آج کل آئے روز ایسے مختلف سروے
سامنے آتے رہتے ہیں جن میں عوام سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ” آصف
زرداری،نواز شریف،پرویز الہی،پرویز مشرف،عمران خان،مولانا فضل
الرحمان،وغیرہ میں سے پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کون ہو نا چاہئے ؟کبھی
زرداری کو سب پہ بھاری دکھایا جاتا ہے،کبھی نواز شریف کا گراف اونچا ہوتا
ہے،کبھی عمران خان کی مقبولیت کے گراف میں اضافہ ہی نہیں اس کی اطلاع
امریکہ تک پہنچائی جاتی ہے۔ یعنی عوام کو ایک بار پھر ”زیادہ و کم برائی“
کی محدود چوائس میں پابند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بقول شاعر
کتنے سادہ ہیں میر ہوئے بیمار جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یہ اہم نہیں کہ کون پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم ہو بلکہ اہم بات یہ ہے کہ
پاکستان کا وزیر اعظم کیسا ہونا چاہئے۔میری رائے میں وزیر اعظم کوئی بھی
ایسا عام شخص ہونا چاہئے جو شخصیت پرست نہ ہو،جو مقاصد پاکستان کی روشنی
میں اصولی سیاست پر یقین رکھتا ہو،جو اپنے بیٹوں، بیٹیوں،بہنوں،دامادوں کو
سرکاری عمارات اور امور کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے،جو جس عام سے گھر میں
رہتا ہے وزیراعظم بن کر بھی اسی گھر میں رہے،جو اپنے یوٹیلٹی بلز خود جمع
کرائے،جو اپنی تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کرے،جو اداروں،بیوروکریٹس کی
بادشاہتیں ختم کر کے سب کے لئے ایک جیسے ترقی کا ماحول اور ایک جیسی
سہولیات فراہم کرے،یہ نہ ہو کہ بدحال ملک کے افسران تو ترقیاں کرتے ہوئے
مراعات میں اضافے پاتے جائیں لیکن ان سب کا بوجھ غربت کے مارے عوام کو
ناجائز طور پر اٹھانا پڑے۔چاہے کوئی سرکاری،فوجی افسر ہو یا عہدیدار یا
کوئی عام شہری ،سب کے لئے ایک جیسی طبی،تعلیمی اور معاشی سہولیات ہوں۔تاہم
ایسے عوامی وزیر اعظم کو قتل کرنے کے غالب امکانات موجود ہوں گے۔لیکن اگر
پاکستان کو مصائب اور درپیش خطرات سے نکالنا ہے تو ہمیں ایسے ہی ” عام
افراد “ کو سامنے لانا ہو گا جو خاندانی،برداری اور علاقائی ازم یا فرقہ
واریت کی بنیاد پر حق نمائندگی کے دعویدار نہ ہوں۔ایسا عام سا وزیر اعظم
عوامی قوت کے ساتھ اتنا طاقتور ہو گا کہ جس کا تصور بھی مشکل ہے۔لیکن سوال
یہ ہے کہ ہمارا تیز ی سے بگڑتاجاتا معاشرہ بقاء اور ترقی کا یہ سفر کرنے کو
تیار ہے؟
کسی شخص نے ایک بدو سے پوچھا کہ تم کھاتے کیا ہو؟ بدو نے جواب دیا اونٹ۔اس
شخص نے پوچھا پیتے کیا ہو؟ بدو نے جواب دیا اونٹ۔پھر پوچھا رہتے کہاں ہو
بدو نے بتایا اونٹ۔اس شخص نے کہا کہ ہر بات کا جواب اونٹ،یہ کیا بات ہوئی؟
اس پر بدو نے جواب دیااونٹ کا گوشت کھاتا ہوں،اونٹ کا دودھ پیتا ہوں اور
اونٹ کی کھال کے بنے خیمے میں رہتا ہوں۔ اسی طرح پاکستان کے کسی بھی مسئلے
کو دیکھیں تو ہمیں اس کی بنیاد ”بد کرداری“ ہی نظر آتی ہے۔صاحب اقتدار و
اختیار ہی کیا اس کے رشتہ داروں نے بھی مال بنانے کے کاروبار سجائے ہوتے
ہیں،اور یہ سب دھڑلے سے ہوتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان کو قدرت نے اتنے بے بہا وسائل سے نوازا ہے کہ اگر پاکستان
میں کوئی بھی ایسا نظام رائج ہو جس میں شخصیات کو نہیں بلکہ اصولوں کو
اہمیت و فوقیت حاصل ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں پاکستان ہر لحاظ سے دنیا کی
ایک اہم طاقت بن سکتا ہے۔کیا ظلم ہے کہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہونے والے
ملک پاکستان میں بے اصولی کو جائز قرار دیا گیا ہے اور بد کرداری ہی
کامیابی کا لازمی جز بن چکی ہے۔ پاکستان میں باشعور افراد کی تعداد میں
نمایاں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ رواں سسٹم کی
تبدیلی کے لئے خطرہ بن سکیں۔یوں اہم یہ ہے کہ کیسا وزیر اعظم ہو ۔کون وزیر
اعظم ہو ؟کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ظلم و زیادتی،دھونس
وزیادتی،بدعنوانی و اقرباءپروری پر مبنی اسی بدبودار بوسیدہ نظام کو ہی
جاری رکھنا ہے۔ |