
ذہنیت پروان چڑھ جاتی ہے کہ بس وہی ملک کے مفادات کی خیر خواہ اور نگران
ہےںاور ان کو بزعم خود اپنی مرضی کے مطابق ملک کو چلانے کا حق حاصل ہے۔
لیکن ترکی کے جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (حزب العدالت والتنمیہ یا (Adalet ve
Kalkinma Partisi نے یہ دکھا دیا ہے عوام کی تائید سے فوج کی اس ذہنیت کو
زیر کرکے عوامی جمہوری نظام کو کس طرح بالا دست کیا جاسکتا ہے؟ امید کی مصر
کے صدرمرسی اورہمارے پڑوسی ملک پاکستان کے جمہوری حکمران اس سے سبق لیں گے۔
بات مصر کی تازہ صورتحال کی چل رہی تھی۔ خبر رساں ایجنسیوں نے اور غیر
محتاط کالم نگاروں نے ایک بڑامغالطہ یہ پیدا کردیا ہے کہ مصر کی نومنتحب
پارلیمان کو تحلیل کرنے کا حکم آئینی عدالت نے دیا ہے۔ یہ خبر غلط ہے۔ اعلا
آئینی عدالت نے اپنے 14جون کے فیصلے میں صرف یہ کہا ہے پارلیمانی الیکشن
میں بعض ایسی سیٹوں پرسیاسی پارٹیوں کے نامزد امیدوار جیتے ہیں جو دراصل
آزاد امیدواروں کے لئے مختص تھیں،اس لئے جزوی طور پر یہ انتخاب خلاف آئین
ہے۔ عدالتی حکم میںکہیںیہ نہیں کہا گیا کہ اس وجہ سے پارلیمنٹ کو تحلیل
کردیا گیا ہے یا پوری پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا کوئی قانونی جواز موجود ہے۔
ہوا دراصل یہ ہے کہ اس حکم کی آڑ میں فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کی سربراہی
میں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز (SCAF)نے پارلیمنٹ کو ہی تحلیل کرنے کاحکم
نامہ جاری کردیا۔ایک رائے یہ ہے کہ یہ حکم نامہ قانوناً ناقص ہے ۔ اگر کوئی
قانونی جواز ہوتا توعدالت خود پارلیمنٹ کو تحلیل کردیتی اور فوج کو یہ زحمت
نہ اٹھانی پڑتی ۔فوجی کونسل کا یہ حکم نامہ عدالتی فیصلے کے دو دن بعد اور
دوسرے دور کے صدارتی الیکشن سے ایک دن پہلے 16جون کوجاری کیا گیا۔ فوج کی
بدنیتی اس سے عیاں ہے کہ اس نے نہ صرف پارلیمنٹ کو تحلیل کیا بلکہ ایک
”آئینی اعلانیہ“ جاری کرکے صدر مملکت کے بھی بیشتر اختیارات کو صلب کرلیا ،جس
کا اس آئینی عدالتی فیصلے کی رو سے سرے سے کوئی جواز ہی نہیں۔اس فوجی حکم
کے بموجب ملک کے صدر کا فوج پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔ یہ کیسی جمہوریت
ہوئی جس میں ملک کا صدر فوج کا آئینی سربراہ اور اعلا ترین کمانڈنٹ نہیں
ہوگا؟ اسی حکم نامے کے ذریعہ اس فوجی کونسل نے قانون سازی کے حتمی اختیارات
بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں ۔ قانون سازی کے علاوہ کونسل نے آئین سازی پر
بھی اپنا کنٹرول قائم کرنے کی جسارت کی ہے۔گویا فوج بدستور ملک کے سیاہ
سفید پر قابض رہیگی۔اور فوجی کمان کونسل ہی پارلیمنٹ اور صدر کے اختیارات
کو استعمال کریگی۔آئین وہی کہے گا اور قانون وہی چلے گا جو فوج کے چند جنرل
چاہیں گے۔یہ بالکل وہی صورتحال ہوگی جو چند سال قبل تک ترکی میںتھی۔ چند
ارکان پارلیمنٹ کے چناﺅ کو غیر آئینی قراردئے جانے کے عدالتی حکم کے نفاذ
کے نام پر آئینی جمہوری نظام کی ایسی پامالی شاید چشم فلک نے اس دور میں
کہیں اور نہیں دیکھی ہوگی۔ اس کے باوجود شکر ہے کہ نومنتخب صدر کی حلف
برداری ہوگئی گو فوج یہی چاہتی ہے کہ وہ ایک نمائشی صدر رہیں اور اقتدار
بدستور اسی کے ہاتھوں میں رہے۔
اس مرحلے پر نو منتخب صدرمحمد مرسی نے بڑے تحمل سے کام لیا اورانتخاب میں
اپنی کامیابی کے باضابطہ اعلان سے پہلے اوراس کے فوراً بعد ایسا لگا کہ ان
کے اندر کی انقلابی روح سرد پڑ گئی ہے اور وہ اپنا منصب بچانے کےلئے فوج کی
خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ صاف ہوجاتا ہے
کہ وہ تحمل کے بجائے عجلت پسندی اور جذباتیت سے کام لیتے تو عین ممکن تھا
کہ طنطاوی ان کی حلف برداری میں بھی کوئی رکاوٹ ڈالدیتے۔ حلف برداری سے
پہلے ان کی طنطاوی سے طویل ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کو قصر صدارت سے کام
کرنے کی اجازت مل گئی ۔پہلے ہی دن یہ اشارہ مل گیا کہ وہ کھلے ذہن سے کام
کرنا چاہتے ہیں اور اقتدار میں اقلیت کے نمائندے کی شرکت چاہتے ہیں چنانچہ
وہ اس بات کےلئے کوشاں ہیں کہ ملک کے ممتاز کوپٹک عیسائی رہنمامنیر فخری
عبدالنور، جو سابق حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، نائب صدر کے منصب کو قبول
کرلیں۔ وہ ایک خاتون کو بھی نائب صدر بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان اندیشوں کا
ازالہ ہوجائے کہ ان کی حکومت قنوطیت پسند ہوسکتی ہے۔ اپنے انتخاب کے
باضابطہ اعلان کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں انہوں نے یہی دو اہم باتیں
کہیں۔ ایک تویہ کہ ملک کے تمام طبقوں کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ دوسرے انہوں نے
فوج کی تعریف بھی کی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی پارٹی سے بھی استعفا دیدیا
تاکہ صدر کی غیر جانبداری نظر آئے۔ انہوں نے 30 جو ن کو اپنی حلف برداری تک
کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ۔ البہ کیونکہ پارلیمنٹ پہلے ہی”تحلیل “کردی
گئی تھی اس لئے اسی آئینی بنچ کے سامنے ان کو حلف لینا تھا جس نے پارلیمانی
انتخاب کے ایک حصہ کو غیر آئینی قرار دیدیا تھا۔چنانچہ انہوں ایک دن پہلے
ہی ایک عوامی جلسہ میں علامتی طور پر اپنے عہدے کا حلف لے لیا۔حلف برداری
کے بعد پوری سیاسی صورتحال کا جائزہ لے کر انہوں نے 9جون کواچانک ’تحلیل
شدہ ‘ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرلیا۔فوراً ہی تحلیل شدہ پارلیمنٹ کے اسپیکر
محمد سعد توفیق الکتاتنی نے اجلاس کے لئے باضابطہ سرکلر جاری کردیا۔ چنانچہ
اس کے دوسرے ہی دن بروز منگل، 10جون دوپہر دو بجے پارلیمنٹ کا مختصر اجلاس
بغیر کسی ٹکراﺅ کے منعقد ہوگیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر مسٹر
الکتاتنی نے کہا کہ ہم آئینی بنچ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ اجلاس عدالتی حکم
کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ اسلئے طلب کیا گیا ہے کہ اس بحران کو کوئی
راستہ نکلے۔ “ یہ علامتی اجلاس کسی مزید کاروائی کے بغیر ختم ہوگیا۔ اس سے
قبل صدر مرسی کے ترجمان یاسر علی نے بھی ایک بیان میںکہا تھاکہ صدر مرسی کا
پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنا عدالتی حکم کے منافی یا عدالت سے ٹکراﺅ ہرگز
نہیں ہے۔
اجلاس سے قبل پارلیمنٹ کے سامنے جو فوج تعینات تھی وہ کم کردی گئی تھی
اورارکان پارلیمنٹ کو بغیر کسی روک ٹوک کے اندر جانے دیا گیا۔ اس کا مطلب
یہ ہوا کہ سردست فوج ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ جسمانی ٹکراﺅ سے بچنا ہی چاہتی
ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔یہ دراصل نومنتخب صدر اورفوجی کونسل کے درمیان کی
نفیسیاتی جنگ ہے ۔ خبر یہ بھی ہے کہ پس پردہ اس بحران کو حل کرنے کی کوشش
جاری ہے۔ ممکن ہے فوج کچھ مراعات کی یقین دہانی کے بعد اپنے موقف سے پیچھے
ہٹ جائے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس لڑائی کا پہلا دورصدر مرسی کے نام رہا ہے۔صدر مرسی کے
اس اقدام سے یقینا ان کا سیاسی قد بڑھا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں ایک جری
اور دیدہ ور لیڈر کے صورت میں ابھر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت
اور فوجی آمریت کے درمیان اس رسہ کشی میں سوشلسٹ، سیکولر اور لبرل قیادت بے
نقاب ہوگئی ہے کیونکہ وہ پارلیمنٹ جیسے کلیدی جمہوری ادارے کی بحالی کی اس
مہم کی موئد ہونے کے بجائے فوجی کاروائی کی پشت پناہی پر کمربستہ ہے۔ یہ
بات قابل غور ہے کہ دنیا بھر میں یہ پروپگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام پسندی
اور جمہوریت میں فطری ٹکراﺅ ہے۔ اسلام کا مطلب ہی ”آمریت “ بتایا جاتا ہے
۔ترکی کے بعد اب مصر کے اسلام پسندوں نے اپنے عمل سے یہ جتادیا ہے کہ وہی
اصل میںجمہوریت کے طرفدار اورانسان کی آواز کی آزادی کے علمبردار ہیں۔
چنانچہ جہاں پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنے کے مرسی کے حکم کی اخوان اور سلفی
نور پارٹی نے تائید کی ہے اور اس کے حق میں عوامی مظاہرے کی پکار دی ہے
وہیں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور لبرل لیڈروںنے اس کو غیر آئینی اور فوج سے غیر
ضروری ٹکراﺅ قرار دیا ہے۔چنانچہ اسلامی نقطہ نظر سے بیزار اس گروہ کے ارکان
پارلیمنٹ نے منگل کے علامتی اجلاس کا بائی کاٹ کیا اور صرف اسلام پسند
کہلائے جانے والے ارکان پارلیمنٹ ہی فوجی آمریت کو چلینج دینے اجلاس
میںحاضر رہے۔صدر کے اس اقدام پر نکتہ چینی کرنے والوں میں محمد البرداعی
اور امر موسیٰ جیسے سے لبرل کہلائے جانے والے لیڈر بھی شامل ہیں۔ ان کے
علاوہ سوشلسٹ پارٹی’ حزب التجمع الوطنی ‘کے رہنما محمد رفعت السعید نے اس
جرائتمندانہ اقدام پر صدر مرسی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا
صدرمرسی اور اخوان آئین کا احترام نہیں کرتے۔ یہ بات قابل ذکر ہے پارلیمنٹ
میں اخوان کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (حزب الحریہ و عدالة) اور سلفی النور
پارٹی کے ارکان کو دوتہائی اکثریت ہے اور منگل کے اجلاس میں تقریباً 70فیصد
ارکان نے ہی شرکت کی۔
کل حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، کہنا مشکل ہے۔ البتہ پارلیمانی اجلاس طلب
کرنے کے حکم نامہ میں صدر مرسی نے نئے انتخاب کے امکان کی طرف بھی اشارہ
کیا ہے اور کہا ہے کہ آئین کی منظوری کےلئے عوامی ریفرنڈم کے 60دن کے اندر
پارلیمانی چناﺅ ہونگے۔ اگرچہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن اور صدارتی الیکشن کے
درمیان اخوان کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی عوامی مقبولیت میں زبردست کمی
درج کی گئی ہے مگر عجب نہیں کہ فوج کے ساتھ مرسی کی اس نفسیاتی جنگ کی
بدولت عوام میں از سرنو جوش و خروش پیدا ہو اور ان کے دلوں کا یہ خوف نکل
جائے کہ سابق اخوان رہنما ملک میں ایسا صاف ستھرامنصفانہ اسلامی جمہوری
نظام قائم کرنے کے بجائے جس میں انسانی حقوق کا احترام اسی طرح ہو جس طرح
اسلام کے ابتدائی دور میں ہوتا تھا، اسلام کے نام پر مذہبی آمریت قائم نہ
کرلیں۔ اگرلوگوںکے دلوںسے یہ خدشہ نکل گیا اور جمہوریت میں ان کی دلچسپی
قائم رہی تو امید کی جاسکتی ہے کہ نئے انتخاب کی صورت میں اخوان کی فریڈم
اینڈ جسٹس پارٹی کو ہزیمت نہیں اٹھانی پڑیگی اور اسلام پسند مصری ملک میں
جمہوریت کے قیام میں کامیاب ہوجائیں گے اور مصر اس خطہ کا دوسر اترکی بن
جائیگا۔ |