دنیا کے نقشے پر بننے والی نظریا
تی اور مذ ہبی ریا ست اسلامی جمہو ریہ پا کستان مذہبی اقدا ر ، جدا گا نہ
تصور الو ہیت اور تہذیب وتمدن کے اعتبا ر سے ایک منفر د اور بے مثال حثیت
کی حا مل ہے لیکن سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ رہا ہے کہ اسے ما سوائے قدر ت
خدا وندی کے آج تک کسی نے بھی بہتری اور مثبت انداز میں نہیں دیکھا ہے جو
بھی اس ملک میں اقتدار حاصل کر کے آیا شروع میں تعمیر و ترقی اور انقلا ب
کے ترانے گا نے کے بعد پر و ٹو کول اور اقتدار کی شا ہا نہ زندگی کا گر
ویدہ ہو کر کیف و سرور کی اس پر ہنگم دنیا میں گم ہو کر رہ گیا جہا ں نہ تو
ایمان بچا یا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کو ئی قا نون اور ضا بطہ رہ جا تا
ہے اس مقدس سرزمین و طن کو ہر ایک نے اپنی اپنی ہو س اور بساط کے مطا بق
جتنا چا ہا لو ٹا ہے لیکن یہ کر شمہ خدا وندی ہے کہ یہ ملک اب تک بھی قا ئم
و دائم ہے کیو نکہ اس پر اطلا ق اس بات کا بھی ہو تا ہے کہ رب کی دھر تی رب
کا نظام بقو ل حضرت وا صف علی و اصف ؒ پا کستان نور ہے اور نور کو زوال
نہیں ۔ پا کستان کے اندر مو جود دو فیصد طبقہ اسے نچوڑ کر کھا رہا ہے اور
نا انصافی و ہوس کی ایسی بندر با نٹ جا ری ہے کہ انہی 2 فیصد گھر ا نو ں
میں اقتدار اور پیسے کی تقسیم گذ شتہ کئی دہا ئیو ں سے جا ری و ساری ہے اور
آج تک اس منفی اور بے سبب جمو د کو تو ڑنے والا کو ئی محسن وطن قا ئد اعظم
محمد علی جنا ح ؒ اور ڈا کٹر علا مہ محمد اقبال جیسا مر د حر پیدا ہی نہیں
ہوا ہے بنیا دی طور پر پا کستان کی بڑھتی ہو ئی آبا دی پر کنٹر ول از حد
ضروری ہو گیا ہے گر تی ہو ئی معشیت اور غربت و افلا س کی بڑھتی ہو ئی شر ح
کو روکنے کے لیے ایک جا مع منصو بہ بندی اور آبا دی کے مسائل پر تو جہ کی
ضرورت ہے ۔ ہما رے ملک کے اندر تقریبا 60 فیصد عوام سفید اند پڑھ ہیں جنہیں
اپنے بر ے بھلے اور ضروریا ت زندگی کی کوئی خیر خبر نہیں ہے انہی افراد کا
سہا را لیکر و ڈیرہ شاہی اور جا گیر دارانہ نظام سے وا بستہ افراد پیسے اور
اثر و رسو خ کے بلبو تے پر آگے آجا تے ہیں اور جتنا پیسہ وہ لوگ اپنے
اقتدار تک پہنچنے اور کر سی کے حصول کے لیے خر چ کرتے ہیں تو پھر اسی ان
پڑھ اورجا ہل عوام سے نکا لتے ہیں ورلڈ بینک کی حا لیہ رپو رٹ کے مطا بق
ہما رے ملک کے اندر 900 کھر ب کیو بک فٹ گیس کے ذخا ئر اور خام تیل وسیع
تعداد میں مو جود ہے ۔ 50 فیصد مسا ئل میں کمی وا قع ہو سکتی ہے اگر صرف پا
کستا ن میں ایگری کلچر پر تو جہ دی جا ئے ۔ ایگری کلچر کے شعبہ کو پچھلے
کئی سالو ں سے لا پروا ہی کے تحت چھو ڑ دیا گیا ہے حا لا نکہ سعودی عرب ،
یو اے ای اور دوسرے عرب ممالک میں اس پر بہت زیا دہ تو جہ دیکر زرائع
مبادلہ کما یا جا رہا ہے ۔ اسی طر ح سے گند م اور کپا س کی پیدا وار میں خا
طر خوا ہ اضا فہ سے اچھا خا صا نفع حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس طرف بھی
کوئی تو جہ دینے والا صا حب علم اور صا حب نظر مو جود ہی نہیں ہے وا ٹر
مینجمنٹ کی کمی اورسولر انر جی سے خا طرخواہ استفا دہ نہ حاصل کر نے کی وجہ
سے ملک کے اندر بجلی کا بحران اورپا نی کی کمی وا قع ہو رہی ہے اور اسے با
لکل نا رمل لیا جا رہا ہے جس کے نتا ئج مستقبل قریب میں خا صے منفی مر تب
ہو سکتے ہیں لا علمی اور مس مینجمنٹ کی وجہ سے ہما رے ملک کے اہم وسائل اور
پا نی کا ضیا ع ہو رہا ہے ان معا ملا ت پر ہی تو جہ دےدی جا ئے اورمثبت
ایکٹوٹی کی جا ئے تو بہتری کے اثا ر اب بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔ کو ئی
بھی حکمران اور سیاسی نما ئندہ ملکی مفا د اور فا ئدے با رے نہیں سوچ رہا
ہے ہر ایک کو بس اپنی پڑی ہو ئی ہے ہر ایک اقتدار کی ہوس میں ڈوبا ہوا اپنی
ما نی ما نیا ں کر تا ہوا دکھا ئی دیتا ہے کسی کے پاس اگر ایک گا ڑی ہے تو
اسے دو کی ہوس پڑی ہے کسی کے پاس ایک محکمہ ہے تو وہ مزید دوسروں سے بھی
منا فع حاصل کر نا چا ہتا ہے ۔ اس ملک کا حکمران طبقہ اپنے ملک کے ساتھ
مخلص نہیں ہے اس ملک کے حکمران اپنی قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ان کا
ایجنڈا بیرون ممالک میں ڈیزا ئن کیا جا رہا ہے اور بیرونی قوتیں اور خفیہ
ایجنسیا ں ان کو اپنی من چا ہی منشاءاور آئیڈیا کے مطا بق چلا رہے ہیں ملک
کی بڑی بڑی سیاسی قوتیں بری طر ح سے فلا پ ہو چکی ہیں اور لو گو ں کا اعتما
د کھو چکی ہیں ۔ حکمران کرپشن ، اقربا پروری ، رشوت اور بد عنوانی میں اس
قدر آگے نکل گئے ہیں کہ ان کے واپسی کا راستہ بھی کھو چکا ہے بقول شا عر کہ
چھٹتی نہیں یہ ظالم منہ سے لگی ہو ئی کر پشن اور حرام خو ری ان کے منہ پر
اس طرح لگ گئی ہے کہ شراب کے نشے کی طرح اس سے جدا رہنا ان کے بس کی با ت
ہی نہیں رہی ہے ۔ آنے والا دور نسل نو کا ہے اور ملک پر ۸۶ فیصد نو جوانو ں
کی حکو مت قا ئم ہو گی جو اپنی محنت ، لگن اور جو اں مردی سے اس ملک کی
تقدیر از سر نو لکھیں گے اور تبھی تبدیلی کی فضاءقا ئم ہو گی اور اس ملک
میں انقلا ب رونما ہو گا اور یہ ایسا خو نی انقلا ب ہو گا جو شرق و غر ب کو
بدل کے رکھ دے گا ۔ اور حقیقی معنو ں میں جو فکر و سوچ کی کمی جو ہما ری
قوم میں پیدا ہو گئی ہے وہ قیا دت کی تبد یلی اورنظا م کی تبدیلی سے ہی
درست ہو گی ۔ اور جو خلا ءان مو جودہ حکمرانوں نے اپنی نا اہلی اور کم عقلی
کی وجہ سے پیدا کر دیا ہے اسے تبدیل ہی نو جو ان طبقہ کر ے گا ۔ پو ری دنیا
اس وقت 21 ویں صدی میں قدم رکھ چکی ہے اور ہم اس بد ترین حکمران طبقہ کی بد
ولت آج بھی 19 ویں صدی میں آبا د ہیں اور تر قی اور بہتری کا خواب آج بھی
ادھورا دکھا ئی دے رہا ہے ۔ پہلے حکمران پھر بھی اس ملک کے لیے اس کی تعمیر
و ترقی کے لیے سو چتے تھے لیکن مو جودہ خواب خرگو ش میں مبتلا دکھا ئی دیتے
ہیں بھٹو نے عزم کیا کہ گھا س کھا ئیں گے لیکن ایٹم بم بنا ئیں گے انہو ں
نے ملک کی بقا ءاور فلا ح کے لیے کام کر نے کی کو شش کی لیکن نا کام رہے
لیکن ان کا داما د تو پا کستان کی فرد لیے گھوم رہا ہے کہ کب داﺅ لگے اور
اسکا سودا کردے یہ تو اللہ خوش رکھے اس ملک کے خفیہ ادروں اور پا ک فو ج کو
جن کی حا ضر دماغی اور قومی حمیت و محبت کی بدولت یہ ظا لم حکمران اپنی
فورس کے ہمراہ اپنے مکروہ عزائم میں کا میا ب نہیں ہو سکے ہیں ۔ بھٹو میں
اگر ایمان کی کمی نہ ہو تی تو وہ امیر المو منین ہو تے ۔ بیر ونی دنیا میں
بسنے والے لو گ سمجھتے ہیں کہ پا کستان ایک دھول مٹی اور دھو پ گرمی کا
محور و منبع ہے یہا ں پر گذ شتہ کئی سالو ں سے رتی بھر کی بھی تر قی اور
ڈویلپمنٹ دکھا ئی نہیں دیتی ہے ۔ اور صرف حکمرانو ں کی بد نیتی اور ناا ہلی
کی بد ولت یہا ں تبا ہی ہی تبا ہی ، عدم استحکا م اور افرا تفری دکھا ئی
دیتی ہے ۔ ہما رے ملک کے حکمران اپنے ملک و قوم کی بجا ئے بیر ونی قوتو ں
اور مغربی آقا ﺅ ں کے ساتھ زیا دہ مخلص اور وفا دار دکھا ئی دیتے ہیں اس
ملک کے خفیہ ادارے اور دیا تندار سیکیو رٹی فورسز اس کے حق میں بہتر سوچ
لیے اس کے امن اور بچا ﺅ کے لیے دن رات کو شا ں ہیں لیکن ان کو بھی بدنام
کر نے کی دشمن کی سا زشو ں کا حصہ ہما رے یہ بد کردار اور بد دیا نت حکمران
منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور بیرونی مخالف قوتیں ہر شعبہ سے چا ہے وہ صحا
فت ہو ، پو لیس ہو ، عدلیہ ہو ، سیا ست دان ہو ں یا حکمران سب کی قیمت لگا
کر انہیں اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کر نے میں مشغول ہیں اور ہما رے
سوئے ہو ئے مردہ ضمیر حکمرانو ں کو اس کی ذرا بھی خبر نہیں ہے ۔ جب تک اس
ملک میں با کردار ، با غیرت ، دیا نتدار ، مخلص اور با اصوال قیا دت برا
جمان نہیں ہو جا تی تو یہا ں پر تبدیلی کا عمل نا ممکن ہے ۔
اثر کر ے نہ کر ے ، سن تو لے میری فریا د
نہیں ہے داد کا طا لب یہ بند ہ آزاد |