پچھلے ہفتے شادی کی ایک تقریب
میں اچانک مجھے ایک چہرہ بہت مانوس سا لگا ۔میں ذہن پر بھرپور زور دیتی رہی
لیکن برسوں دور بیٹھی یادوں میں اٹکا وہ شناسا چہرہ ناشناسائی کی دھول میں
گُم ہی رہا ۔تقریب ختم ہوئی اور میں ان سوچوں کے ساتھ گھر آ گئی کہ
گئے دنوں کا سُراغ لے کر ، کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ
گھر آ کر سونے کے لئے بستر پر لیٹی تو اچانک مجھے یاد آ گیا کہ وہ تو میری
سکول کے زمانے کی دوست تھی ۔اُس کی یاد کیا آئی گویا یادوں کا د بستاں کھُل
گیا اور ماضی کے جھروکوں سے جھانکتی بچپن کی یادوں کی مہک نے میرے سارے
تفکرات یوں چوس لئے جیسے سکول کے زمانے میں کاپی پر گِری سیاہی کو ہمارا
”سیاہی چوس“ چوسا کرتا تھا ۔
یاد آیا کہ بچپن میں ہمیں چھٹی بہت مرغوب ہوتی تھی اور غیر متوقع تعطیل تو
اپنے ساتھ خوشیوں کی بہار لے کر آتی تھی۔ایک دن سکول پہنچے تو پتہ چلا کہ
کسی بڑے رہنُما کی اچانک وفات کے سوگ میں دو دن کی چھُٹی کر دی گئی ہے ۔
اُن کی وفات کا دُکھ تو خیر کیا ہونا تھا البتہ چھُٹی کا سُن کر ہمارا دل
بلیوں اچھلنے لگا ۔چھُٹی گزار کر واپس آئے تو ہمارا ننھا مُنا ذہن سوچنے
لگا کہ بڑے صاحب کی وفات پرتو دو چھُٹیاں ہو ئی ہیں لیکن اگر ہماری اُستانی
صاحبہ راہی عدم کو لبیک کہہ جائیں تو پھر کتنی چھُٹیاں ہوں گی؟۔ بد قسمتی
سے ہم نے اپنی اسی (شادی پر نظر آنے والی)اکلوتی سہیلی کو رازداں بنا لیا
اور اُس کمبخت نے ٹیچر کو بتانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی ۔بڑے ہو
کر جب ”بے بھاؤ کی پڑنا“ والا محاورہ ہماری نظر سے گزرا تو ہم محاورہ گھڑنے
والے کے ذہنِ رسا پر عش عش کر اٹھے ۔ہماری نرم و نازک جلد پر خوب ہاتھ صاف
کرنے کے بعد اُستانی جی ہمیں ”بیٹھکیں“لگانے کا حکم دے کر یہ بھول گئیں کہ
انہوں نے اس اشرف ا لمخلوقات کوکس نا معقول کام پر لگا دیا ہے ۔اُس”نا قابلِ
فراموش“ دن کے بعد ہماری ننھی مُنی دُعاؤں کا محور محض اُستانی جی سے
چھُٹکارا رہ گیا ۔جس دن ہمارے سالانہ امتحان کا رزلٹ آیا اُس دن ہم نے اپنے
پاس ہونے کا نہیں بلکہ استانی جی سے چھُٹکارے کا جی بھر کے جشن منایا۔اگلی
کلاس میں پپہنچے تو ہماری کلاس ٹیچر پہلی سے بھی سو گُنا کرخت نکلیں
اورتھوڑے ہی عرصے میں ہم سابقہ اُستانی جی کو یاد کر کر کے رونے لگے ۔پُرخار
راہوں پہ چلتے وہ سال ہم نے جیسے تیسے گزار لیا اور اگلی کلاس میں جاتے
ہوئے ”چھُٹکارے“ کا ایسا جشن منایا کہ جشنِ نوروز بھی اُس کے سامنے پھیکا
پڑ جائے ۔یقین مانیے کہ ہمارے پلے پڑنے والی تیسری کلاس ٹیچر صاحبہ تو پہلی
دو ٹیچرز کی بھی ”اماں جان“ نکلیں اور ہم بیچارے ایک دفعہ پھراگلی کلاس میں
”پروموشن“کے انتظار میں دن گننے لگے ۔سوچتی ہوں کہ وہ دن تو بیت گئے لیکن
بدلا تو اب بھی کچھ نہیں ۔اب بھی تبدیل ہوتی کلاس ٹیچر کی طرح کبھی آمریت
کا ڈنڈا ہمارے سر پر پڑتا ہے تو کبھی جمہوریت کا ۔
لوگ کہتے ہیں کہ گیا وقت پھر لوٹ کے نہیں آتا لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وقت
کہیں جاتا نہیں بلکہ گول گول گھومتا رہتا ہے ۔جیسے سکول کے زمانے میں ہمیں
نئی ٹیچر میں کشش محسوس ہوتی تھی با لکل ویسے ہی قوم کبھی آمریت کو خوش
آمدید کہتی ہے تو کبھی جمہوریت کو لیکن بھلا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ہم نے ایوب
کو فرشتہ کہا ۔اُس کی آمد کے جشن منائے اور پھر رسوا کرکے گھر بھیج دیا ۔بھٹو
کو قائدِ عوام اور نجات دہندہ قرار دیتے رہے لیکن اُسے بھی تارا مسیح کے
سپرد کر کے ”حلوے “ کھائے اور کھلائے ، مٹھائیاں بانٹیں اور جشن منائے ۔ضیاءالحق
کو اسلامی نظام کا عَلم بردار جانا اور یہ سمجھا کہ اُس کے”اسلامی نظام“تلے
دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی لیکن اُس سے بھی جلد ہی بیزار ہو گئے ۔وہ
جب ہواؤں میں ہَوا ہو گیا تو خس کم جہاں پاک کہتے ہوئے بینظیر کے پیچھے چل
پڑے ۔اُن کے دَور میں جب کرپشن نے فن کی شکل اختیار کی تو کانوں کو ہاتھ
لگانے لگے ۔میاں نواز شریف آئے تو ہم نے سوچا کہ صنعت کار کا بیٹا ہے مُلک
میں صنعتوں کا جال بچھا دے گا ۔لیکن قرضے لے کرہڑپ کرنے کا رواج اُنہی کے
دور میں پڑا جو آج تک جاری ہے ۔مشرف کی بد ترین آمریت بھی روتے پیٹتے بھُگت
لی ۔اُس کے دَور کو ملکی تاریخ کا بد ترین دور کہا جاتا ہے لیکن تلخ حقیقت
یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کا جمہوری دور مشرف کے دورِ آمریت سے کہیں زیادہ
بھیانک اور بد تر ہے ۔ہم آمریت اور جمہوریت کے اِس گول گول گھومنے والے
کھیل میں محض کٹھ پُتلیاںہیں ۔میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آج بھی پاکستان
کے 90 فیصد عوام جمہوریت کا مطلب جانتے ہیں نہ آمریت کا۔اُن کے نزدیک تو
وہی اچھا ہے جو اُنہیں روٹی،کپڑا،پانی،بجلی،گیس کا بند و بست کرے ۔آج بھی
بھٹو کی قبر کو محض اس لئے ووٹ مل رہے ہیں کہ اُس کے چاہنے والوں کو یقین
تھا کہ اگر بھٹو زندہ رہتا تو روٹی،کپڑا اور مکان کا بندوبست ضرور کر
دیتا۔ایسا ہی دل خوش کُن نعرہ لے کر عمران خاں میدان میں اُترے اور مقبول
ہوتے چلے گئے ۔منٹو پارک لاہور کے یاد گار جلسے کے بعد پُرانے پِٹے ہوئے
چہروں نے تحریکِ انصاف پر یلغار کر دی اور آج یہ پارٹی بھی دیگرسیاسی
جماعتوں کی طرح محض ایک سیاسی پارٹی بن کے رہ گئی ہے کوئی انقلابی تحریک
نہیں۔اُس کے انقلابی نعروں کا کھوکھلا پن اب بھدا محسوس ہونے لگا ہے اور
ساتھ ہی یہ یقین بھی کہ ان سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں قوم کا بھلا ہونے والا
ہے نہ ووٹ سے کسی تبدیلی کا امکان شنید ہے کہ نگران سیٹ اپ کے لئے پیپلز
پارٹی اور نواز لیگ میں خفیہ عہد و پیمان ہو چُکے ہیں ۔لیکن ابھی تک وزارتِ
عظمیٰ کا سہرا سر باندھنے والے کسی دُلہا یا دُلہن کا نام سامنے نہیں آیا ۔
نگران سیٹ اپ کی اس خفیہ ڈیل پر تحریکِ انصاف کا کہتی ہے کہ چور چوکیدار
آپس میں مِل گئے ہیں ۔اب پتہ نہیں کہ تحریک کے نزدیک چور کون ہے اور
چوکیدار کون کیونکہ اس کے بارے میں تحریک کے بزرجمہروں نے ابھی تک کوئی
اعلان نہیں فرمایا ۔البتہ میاں شہباز شریف صاحب اکثر 40 چوروں کا تذکرہ
کرتے رہتے ہیںجس سے عوام کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چور چوکیدار کے کھیل
میں چور کون ہے اور چوکیدار کون لیکن ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ حمام میں سبھی
ننگے ہیں ۔نام خواہ کچھ بھی رکھ دو ، چور یا چوکیدار ، کام دونوں کا ایک ہی
ہے اور یہ بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کھیل اُس وقت تک جاری رہے گا
جب تک قوم ان چوروں چوکیداروں کے احتساب کے لئے باہر نہیں نکلتی ۔ پاکستان
میں کھیل جمہوریت کا ہو یا آمریت کا کھلاڑی ہمیشہ ایک ہی خاندان سے منتخب
کیئے جاتے ہیں جسے ”خاندانِ حاکماں“ کہا جا سکتا ہے ۔ یہی لوگ چہرے اور نام
بدل بدل کر حکومت کرتے رہتے ہیں۔ایسے لوگوں سے چھُٹکارا صرف انقلاب سے ممکن
ہے انتخاب سے نہیں۔ |