14 اگست 1947کو پاکستان کا قیام
عوامی قوت کا ایسا عدیم النظیر اظہار تھا جس نے پوری دنیا کو ششدر کر کے
رکھ دیا تھا۔ ووٹ کی قوت سے دنیا کی سب سے بڑی اسلا می ریاست کاقیام واقعی
حیران کن امر تھا اور لوگوں کااس پر ششدر رہ جانا سمجھ میں آتا ہے۔ستم
ظریفی کی انتہا تو یہی ہے کہ عوامی رائے سے ظہور پذ یر ہو نے والی ریاست
اپنی اسی پہچان کو برقرار نہ رکھ سکی۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے
بعد سیاست پر جا گیر داروں اور سرما یہ داروں نے قبضہ کر لیا اور عوامی
رائے کا احترام دھیر ے دھیرے دم توڑتا چلا گیا۔اب سارے فیصلے عوامی عدالتوں
کی بجائے ڈرائنگ روموں میں ہونے لگے جن سے عوام کا دور دور تک کوئی تعلق
اور واسطہ نہیں تھا ۔ وہ بے بسی کی تصویر بنے اس سارے کھیل کو د یکھ رہے
تھے اور اندر ہی اندر کڑھ رہے تھے کیونکہ اشرافیہ کوعوام کی رائے اور فلا ح
و بہبود سے بالکل کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ 30 نومر 1947پاکستانی سیاست میں
ایک ایسے دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائےگا جب ذولفقار علی بھٹو نے
پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھ کر عوامی سیاست کی اچھوتی داغ بیل ڈالی۔
عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں اس پارٹی کے نعرے کی بنیاد بنا اور عوام کی اکثریت
نے ذولفقار علی بھٹو کی اس سحر آویز آواز پر پر لبیک کہہ کر اس نعرے کی دل
و جان سے پذیرائی کی۔پاکستان پیپلز پارٹی معاشرے میں اس طبقے کی نمائندہ
جماعت بن کر ابھری جسے معاشرے میں نظر انداز کیا گیا تھا اور جس کا ملکی
معاملات میں کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں تھا۔ ذولفقار علی بھٹو کے مساوات،
تکریمِ انسانیت اور برابری کے نعرے نے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا اور وہ
جوق در جوق پی پی پی میں شامل ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت
پاکستان کی سب سے مقبول جماعت بن گئی۔ دسمبر 1970 کے انتخابات میں پی پی پی
مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور ایسے ایسے لو گ اقتدار
کے ایوانوں میں پہنچے جنھیں کل تک کوئی اپنے برابر بٹھا نے کےلئے بھی تیار
نہیں ہو تا تھا۔ ذو لفقار علی بھٹو کا سحر سر چڑ ھ کر بول رہا تھا اور بڑے
بڑے جغادری سیاستدان ان کے سامنے بونے نظر آرہے تھے ۔پی پی پی کی جیت نے
خاک نشینوں کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اقتدار کے آسمان پر پہنچادیا تھا۔
عوامی حاکمیت کا یہی تصور تھا جو پی پی پی اور ذولفقار علی بٹھو کی پہچان
بنا۔پی پی پی کا ساتھ دینے والے آشفتہ سر لوگ، جن کا ظاہرو باطن ایک جیسا
تھابڑے آزاد منش اورسید ھے سادھے لوگ تھے جو محبتوں کے نقیب تھے اور مکرو
فریب کے فن سے بالکل نا آشنا تھے۔ وہ اپنی ترقی پسند سوچ ،امن پسندی، مذہبی
شدت پسندی کے خلاف شدید نفرت اور تکریمِ انسانیت کے علمبردار ہو نے کی جہت
سے بائیں بازو کا بازﺅے شمشیر زن بنے اور مذہبی جنونیوں اور شدت پسندوں کے
عزائم کے سامنے مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ۔ان میں ریا کاری اور دوغلا
پن نہیں تھاوہ سونے کی طرح کھرے تھے ان کی محبتیں بھی سچی تھیں اور پھر جن
سے محبت کرتے تھے اسے جان دے کر بھی مناتے تھے اور محبت کا یہی اٹوٹ رشتہ
ذولفقار علی بھٹو سے ان کی قربت کا سبب بناتھا ۔ وہ غریب ضرور تھے لیکن با
غیرت، حریت پرست اور جرات مند تھے اور اپنی محبت کی حقانیت کو نبھا نا
جانتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو سے انھوں نے جس طرح اپنی وفاﺅں کا ثبوت دیا
سیاسی دنیا میں اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ مجبو روں، مہقوروں ،محروموںاور
پسے ہوئے عوام کو معاشرے میں عزتِ نفس کی جو پہچان اور مقام ذولفقار علی
بھٹو کی نے عطا کیا تھا وہ 45 سال گزرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح قائم و
دائم ہے اور پی پی پی آج بھی عوامی مقبولیت کی مسند پر بیٹھی ہو ئی ہے۔ اگر
چہ اس جماعت کے خلاف بڑی گہری سازشیں کی گئیں لیکن اس کی مقبولیت کو کوئی
طاقت بھی ختم نہ کر سکی۔اسے ختم کرنے والے سارے آمر وقت کی دھول میں خود
کہیں گم ہو گئے جبکہ یہ جماعت آج بھی آسمانِ سیاست پر پوری آب و تاب کے
ساتھ چمک رہی ہے۔ ۔۔
ذولفقار علی بھٹو عوامی پذ یرائی کی علامت بنے ہو ئے تھے اور عوامی مقبولیت
کی انتہاﺅں کو چھو رہے تھے ۔ کسی جماعت اور لیڈر میں اتنا دم خم نہیں تھا
کہ وہ انکی اس مقبولیت کو چیلنج کر سکتا لہذا پوری اپوزیشن نے یکجا ہو کر
ذولفقار علی بھٹو کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مارچ 1977 کے انتخابات کا
اعلان ہو نا تھا کہ ساری اپوزیشن جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فار م
پر یکجا ہو گئیں تا کہ ذولفقار علی بھٹو کو ان نتخابات میں شکست دے کر
اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔اگر وہ علیحدہ علیحدہ ا نتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے
تو پھر شائدسب کی ضمانتیں ضبط ہو جاتیں لہذا نھوں نے باہم مل کر شاہینِ
سیاست کو زیرِ دام لانے کا منصوبہ بنایا ۔ بڑے گھمسان کا رن تھا،بڑے جذباتی
انتخابات تھے اور دونوں طرف سے ان انتخابات کو جیتنے کےلئے ایڑی چوٹی کا
زور لگا یا گیا تھا۔اس زمانے میں سیاست میں نظریات ابھی زندہ تھے اور قوم
دائیں اور بائیں بازﺅں میں بٹی ہوئی تھی۔ مذہب پسند قوتیں دائیں بازو کی
نمائندہ تھیں جبکہ سوشلسٹ اور ترقی پسند قوتیں بائیں بازو کی نمائندگی کر
رہی تھیں۔ یہ آخری انتخابات تھے جو دائیں اور بائیں بازو کی حلقہ بندیوں
میں لڑے گئے تھے کیونکہ اسکے بعد یہ تمیز ختم ہو گئی تھی کیونکہ سوشلزم روس
میں زوال پذیر ہو گیا تھا اور پھر پرائیو ٹا ئزیشن کا زمانہ آگیا تھا جسکے
اصول و ضواطط سوشلزم سے کہیں بھی تال میل نہیں کھاتے تھے ۔میں نے اپنی
زندگی میں اس سے زیادہ مشکل اور خونی انتخابات نہیں دیکھے۔ سالوں کی
دوستیاں، تعلق اور رشتے اس انتخاب نے نگل لئے تھے۔ اپنی اپنی سوچ اور نظریے
پر لوگ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے تھے اور اپنی فتح کے خواب دیکھ رہے تھے ۔شکست
کا تصور ان کے اذہان سے بہت دور تھا اوردو ونوں گروہ اپنی اپنی فتح کے بارے
میں پر یقین تھے ۔ پی این اے بھان متی کا ایک کنبہ تھا جو متحدہ اپوزیشن کی
شکل میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے نکلا تھا۔۔
پی این اے میں شامل بہت سی جماعتیں ایک دوسرے کے وجود کی مخالف تھیں لیکن
ذولفقار علی بھٹو کی مخالفت پر وقتی طور پر اکٹھی ہو گئی تھیں اگر میں یہ
کہوں کہ ان کے ذاتی مفادات کا تقاضہ تھا کہ وہ باہم شیر و شکر ہو جائیں تو
زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ علیحدہ علیحدہ ان کےلئے اپنا وجود برقرار رکھنا
نا ممکن تھا ۔ذولفقار علی بھٹو نے ان انتخابات میں اپنے فنِ خطابت کے سارے
جوہر دکھائے اور پاکستان قومی اتحاد کے داخلی تضاد د کو ابھار کر عوام کو
اپنی حمائت پر قائل کیا ۔ میں نے خود ذولفقار علی بھٹو کے کئی جلسے سنے ہیں
لہذا میں ان کے فنِ خطابت کی گواہی دے سکتا ہوں ۔ انتخابات ہو ئے اور پی پی
پی دو تہائی اکثریت سے یہ انتخابات جیت گئی۔پی این اے اپنی اس شکست کو
برداشت نہ کر سکا اور دھاندلی کے الزامات لگا کر ایک تحریک شروع کر دی جس
میں اسے امریکہ اور فوج کی در پردہ حمائت حاصل تھی۔۵ جولائی 1977 کر جنرل
ضیا الحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور قومی ا تحاد کی ساری
جماعتیں جنرل ضیا الحق کے ساتھ اقتدار میں شامل ہو گئیں اور پی پی پی کے
جیالوں پر عرصہِ حیات تنگ کر دیا ۔ جیلیں کوڑے اور پھانسیاں جیالوں کا مقدر
بنیں لیکن ذولفقار علی بھتو کی خاطر وہ اس آزمائش سے بھی مردانہ روار گزر
گئے۔ جنرل ضیا الحق نے جب یہ دیکھا کہ ذولفقار علی بھٹو کی معزولی بھی اس
کی شہرت اور مقبولیت میں کمی نہیں لا سکی تو اس نے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے
میں ۴ اپریل 1979 کو انھیں پھانسی دے کر اپنی راہ سے ہٹا دیا لیکن وہ ذو
لفقار علی بھٹو کی محبت کو پھر بھی عوام کے دلوں سے نکالنے میں کامیاب نہ
ہو سکا۔ ظلم و جبر کی یہ خونچکاں داستان جاری تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
افقِ سیات پر نمو دار ہوئیں اور پھر تو جیالوں کی زندگی میں جذبوں کی نئی
لہر دوڑ گئی اور وہ سارے متحد ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے گرد جمع ہوکر
آمریت کو شکست دینے میں جٹ گئے ۔ آمریت کو بچانے کی خاطر پی این اے کا
تجربہ 1988 کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر آزمایا گیا تھا جب فوجی جرنیل
حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دے کر پی پی پی کا راستہ روکنے کی
کوشش کی لیکن کسی کے روکے کب رکا ہے سویرا۔ہار دائیں بازو کا مقدر تھی اور
مقدر بنی۔ ظلم کا مقدر ہی شکست ہوا کرتا ہے اور مظلوم کی فتح یقینی ہوا
کرتی ہے۔جیالوں کی کوششیں بار آور ثا بت ہوئیں اور 1988 کے انتخابات میں پی
پی پی آمریت کی باقیات کو شکستِ فاش دے کر تاریخی کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔پی
پی پی نے متحدہ اپوزیشن کو شکت دے کرثابت کیا کہ پی پی پی عوام کی نمائندہ
جماعت ہے اور عوام اس سے محبت کرتے ہیں۔ آمریت کی پروردہ
آئی جے آئی ہار گئی اور محبت جیت گئی لیکن ایک سازش کے تحت اقتدار کی
منتقلی میں اوچھے ہتھکنڈے آزمائے گئے ۔پنجاب کو پی پی پی کے حوالے نہ کیا
گیابلکہ ایک سازش کے تحت میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلی پر
فائز کیا گیا تا کہ پی پی پی کے خلاف پنجاب کے مورچے سے حملہ کیا جا سکے
اور ایسا ہی ہوا۔میاں محمد نواز شریف نے مرکز کے ساتھ محاز آرائی کا نیا
سلسلہ شروع کر دیا جس کی وجہ سے جمہوری نظام تصادم کا شکار ہو کر اپنے
ثمرات سے عوام کو بہرہ ور نہ کر سکا۔ پی پی پی کے خلاف فوج، عدلیہ اور
متحدہ اپوزیشن نے باہم مل کر جس طرح کی سازشیں کیں اور اس کے اقتدار میں جس
طرح کے روڑے اٹکائے وہ روش آج بھی جاری و ساری ہے ۔ اس کے اقتدار کو آج بھی
تسلیم نہیں کیا جا رہا ۔ اسے عدالتوں کے ذریعے جس شرمناک طریقے سے رسوا کیا
جا رہا ہے وہ یہ ثابت کرنے کےلئے کافی ہے کہ ا سٹیبلشمنٹ پی پی کا اقتدار
برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ پی پی پی عوامی قوت کی علامت جسے اس نے
متحدہ اپوزیشن کو این اے ۱۵۱ ملتان میں شکست دے کر ثابت کیا ہے لہذا اس کا
حقِ حکمرانی تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔۔ |