پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کواین آر او کیس میں بلاآخر نا اہل
تسلیم کر ہی لیا‘ گیلانی کی قربانی کے بعد صدر زرداری نے گوجر خان کے راجہ
کو راج نیتی کا گرین سگنل دے دیا جس پر ان کے شہر میں جشن بھی منایا گیا‘
راجہ صاحب کو وطن عزیز سے بہت ”لگاﺅ“ ہے‘ دنیا راجہ صاحب کی ”حب الوطنی“ کی
مثالیں دیتی ہے‘ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف جن دنوں وفاقی وزیر برائے پانی
و بجلی تھے اُن دنوں وہ قوم سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے بڑے وعدے
کیا کرتے تھےاسی طرح اب جبکہ ماہ رمضان المبارک میں راجہ صاحب وزیر اعظم
پاکستان ہیں انہوں نے اپنی سابقہ روایات کو دہراتے ہوئے قوم سے ایک اور
وعدہ کیا تھاکہ سحر و افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی جس کا
نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے اور اس نتیجے کی ہمیں کوئی پروا نہیں ‘ پاکستان کی
بے حس اور مردہ ضمیر قوم کو نتیجے کی پروا کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ راج
نیتیوں میں راجہ صاحبان کے وعدے تو اسی طرح کے ہوتے ہیں‘ لوڈ شیڈنگ‘
مہنگائی‘ جرائم اور گرمی سے ستائی قوم کی بے حسی اور مردہ دلی گیلانی کے
حلقے میں ضمنی انتخابات کے دوران دیدنی تھی‘ ان سب حالات و واقعات کو
دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم
اپنی تقدیر اور حالت کبھی نہیں بدل سکتے کیونکہ ہم نے جوتے کھا کر بھی ووٹ
نا اہل اور کرپٹ باپ کے بیٹے کو ہی دینا ہے‘ ہمارا ضمیر مر چکا ہے‘ اندرون
شہر ملتان میں گیلانی خاندان جو کہ برسوں سے ملتان میں آباد ہے نہ ایسے کون
سے کام کروائے تھے جن کی وجہ سے گیلنای خاندان کے تمام افراد ہر مرتبہ
الیکشن میں فتحیاب ہوتے رہے؟
راقم الحروف کا آبائی شہر بھی ملتان ہے‘ لیکن میرا ملتان کے باسیوں سے ایک
سوال ہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ کتنے روپے کے عوض فروخت کیا؟ جو لوگ ملتان کے
رہنے والے ہیں یا ملتان سے تعلق رکھتے ہیں وہ اندرون شہر ملتان میں جا کر
دیکھیں کہ پی پی حکومت اپنی مدت مکمل کرنے کو ہے اور ان کے ”مسیحا‘ ‘ نے
بھی چار سال بحیثیت وزیر اعظم پاکستان گزارے ہیں‘ ان چار سالوں میں ان کے
”مسیحا“ نے انہیں کیا دیا؟ 14 نمبر چونگی چوک سے دولت گیٹ کی طرف جاتے ہوئے
حافض جمال روڈ کی حالت زار دیکھیں‘ 14 نمبر چونگی سے ریلوے سٹیشن جانے والی
مین شاہراہ پر آج بھی 3,3 فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے‘ چند پوش علاقوں کو چھوڑ کر
پورے ملتان کی حالت اب پہلے سے بھی بُری ہے‘ مومن آبادِ ممتاز آباد‘ نیو
ملتان‘ شریف پورہ‘ دہلی گیٹ ‘ حسین آگاہی‘لوہاری گیٹ‘ اور اسی طرح بتدریج
تمام علاقوں کی حالت زار دیکھئے ‘ اگر آپ کو کہیں کچھ ترقیاتی کام نظر آئیں
گے تو وہ علاقہ صرف گیلانی کی رہاش گاہ کے ارد گرد کا ہی ہوگا۔
جا کر دیکھئے ان علاقوں کو جن میں موجود گلیاں 50,50 سال پرانی ہیں‘ پینے
والے اس پانی کا رنگ بھی دیکھیںجو زرد ہے‘ ملتان پولیس کی غنڈہ گردی‘ ڈاکو
راج ‘ لوٹ مار‘ سرکاری اداروں میں رشوت ستانی اور کرپشن کو بھی دیکھئے جو
گیلانی خاندان کے حکومت میں آنے سے 1000 گنا بڑھ گئی اور پھر اپنے گریبان
میں جھانک کر دیکھیں کہ ووٹ دینے کا جو فیصلہ انہوں نے کیا ہے وہ درست ہے
یا غلط‘ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے علاوہ ہمارے اور بھی بہت سے فرائض
ہیں‘ ہمیں اپنی حالت زار کو خود بدلنا ہے‘ ہمیں ایسے چوروں‘ ڈاکوﺅں اور
لٹیروں سے نجات حاصل کرنی ہے جنہوں نے وزیر اعظم بنتے ہی اپنے محل کی صرف
چار دیواری پر کروڑ وںروپے خرچ کر ڈالے‘ جو 80,80 لاکھ روپے کے صرف کوٹ
پہنتے ہیں۔
کف افسوس! ہم یہ سب جانتے ہوئے بھی ان ڈاکوﺅں ‘ چوروں اور لٹیروں کے بیٹوں
کو اپنا نمائندہ منتخب کرکے انہیں قومی خزانہ لوٹنے اور اپنا خون نچوڑنے کا
موقع فراہم کرتے ہیں‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کل کے فقیر تھے وہ آج کے
وزیر ہیں اور ہم یہ بھی جانے ہیں کہ وہ کل کے فقیر آج کے وزیر کیسے بنے‘
لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہمیں نتائج کی کب پروا ہے‘ ہمیں تو بس اپنے
ان لیڈروں کو ”منتخب“ کر کے ”کتے“ کی طرح دم ہلاتے ہوئے ان کی پیچھے بھاگنا
ہے اور بھاگتے رہیں گے۔ |