چند روز قبل صدرِ مملکت کے ذاتی
معاون سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے ملک کے سب سے اہم انٹیلی جنس ادارے
آئی ایس آئی کے فرائض منصبی، اختیارات اور قواعد و ضوابط میں ترمیم کا بل
سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروایا گیا۔ اس بل کی تصدیق ایوانِ بالا کے حکام نے
بھی کی تھی کہ آئی ایس آئی کے اختیارات اور فرائض میں ترمیم تجویز کرنے
والا مسودہ قانون انہیں موصول ہو گیا ہے جسے باری آنے پر ایوان کے سامنے
پیش کر دیا جائے گا مگر اب موصولہ اطلاعات کے مطابق اتحادیوں کی مخالفت پر
یہ بل بحث کرائے بغیر ہی واپس لے لیا گیا ہے۔ اس مبینہ مسودے کے مطابق کوئی
واضح قانون نہ ہونے کے سبب یہ ادارہ کسی کو جوابدہ نہیں لہٰذا پارلیمان کی
ایک خصوصی کمیٹی کو آئی ایس آئی کے اخراجات، انتظامی اُمور اور پالیسی سازی
کے معاملات کی جانچ پڑتال کا اختیار دینے کی تجویز تھی جبکہ مجرمانہ
سرگرمیوں میں ملوث اس کے اہلکاروں کو پچیس سال قید تک سزا دینے کا قانون
بنانے، اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تفتیش کے لیئے محتسب کا
ادارہ بنانے اور اس خفیہ ایجنسی کا سربراہ کسی بھی گریڈ بائیس کے حاضر سروس
یا ریٹائرڈ سول سرونٹ یا اس کے متبادل فوجی افسر کو مقرر کرنا اور اس کا
اختیار صدر کو ہونا شامل تھا۔
آئی ایس آئی کو مکمل سیاسی اور سول کنٹرول میں لانا اور اس ادارے پر سے فوج
کا عمل دخل ختم کرنا امریکا کی پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ نہ
صرف آئی ایس آئی بلکہ پاک فوج کا کنٹرول بھی سویلین حکومت کو دیا جائے اور
اسی مقصد کے لیئے امدادی پیکیج کے نام پر آئی ایس آئی کو سول انتظامیہ کے
ماتحت کرنے کی شرائط عائد کی جاتی رہیں بلکہ ماضی میں حکومت کی جانب سے اس
ادارے کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا فیصلہ بھی اُس امریکی خواہش کا حصہ
تھا جس کا اظہار خود امریکی انتظامیہ بارہا کرتی چلی آ رہی ہے۔ آئی ایس آئی
کو امریکی فریم ورک میں ڈھالنے کی کوشش کے طور پر ماضی میں ایک نوٹیفکیشن
کے ذریعے پہلے اسے وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی پھر چند ہی
گھنٹوں بعد ایک اور نوٹیفکیشن آ گیا جس میں وضاحت کی گئی کہ پہلا نوٹیفکیشن
غلط فہمی میں جاری ہو گیا تھا لہٰذا آئی ایس آئی بدستور وزارتِ دفاع کا حصہ
رہے گی اور وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے خارجی
دباﺅ کے زیر اثر رہ کر جب آئی ایس آئی پر سویلین کنٹرول حاصل کرنا چاہا تو
سیاسی، عسکری، سماجی اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد ہی یہ
فیصلہ واپس لینا پڑا۔
پاکستان کے سراغ رساں اداروں میں انتہائی مضبوط ادارہ انٹر سروسز انٹیلی
جنس ہے جو کہ عرفِ عام میں آئی ایس آئی کہلاتا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل اس
ادارے کا کام دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں، ملک کو درپیش خطرات کو قبل از
وقت بے نقاب کرکے ملک کا بالواسطہ طور پر تحفظ کرنا ہے جبکہ افواجِ پاکستان
کے دیگر ذیلی خفیہ اداروں میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، نیول انٹیلی جنس
(این آئی) اور ایئر انٹیلی جنس (اے آئی) شامل ہیں۔ ایم آئی، این آئی اور اے
آئی تینوں صرف اپنی اپنی سروس کی حد تک خفیہ معلومات حاصل کرتی ہیں جبکہ
آئی ایس آئی کا دائرہ کار وسیع ہے۔ یہ ادارہ چونکہ دشمن کے مذموم مقاصد کی
راہ میں سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کر رہا ہے اسی وجہ سے دشمنانِ
پاکستان کو بھی کھٹک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی جیسے ضامن ادارے کے
خاتمے یا اس کی سرگرمیوں کو مفلوج کرانے کے لیئے یہود و ہنود امریکا کی مدد
سے سرگرم عمل ہیں۔ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ آئی ایس آئی اور افواج پاکستانِ
کو دیوار کے ساتھ لگا کر ہی وہ پاکستان کے جوہری اثاثوں تک رسائی حاصل کر
سکتا ہے۔ اس لیئے ان دونوں اداروں کیخلاف نہ صرف زہر اُگلا جا رہا ہے بلکہ
سازشوں کے جال بھی بنے جا رہے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کبھی حکومت کہتی ہے فوج اور آئی ایس آئی پر اس
کا مکمل کنٹرول ہے اور یہ دونوں ادارے حکومتی مرضی سے ہی کوئی کام کرتے ہیں
جبکہ کبھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی حکومتی کنٹرول سے
باہر ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا حکومت صرف یہ کہہ کر ہی بری الذمہ
ہو سکتی ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی پر ہمارا کنٹرول نہیں۔ آئی ایس آئی سے
متعلق قانون سازی کا بل واپس لینا یقینا ایک خوش آئند اقدام ہے مگر ایک
ایسے حالات میں جب پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں یہ مسودہ قانون
سینیٹ میں پیش کرنا اور پھر اس پر بحث کرانے کا ارادہ رکھنا کئی شکوک و
شبہات کو جنم دیتا ہے۔یہ بل اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ اس کی
منظوری کی صورت میں آئی ایس آئی شاید دنیا کا وہ واحد حساس ادارہ بن جاتا
جو بیک وقت وزیراعظم، صدر، پارلیمانی کمیٹی اور محتسب کو جوابدہ ہوتا۔
سیانے کہتے ہیں کہ امریکا مسلمانوں کے جس فعل کی مخالفت کرے تو اُسے عین
مسلمانوں اور اسلام کے حق میں سمجھیں اور جس کے حق میں بیان دے سمجھ لیں کہ
وہ مسلمانوں اور اسلام کے حق میں نہیں ہے۔ امریکا جس طرح فوج اور آئی ایس
آئی کیخلاف پروپیگنڈہ مہم چلا رہا ہے اس کی روشنی میں فوج اور آئی ایس آئی
کا کردار عین مسلمانوں کے حق میں محسوس ہوتا ہے۔
آئی ایس آئی کی مثال ایک ”راز“ کی سی ہے بلکہ کسی بھی ملک کے انٹیلی جنس
ادارے اپنی حکومتوں کے لیئے راز کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ راز اُس وقت تک راز
رہتا ہے جب تک یہ پردے میں قید رہے اور جس دن اِس پر سے پردہ اُٹھ گیا پھر
وہ راز نہیں رہتا۔ آئی ایس آئی بھی ایک حکومتی راز ہے جسے سویلین کنٹرول
میں لانے کا مقصد اس راز پر سے پردہ اُٹھانا ہے اور جس دن ایسا ہو گیا پھر
نہ یہ ادارہ رہے گا اور نہ ہی عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والا ملک
پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہوگا۔ آئی ایس آئی اِس وقت دنیا کی کئی مایہ
ناز خفیہ ایجنسیوں کے خلاف تنہا جہاد کر رہی ہے اور جہاد میں راز کی بڑی
اہمیت ہے۔ جب کسی خفیہ ایجنسی سے ٹریننگ یافتہ ایجنٹ راز رکھنے کا پابند
ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خفیہ ادارے کا ہی راز فاش کر دیا جائے۔
آئی ایس آئی وہ تنظیم ہے جس نے کم ترین وسائل کے باوجود دنیا میں معرکے
سرانجام دیئے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آئی ایس آئی کے کئی کارنامے
ایسے ہیں جو دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں کر سکی۔ دشمن جانتا ہے
کہ جب تک فوج کے شانہ بشانہ آئی ایس آئی موجود ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے
کے اُن کے ارادے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد
کے حصول میں ناکامی پر اسے سویلین کنٹرول میں لانے کا واویلاکر رہا ہے۔ |