حسب عادت جب جب دنیا میں
مسلمانوں پر غیر مسلموں کی جانب سے یکطرفہ ظلم و تشدد کے پہاڑ گرے ہیں کبھی
بھی اقوام متحدہ نے انصاف فراہم کرنے اور ظلم کو رکوانے کیلئے قدم نہیں
اٹھایا ،ایسے وقت میں اقوام متحدہ اندھے اور بہرے کا رول ادا کرتی نظر آتی
ہے گویا دنیا کی واحد انصاف فراہم کرنے والی تنظیم صرف اور صرف غیر مسلموں
کے حقوق کیلئے بنائی گئی ہو۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بابت
بار ہا بار توجہ دلارہی ہیں مگر اقوام متحدہ نے ابھی تک برما کے مسلمانوں
کے تحفظ کیلئے برمی حکومت پر دباﺅ نہیں ڈالا۔ حیرت و تعجب کا ملا جلا عمل
تو آرگنائزشن اسلامک کانفرنس کی بے حسی نے دیکھایا ہے۔۔۔۔ بشمول پاکستان
برمی مسلمانوں کیلئے سفارتی دباﺅ اس قدر نظر نہیں آتا جس کا عمل ہونا
چاہیئے، پاکستان کے علاوہ سعودی عرب دیگر عرب امارات اور مسلم ممالک کو فی
الفور اس سلسلے میں سخت احتجاج کا عمل دکھانا پڑیگا، گو کہ تمام عالم اسلام
برما حکومت کا مکمل بائیکاٹ کردیں اور یورپ ،امریکہ کو شامل کرکے اس قتل
عام کے مجرم کو بین الاقوامی عدالت میں پیش کرکے سزا دلوائیں ۔ حکومت
پاکستان اور افغانستان برمی مسلمانوں کیلئے امریکہ اور نیٹو سے تعاون روک
دیں اور شرائط میں پابند کردیں کہ برمی مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا
جائے بصورت تمام عالم اسلام دہشت گردی کے خلاف ہر تعاون روک دیں گے ، اگر
ایسا بیان مسلم دینا کے حکمرانوں کی جانب سے اور او ٓئی سی کی کانفرنس میں
یہی ایجنڈا بنادیا جائے تو یقینا برما میں مسلمانوں کی نسل کشی تھم سکتی ہے۔
پاکستان کی میڈیا نے اس سلسلے میں جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس سے
پاکستان کی عوام میں میڈیا کے خلاف برے تاثر پائے جاتے ہیں ۔۔فیس بک ہو یا
ٹیوٹر ان سب میں بار ہا بار میڈیا کو عوام الناس کی جانب سے پیغام دیا
جارہا ہے کہ خدا را اس ماہ مبارک کی برکتوں ، رحمتوں کو سمجھتے ہوئے برمی
مسلمانوں کے قتل عام کیلئے میڈیا اپنا کردار ادا کرے ۔ اخبارات کسی طور پر
خبر چھاپ رہے ہیں مگر الیکٹرنک میڈیا اس سلسلے میں خاموش کیوں ہے ۔۔۔؟؟؟
پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پوری دنیا میں دیکھا اور
سننا جاتا ہے اگر پاکستانی میڈیا برمی مسلمانوں کیلئے احتجاج کریں تو یقینا
جلد اس قتل و غارت گری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔۔برما میں بظاہر پرامن
حامیوں اور بدھ مت کے مندروں کے وردی پوش شاگردوں نے فسادات کا آغاز کیا
اور مسلمانوں کی جان و مال پر رحم کرنا جائز نہ سمجھا ان کے گھروں کو آگ
لگادی اور انہیں بے گھر کردیا وہ بنگلہ دیش کی سرحدوں کی طرف بھاگے لیکن
بنگلادیش نے بھی انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا اور بین الاقوامی اداروں
نے بھی اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا ہے کیونکہ خانہ و کاشانہ چھوڑنے
پر مجبور میانماری عوام مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا جو نام عالمی دہشت
گردوں نے روشن کیا ہے اس کی بنا پر بہت سوں کو اب برما کے مسلمانوں پر بھی
کسی کو بظاہر ترس نہیں آتا اور جہاں تک مسلم ممالک بالخصوص تیل کی دولت سے
مالامال ملکوں کا تعلق ہے تو ان بے بیچاروں کو تو اسرائیل اور امریکہ کے
مفاد کی خاطر مسلمانوں کے خلاف سازشوں سے فرصت ہی نہیں ملتی،واضح رہے کہ
برما کے صوبے اراکان یا راخین میں ہونے والے حالیہ فسادات کے دوران کم از
کم دوہزار افراد جاں بحق اور نوے ہزار کے قریب بے گھر ہوگئے ہیں۔ بے گھر
ہونے والوں کی اکثریت پناہ کی تلاش میں بنگلادیش اور ملائشیا فرار ہو گئی
ہے۔ برما کے مسلمانوں کو ملک میں باقاعدہ اقلیت تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان
کو لازمی شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔موجودہ صورتحال کے پیش نظر برما میں
مسلمانوں کو خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ برمی مسلمان کیمپوں میں
محصور افراد جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں یہ خوف ہے کہ انھیں قتل کردیا
جائے گا۔ برما میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے عملے کو یا تو
گرفتار کیا جارہا ہے یا پھر ملک سے باہر بھیجا جارہا ہے۔شمالی شہرسے فلاحی
اداروں کو نکالا جارہا ہے۔ اس علاقہ میں آٹھ لاکھ مسلمان آباد ہیں جنھیں
غذا کی شدید قلت ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق بارہ سال کے عمر کے بچوں کو بھی
تھانے میں بلاکر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انھیں ارکنیس شہریوں
کو دے دیا جاتا ہے، جو ان پر بدترین تشدد کے بعد انہیں قتل کردیتے ہیں۔
برما کے انیس سو بیاسی کے قانون کے تحت روہینگیا مسلمان میانمار کے شہری
نہیں۔ مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے
آرہی ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے
کہ برما میں مسلمانوں کے قتل کے حوالے سے بھارتی مسلمانوں میں تشویش پائی
جاتی ہے۔سابق برما اور موجودہ میانمار کے مسلمانوں کو بدھ مت کے پیروکاروں
کی تشدد آمیز کاروائیوں کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر اس ملک سے بھاگنا پڑ رہا
ہے۔ ۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہےکہ برما کی مغربی ریاست
راکین میں حکومت کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود مسلمان اقلیت کے
خلاف تشدد بدستور جاری ہے جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔تشدد
کے یہ واقعات ریاست کے بدھ مت کے پیروکاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان
بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں رونما ہو رہے ہیں۔انسانی حقوق
کے دفاع کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ10 جون کو ہنگامی حالات
کے نفاذ کے بعد سے کچھ علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کمی آئی ہے لیکن
تنظیم کے عہدے داروں کے مطابق روہنگیا مسلم اقلیت پر حملوں میں بدستور
اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔تشدد کی ان کارروائیوں میں مسلمانوں کو قتل، ان
کی املاک کو تباہ اور خواتین کی بے حرمتی شامل ہیں مبینہ طور پر ان حملوں
میں راکین بدھ مت کے پیروکاروں کے علاوہ برما کی سرکاری فوج کے اہلکار بھی
ملوث ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل صورت حال کے بارے میں
اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ برما کی حکومت بین الاقوامی امدادی کارکنوں
اور معائنہ کاروں کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔مسلمانوں
کے خلاف تشدد کے واقعات کے بعد انسانی حقوق کی تنظمیں ایک بار پھر مطالبہ
کر رہی ہیں کہ برما کی حکومت روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو شہریت دینے سے
انکار کے قانون کو منسوخ یا اس میں اصلاحات کرے۔برما کی حکومت کا کہنا ہے
کہ روہنگیا نسل کے مسلمان تکنیکی لحاظ سے غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور ان
کا اصل وطن بنگلہ دیش ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہناہے کہ
برما کی مغربی ریاست راکین میں چھ ہفتے قبل حکومت کی جانب سے ہنگامی حالت
کے نفاذ کے باوجود مسلمان نسلی اقلیت کے خلاف تشدد بدستور جاری ہے حکومت کا
کہناہے کہ مئی کے آخر میں تشدد کے آغاز کے بعد سے اب تک کم ازکم 78 افراد
ہلاک ہوچکے ہیں۔تشدد کے یہ واقعات ریاست کے بودھ پیروکاروں اور روہنگیا
مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹنے پڑنے کے نتیجے میں رونما
ہورہے ہیں۔زاواکی کا کہناہے کہ روہنگیا اور دوسرے مسلمان حملوں کا ہدف بنے
ہوئے ہیں ، ان کی املاک تباہ کی جارہی ہیں انہیں ہلاک کیا جارہاہے اور ان
کی خواتین پر جنسی حملے کیے جارہے ہیں اور تشدد کے ان واقعات میں صرف راکین
بودھ ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کے اہل کار بھی حصے دار
ہیں۔انہوں نے بتایا روہنگیا علاقوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد سے
سینکڑوں مسلمان لاپتا ہیں اور ان کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ نہیں
ہوپارہا۔ان میں اکثریت بالغ مردوں اور لڑکوں کی ہے اور بظاہر انہیں مذہب کی
بنا پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔زاواکی کا کہناہے کہ ان واقعات سے برما
میں گذشتہ سال سے جاری انسانی حقوق کی سمت پیش رفت کو دھچکا لگا ہے، لیکن
ان کا کہناہے کہ صدر تھین سین کی سیاسی اصلاحات سے برما کے نسلی اقلیتی
علاقوں کی صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں صدر تھین
سین کے اس بیان کے بعد کہ روہنگیا مسئلے کا حل صرف اس اقلیت گروپ کی ملک
بدری یا پناہ گزین کیمپوں میں منتقلی ہے، صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا
ہواہے۔۔ ریاست راکین میں بدامنی کے آغاز کے بعد سے اب تک 90 ہزار سے زیادہ
افراد بے گھر ہوچکے ہیں جس سے ایک اور انسانی بحران پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ
گیا ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہناہے کہ بے گھر ہونے والے افراد کی
حالت کے بارے میں جاننا بہت دشوار ہے کیونکہ برما کی حکومت بین الاقوامی
امدادی کارکنوں اور معائنہ کاروں کومتاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں
دیتی۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات نے انسانی حقوق کی تنظمیوں کو ایک
بار پھر اس جانب متوجہ کیا ہے کہ برما کی حکومت یہ دباؤ ڈالیں کہ وہ
روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کے قانون کو یا تو منسوخ
کرے یا اس میں تبدیلیاں کرے۔برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا نسل کے
مسلمان تکنیکی لحاظ سے غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور ان کا اصل وطن بنگلہ
دیش ہے درایں اثناءبرما کے صدر"تھین سین" نے کہاہے کہ مسلمان ہمارے ملک کے
شہری نہیں ہیں اس لیے ان کے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام شہروں سے
نکل کر مہاجر بستیوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیںبرمی صدر نے اقوام متحدہ
کے مندوب برائے پناہ گزین"انٹونیو گیٹریز" سے ملاقات کے دوران کہا کہ
روھینگیا شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے
تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر انہیں حملوں کا سامنا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیں۔
ہم انہیں اپنا شہری نہیں مانتے ہیں۔برمی صدر کا کہنا تھا کہ بوزی قبائل کے
حملوں کا شکار مسلمانوں کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے
قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں رہیں۔ اگر وہ مہاجر بستیوں میں بھی نہیں رہ
سکتے تو ہم انہیں شہروں میں نہیں رہنے دیں گے اور انہیں ملک سے نکال دیا
جائے گا۔خیال رہے کہ برما کے شہر روھینگیا میں مسلمان پہلی بڑی اقلیت ہیں
جن کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے اقوام متحدہ کے تمام اداروں نے یہ تسلیم
کیا ہے کہ برما کے مسلمانوں کو وہاں کے مقامی دہشت گردوں کی جانب سے سنگین
مظالم کا سامنا ہے ۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل
نے برما کی حکومت سے اراکانی مسلمانوں کو ملک کا شہری تسلیم کرنے کا مطالبہ
کرتے ہوئے کہاہے کہ برما (میانمر) میں اس وقت بھی مسلمان آبادی کے خلاف
مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے کہاہے کہ ہنگامی
حالت کے نفاذ کے باوجود بدھ راہبوں کی جانب سے اراکانی مسلمانوں پر تشدد
کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔تنظیم نے اس کی ذمہ دار ملکی سیکورٹی
فورسز پر بھی عائد کی ہے۔ برما میں رواں سال مئی میں شروع ہونے والے مسلم
کش فسادات میں 2ہزار سے زائد مسلمان شہید اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
تنظیم نے برماکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اراکانی برادری کو اپنے ملک
کا شہری تسلیم کرے۔ ۔۔مجلس شوریٰ اسلامی ایران میں قومی سلامتی اور
امورخارجہ کمیشن کے رکن نے برما کے مسلمانوں کے قتل عام کو سامراجی سازش
قرار دیا ہے۔ قومی سلامتی اور امور خارجہ کے پارلیمانی کمیشن کے رکن
اسماعیل کوثری نے کہا کہ برما کے واقعات سامراجی طاقتوں کی جانب سے جاری
مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے کا حصہ ہیں اور اس کا مقصد شام کی صورتحال
سے مسلم امہ کی توجہ ہٹانا ہے۔ انہوں نے اسلامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے
اداروں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر برما کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے
ماہرین کی ٹیمیں رنگون روانہ کریں۔ مجلس شورائے اسلامی ایران کے رکن نے
بنگلا دیش اور ملائشیا سے بھی اپیل کی کہ وہ پناہ کی تلاش میں آنے والے
برما کے مسلمانوں کی دل کھول کر میزبانی کریں اور قومی و مذہبی فسادات
کرانے کی سازشوں سے پوری طرح ہوشیار رہیں۔برمی صدر زاوا یہ بھول گئے کہ
پاکستان نے سویت یونین کی جبگ کے موقع پر لاکھوں تاکین افغانستان کے
مہاجرین کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے راشن اور رہائش کا بھی انتظام کیا ،
پاکستان نے کبھی بھی تارکین وطن کے ساتھ ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ دنیائے کے
تمام مسلم ممالک نے کبھی بھی ایسے گھناﺅنے عمل نہیں کیئے جبکہ برمی صدر اس
عمل کو غلط کہنے کے بجائے ظالموں کی طرفداری کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ
یہ عمل حکومتی پشت پناہی پر ہے ۔ بحرحال انب مسلم امہ کو اس سلسلے میں ہی
خود مقابلہ کرنا پڑیگا ، احتجاج کے ذریعے جس میں اقتصادی و معاشی ، سیاسی
اور سفارتی مکمل بائیکاٹ کے ذریعے !!! حکومت پاکستان کو برمی مسلمانوں
کیلئے اپنا مثبت اہم رول ادا کرنا ہے کیونکہ پاکستان دنیا میں مسلم ممالک
میںاپنی خاص شناخت رکھتا ہے !! |