صدر جمہوریہ کے منصب پر پرنب
مکھرجی کا انتخاب یوپی اے کی اسی قیادت کے بدولت ہوا ہے جس نے سنہ2007 میں
ان کو یہ کہہ کرصدارتی امیدوار بنانے سے انکار کردیا تھا کہ ان کی موجودگی
سرکار کےلئے از حد ضروری ہے۔یہ منطق کس قدر لچر تھی، اس کا اندازہ اس بات
سے کیا جاسکتا ہے 2012کے حالات یو پی اے کےلئے اس سے زیادہ بہتر نہیں ہیں
جیسے 2007 میں تھے ۔ اب سرکار میں ان کی موجودگی ازحد ضروری کیوں نہیںرہی؟
ان کے بجائے 2007میں یو پی اے نے این ڈی اے کے بھاری بھرکم امیدوار بھیروں
سنگھ شیخاوت کے مقابلہ میںمحترمہ پرتیبھا دیوی سنگھ پاٹل شیخاوت کو اپنا
امیدوار بنایاتھا،حالانکہ سیاسی، سماجی ،علمی یا فکری سطح پر کوئی ایسا
کارنامہ ان سے منسوب نہیں تھا کہ ان کی شخصیت کو اس باوقارمنصب کے ہم پلہ
تصور کیا جاتا۔ نام اور بھی تھے جن میں بڑے بڑے لائق فائق لوگ بھی تھے مگر
یو پی اے نے منصب صدارت پر ایسے شخص کو ترجیح دی جو کسی بھی معاملے میں
کوئی سوال نہ کر سکے۔جبکہ 2014کے الیکشن کے بعد اس کو اندیشہ ہے کہ جوڑ توڑ
کےلئے منصب صدارت پر ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جس کی سیاست دانی اورپارٹی
کے تئیں وفاداری شک و شبہ سے بالا تر ہو۔ اس مقصد کےلئے مسٹر مکھرجی سے
بہتر اور کون ہو سکتا تھا؟
سبکدوش صدرصاحبہ
ہرچند کہ سبکدوش صدر محترمہ پاٹل نے اپنی نامزدگی کے بعدایک ایساتکلیف دہ
بیان دیدیا تھا جس کی کسک آج بھی محسوس ہوتی ہے لیکن 2007 سے 2012 تک کا ان
کاپانچ سالہ دور ایسے گزر گیا جیسے اس دوران راشٹر پتی بھون خالی رہا ہو۔
اپنی انتحابی مہم کے پہلے ہی مرحلہ میں 17جون کو انہوں نے ادوے پور میں یہ
کہہ کر وبال کھڑا کر دیا تھا کہ ہندﺅں میں پردے اور پلّوکا چلن مسلم” مغل
حملہ آوروں“ کے خوف سے شروع ہوا تھا ، جس پر تاریخ دانوں نے سخت اعتراض کیا
تھا اور مسلمانوں میں شدید ردعمل ہوا تھا ،مگر کانگریس نے مسلمانوںکے جذبات
کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی، چنانچہ موصوفہ نے اس غلط بیانی پر اظہار ندامت
تو دور کی بات، اپنا بیان واپس بھی نہیں لیا۔ ان کے اس بیان سے ان کی سیاسی
زیرکی، علمی وسعت اور فکری نہج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہی یوپی اے جس نے
پانچ سال پہلے محترمہ پاٹل کو چنا تھا اب پرنب مکھرجی کی علمیت اور قابلیت
کے گن گارہا ہے ۔ بیشک مکھرجی ایک لائق شخص ہیں اور امید ہے کہ وہ منصب
صدارت کے وقار کو پھر اس کی بلند سطح تک لیجائیں گے، مگر اس منصب کے لئے
یوپی اے نے انکا انتخاب ان کی لیاقت کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ یوپی اے کی نظر
میں صدر کے امیدوار کے انتخاب کی بنیاد اگر لیاقت ہوتی تو 2007میں اس بنیاد
کونظراندازنہ کیا جاتا۔ اس مشاہدے سے ہمارا مقصد ہرگزسبکدوش صدر جمہوریہ
محترمہ پاٹل کی شخصیت پر انگلی اٹھانا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ مسٹر
مکھرجی کو امیدواران کی لیاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض دیگر سیاسی وجوہ سے
بنایا گیا ہے، جن پر ان کی لیاقت کا ڈھنڈورہ پیٹ کر پردہ ڈالا جارہا ہے۔
پرنب مکھرجی ہی کیوں؟
حالات کا اشارہ یہ بتا رہا ہے کہ اس وقت مقصود پرنب مکھرجی کومرکزی کابینہ
اور وزیر مالیات کے منصب سے ہٹا نا تھا ۔ان کی بعض پالیسیوں سے غیر ملکی
سرمایہ کار ناخوش تھے۔ ان کے رخصت ہوتے ہی حالات بدلنے شروع ہوگئے ہیں۔ ان
کویونہی کابینہ سے ہٹانا یا ان کا قلمدان بدلنا مغربی بنگال کی سیاست پر
اثر انداز ہوتا اس لئے وہ تدبیر سوچی گئی کی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی
نہ ٹوٹے۔ چنانچہ ان کےلئے ایک ایسی کرسی تجویز کر لی گئی ہے جس پر فروکش
ہوکر وہ خوش بھی رہیں اورآڑا وقت آنے پر، جو 2014کے عام چناﺅ کے بعد آسکتا
ہے، ان کی خدمات بھی پارٹی کو حاصل رہیں ۔ دوسری طرف ان کی امیدواری ممتا
بنرجی کے تیور ڈھیلے کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئی۔ ان کو مکھرجی کی حمایت
پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن یہ اعلان کرتے ہوئے ممتا نے یہ کہنا ضروری سمجھا
کہ اس حمایت سے ان کے چہرے پر مسکان نہیں ، مگر انتحاب کے بعد سب سے پہلے
مبارکباد بھی دی،حلف برداری سے ایک دن پہلے آکر ان سے ملاقات بھی کی اور
رسم حلف داری میں موجود بھی رہیں۔ممتا نے یہ فیصلہ راضی خوشی نہیں کیا بلکہ
اس میں بنگالی فیکٹر کا زبردست رول رہا ہے۔ کسی غیر بنگالی کوصدارتی
امیدوار بنایا جاتا تو ان کو سیدھا کرنا آسان نہ ہوتا۔ بہر حال یہ کانگریس
کے پالیسی سازوں کی بڑی کامیابی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ مکھر
جی کے انتخاب کا ابھی اعلان بھی نہیںہوا تھا کہ راہل گاندھی کو آگے بڑھانے
کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔وہ اگر کابینہ میں لئے جاتے ہیں ان کےلئے نمبر دو
کی جگہ خالی کرالی گئی ہے۔ مکھرجی کا صدر چنا جانا اور راہل کو آگے بڑھائے
جانے کا عندیہ باہم غیر منسلک نہیں ہیں ۔لیکن فی الحال ذکر صرف صدارتی
الیکشن کا۔
این ڈی اے کی سبکی
سنہ2012 کا صدارتی چناﺅ اس اعتبار سے تاریخی رہا کہ سب سے بڑے اپوزیشن گٹھ
بندھن این ڈی اے کو کوئی امیدوار ہی نہیں سوجھا، حالانکہ بی جے پی کے پاس
لال کرشن آڈوانی جیسا قدآور لیڈر موجود تھا۔ ہر چند کہ وہ مقامی برہمن نہیں
ہیں بلکہ سندھی مہاجرہیں لیکن وہ پارٹی اوراین ڈی اے کے سب سے قدآورلیڈر
ہیں۔لیکن این ڈی اے نے ان کوامیدوار نہ بناکر دیگر علاقائی پارٹیوں کی پسند
کے ایک پستہ قدامیدوار کو گود لینے پر اکتفا کیا ۔ (آڈوانی جی کے مقابلے
میں سنگما کو پستہ قد ہی کہا جائے گا۔)چناﺅ میدان میں تو سنگما خود ہی کودے
تھے مگر جے للتا اور پٹنائک نے ان کی تائید کا اعلان اس لئے کردیا تھا کہ
وہ دونوں این ڈی اے اور یو پی اے سے خود کو دور دکھانا چاہتے تھے۔ مگر
بھاجپا نے سنگما کی حمایت کا اعلان کرکے یہ بے بنیاد تاثر دینے کی کوشش کی
کہ این ڈی اے کی بنیاد میں توسیع ہورہی ہے۔ اس تاثر کو جے ڈی یو اور شیو
سینا نے مکھر جی کی حمایت کا اعلان کرکے دھوست کردیا تھا۔ اس کے باوجود
مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق بھاجپا سنگما کا دامن نہیں چھوڑ سکی۔ یہ سوال
اپنی جگہ ہے کہ اگر نائب صدر کے منصب کےلئے جسونت سنگھ کو امیدوار بنایا
جاسکتا ہے تو صدر کے چناﺅ میں آڈوانی جی کو امیدوار کیوں نہیں بنایا جاسکا؟
کیا مودی کی دعویداری پر موہن بھگوت کی مہر لگ جانے کے باوجود وہ اب بھی
وزیراعظم کے منصب کے امیدوار ہیں؟ایک سیوم سیوک کی اتنی جرات کہ سنگھ مکھیا
کے واضح اشارے کے باجود اپنی امیدواری پر ڈٹا رہے؟ شاید تکیہ نتیش بابو،
شرد یادو یا ماتوشری کے مکینوں پر ہے جو مودی کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔
سنگما کی روش
مسٹر سنگما نے اپنی امیدواری کے اعلان کے وقت سے ہی جو روش اختیار کی، اس
سے ان کی سیاسی اورفکری سوچ کی سطح ظاہر ہوتی ہے جو صدر جمہوریہ کے امیدوار
کے شایان شایان ہرگز نہیں تھی۔ اس کے باوجود بھاجپا اور اس کے حلیف ان کی
امیدواری کا بوجھ ڈھوتے رہے ۔ مسٹر سنگما نے اپنی امیدواری کی بنیاد اپنے
قبائلی ہونے پر رکھی۔ ہمارے جمہوری نظام کےلئے ذات، برادری اور قبیلہ کی
سیاست ایک کلنک ہے اور صدر جمہوریہ کا منصب اس طرح کی سیاست سے بلند و بالا
رہنا چاہئے ۔مگر بھاجپا کو جمہوری سیاست کی صحت مندی اور اس کے وقار سے کیا
لینا دینا؟ اس نے مخالفت برائے مخالفت کے نظریہ کے تحت مسٹر سنگما کے ساتھ
مل کر اپنی طاقت آزمائی کی اور منھ کی کھائی۔ دلیل یہ دی گئی تھی کی صدارتی
الیکشن لڑنا اس لئے ضروری ہے کہ این ڈی اے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے ،مگر
حیف کہ یہ داﺅںالٹا پڑا ور طاقت کے بجائے کمزوری کا بھید کھل گیا۔ رہی سہی
کسر کرناٹک میں بھاجپا ممبران کی کراس ووٹنگ نے پوری کردی، چنانچہ پارٹی
نئی خجالت میں مبتلا ہوگئی ۔
قبائلی نمائندگی کا دعوا
دوسری طرف مسٹر سنگما جو بزعم خود قبائلیوں کے نمائندہ بن کر میدان میں
اترے تھے ، خود قبائلی ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کو اپنی ریاست
میگھالیہ میں بھی اکثریت نے رد کردیا، جہاں 60 میں سے صرف 23 ممبران اسمبلی
نے ان کووٹ دیا اور ان کا حصہ صرف 40فیصدر رہا ۔ ان کو دیگر سات شمال مشرقی
قبائلی ریاستوں سے بھی مجموعی طور پر 20فیصد سے کم ووٹ ملے ۔ اروناچل پردیش
میں 60میں سے دو ؛ آسام میں 126 میں سے 13؛ تری پورہ ،منی پور اورسکم میں
صرف ایک ایک اورمیزورم میں سات ووٹ ان کوملے۔
ان کو جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں بھی مایوسی ہاتھ لگی ۔ یہ قبائلی اکثریتی
ریاستیں ہیں مگر ”قبائلی صدر “کی ان کی اپیل کا کوئی اثر ان ریاستوں میں
بھی نظرنہیں آیا۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بھاجپا ووٹ ضرور مل گئے
مگر دیگر پارٹیوں کے قبائلی ممبران نے ان کے خلاف وو ٹ دیا۔ اڑیسہ میں بیشک
ان کو حمایت ملی مگر وہ بیجو جنتا دل کی حمایت کا نتیجہ ہے۔غرض یہ کہ اس
الیکشن نے ان کے اس گمان کو دھو کر رکھ دیا کہ وہ کیونکہ قبائلی ہیں اس لئے
سارے قبائلیوں کے نمائندہ لیڈر بھی ہیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کو عروج کس
کی بدولت حاصل ہوا تھا؟ یہی خوش گمانی آنجہانی بابو جگجیون رام کو بھی
ہوگئی تھی۔ وہ سمجھے تھے کہ وہ ہندستانی ہریجنوں کے کانگریسی لیڈر ہیں اور
ان کی طاقت کا سرچشمہ ان کا ہریجن ہونا ہے، حالانکہ ان کی طاقت کا سرچشمہ
کانگریسی ہونا تھا اور اصلاًوہ کانگریس کے ہریجن لیڈر تھے۔اس حقیقت کو سابق
مرکزی وزیر مسٹر جعفر شریف نے خوب سمجھا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کابینہ سے استعفا دیں گے تو موصوف نے یہی
دلیل دی تھی کہ وہ مسلمانوں کے لیڈر ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کانگریس
لیڈرہونے کی وجہ سے وزیر ہیں۔
سنگما کی شکست
الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ سنگما صاحب نے
ان انتخابی نتائج سے کوئی سبق نہیں لیا اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ چناﺅ میں
پیسہ کا کھیل ہوا۔ وہ عذرداری داخل کریں گے۔ شاید ان کے اندر ان کے انتخابی
مشیر سبرامنیم سوامی بول رہے ہیں۔ پیسے کے کھیل کے الزام کا مطلب تو یہی
ہوا کہ سیاسی پارٹیاں اور ایم ایل اے و ایم پی ان کی نظر میں بکاﺅ ہیں۔ نہ
تو انکی انتخابی مہم با وقار رہی اور نہ انہوںنے انتخابی نتائج آجانے پر
باوقار انداز میںاپنی شکست کو تسلیم کیا۔اگر کرلیتے توبہتر ہوتا۔ شاید ان
کی دختر اگاتھا سنگما کی وزارت کی کرسی ہی بچی رہتی۔ اب اگاتھا کا زیادہ
وزیر کے منصب پر بنا رہنا متوقع نہیں،حالانکہ دیہی ترقیات کے وزیر مملک کی
حیثیت سے وہ قبائلیوں کےلئے اہم خدمات انجام دے سکتی تھیں ۔ اپنے ناقابل
حصول عزائم کےلئے اپنی بیٹی کے سیاسی سفرکوایسی کاری ضرب سفرلگانا جس کا
نقصان قبائلیوںکو ہی پپہنچے ، کیا کہا جائے؟ مسٹر سنگما ایک سینرلیڈر
ہیں۔لوک سبھا کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، اس کے باوجود حیرت ہے کہ ان کے
مزاج میں وقار کی آبیاری نہیں ہوسکی حالانکہ ہمارے قبائلی بڑے باوقار ہوتے
ہیں اور یہی ان کی شناخت بھی ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ بی جے پی نے کیا سمجھ کر
ان کو سپورٹ کیا تھا؟ |