کبوتر کی وفاداری

وہ غصے سے مرے گا اور میں خوشی سے مروں گا
گذشتہ زمانے میں بغدادمیںدوآدمی تھے جوایک دوسرے سے حسد کرتے،سلطنت اور جاہ و منصب کے لینے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے، ان میں سے ایک کسی منصب پر فائز تھا جبکہ دوسرا مناصب سے باہر اور معمولی ملازم تھا، عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ تھی اور عہدوں کی تقسیم کا اختیار تھا وہ ان دونوں سے نفرت کرتا اور تمنا کرتا کہ یہ دونوں اپنے عہدوں سے سبکدوش ہو جائیں، ایک دن دوسراآدمی جس کے ہاتھ میں حکومت کا کوئی عہد ہ نہیں تھا وہ حاکم کے پاس آیا اور کہنے لگا:’’اے امیر! میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرتے ہو جیسا کہ تم اس سے نفرت کرتے ہو جو مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے،اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو ایک ایسا حیلہ بتاتا ہوں جس سے آپ دونوں سے چھٹکارا پالیں گے‘‘ حاکم نے کہا:’’ وہ کونسا حیلہ ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’آپ اسے معزول کردیں اور اس کی جگہ مجھے رکھ لیں، وہ غصے سے مر جائے گا اور میں خوشی سے مر جائوں گا‘‘۔﴿العصری:من کل وادحجر،ص ۸۸﴾

کبوتر کی وفاداری
کہتے ہیں کہ ایک کبوتر اور ایک کبوتری نے مل کر اپنا گھونسلا گندم اور جو کے دانوں سے بھر دیا۔
کبوتر نے کبوتری سے کہا:’’جب تک صحرائوں میں ہمیں اتنا بھی ملے گا جس سے ہم زندہ رہ سکیں تب تک ہم یہاں سے کچھ نہ کھائیں گے اور جب سردیاں آئیں گی اور صحرا میں کچھ نہ رہے گا تو پھر ہم اپنے گھونسلے میں جمع کردہ ذخیرہ کھائیں گے‘‘ کبوتری نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’’تو نے ٹھیک سوچا ہے‘‘ جب انہوں نے دانے چن چن کر اپنے گھونسلے میں رکھنے شروع کئے تھے اس وقت دانے ذراتر تھے جس کی وجہ سے گھونسلا بھرابھرا سالگتا تھا،پھر کبوتر کو ایک سفر درپیش ہوا، وہ چلاگیا، جب وہ واپس آیاتودانے خشک ہوکر اسے کم معلوم ہوئے،اس نے کبوتری سے کہا:’’کیا ہم نے متفقہ طور پر یہ طے نہیں کیا تھا کہ ہم گھونسلے سے کچھ نہ کھائیں گے؟ پھر کیوں تونے کھایا؟‘‘ کبوتری قسمیں کھا کھا کر اسے یقین دلانے لگی کہ اس نے کچھ نہیں کھایا، مگر کبوتر نے اس کی ایک نہ سنی اور چونچ مار مار کرا سے ہلاک کر ڈالا، پھر جاڑے کا موسم آیا اور بارشیں ہوئیں تو دانے دوبارہ ترہوگئے اور پہلے کی طرح زیادہ معلوم ہونے لگے اور گھونسلا پھر سے بھر گیا، کبوترنے دیکھا تو اسے سخت ندامت ہوئی، وہ کبوتری کے پہلو میں جا لیٹا اور آواز دے کر اس سے کہنے لگا: ’’ اس زندگی کا کیامزہ جب میں تجھے ڈھونڈوں پر ڈھونڈ نہ پائوں؟ میں نے جب تیرے معاملے میں خوب غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میںنے تجھ پر ظلم کیا ہے اور جو کچھ ہوا اس کا تدارک کرنا میرے بس میں نہیں‘‘ پھر اس کی ندامت، اس کا غم طول پکڑتا چلا گیا، نہ اس نے کچھ کھایا،نہ پیا یہاں تک کہ وہ کبوتری کے پہلو میں مر گیا۔

سیا نے کہتے ہیں:’’ جس میں ذرا بھی عقل ہواسے یہ بات خوب جان لینی چاہئے کہ کسی کو سزا دینے میں ہر گز جلدبازی سے کام نہ لے خصوصاً جبکہ اسے اندیشہ ہو کہ بعد میں اسے پچھتانا پڑے گا جیساکہ کبوتراپنے کئے پر پچھتا یا ‘ ‘ ۔ ﴿ابن المقفع:کلیلۃودمنۃ،ص ۶۴۲﴾

ابو العینائ اور ابن آدم
ایک سادہ آدمی ابو العینائ کے پاس جا کھڑا ہوا، ابو العینائ نابینا تھے، جب ان کو محسوس ہوا کہ کوئی ان کے قریب کھڑا ہے تو انہوں نے پوچھا:’’ تو کون ہے؟‘‘ آدمی نے کہا: میں اولادِ آدم میں سے ایک ہوں،ابوالعینائ نے کہا: مرحبا، خوش آمدید، اللہ تجھے لمبی عمر دے، میرا خیال یہ تھا کہ یہ نسل کب کی ختم ہو چکی ہے‘‘۔﴿الحوفی: الفلاھۃ،۲/۲۲﴾

اپنا کتا بھوکا رکھ،تیرے پیچھے پیچھے چلے گا
کہتے ہیں : عربی زبان کا یہ محاورہ سب سے پہلے حمْیَر کے ایک بادشاہ نے کہا جو اپنی رعایا کے لئے ایک جابر حکمران تھا، اس نے ان کے مال چھین لئے اور جائیدادیں ضبط کر لیں دراصل ہوایہ کہ اس کی مملکت کے نجومیوں نے اسے یہ بتایا تھا کہ عنقریب یہ لوگ تجھے قتل کردیں گے لیکن بادشاہ کو اس کی پرواہ نہ تھی، ایک دن اس کی بیوی نے مانگنے والوں کی آوازیں سنیں تو کہنے لگی:’’ ہم کس قدر آسودہ اور خوش حال ہیں اور یہ لوگ کس قدر مشقت میں مبتلا ہیں، مجھے ان لوگوں پر رحم آتا ہے،یہ لوگ آج ہمارے تابعدار ہیں مگر مجھے اندیشہ ہے کہیں کل ہمارے لئے درندے نہ بن جائیں‘‘
اس وقت بادشاہ نے جواب دیا:جوّع کلبک یتبعک’’اپنا کتا بھوکا رکھ، تیرے پیچھے پیچھے چلے گا‘‘۔
یہ جملہ بطورکہاوت مشہور ہوگیا، بہرحال یونہی ایک زمانہ گذر گیا،پھر بادشاہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک جنگ لڑی، جس میں بہت سامال غنیمت ان کے ہاتھ لگا مگر اس نے اپنی رعایا کو اس میں سے کچھ نہ دیا، قوم نے اس کے بھائی سے کہا:’’ ہم لوگ کس قدر مشقت میں مبتلا ہیں؟ یہ آپ دیکھ رہے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ حکومت اور بادشا ہت تمہارے خاندان سے کسی اور کی طرف منتقل ہو، لہٰذا آپ ہمارے ساتھ مل کر اپنے بھائی کو قتل کریں اور اس کی جگہ خودبیٹھ جائیں‘‘

اس کابھائی اپنے بادشاہ بھائی کا ظلم ، سرکشی اور حد سے تجاوز اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا، چنانچہ اس نے ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا، پھر سب نے مل کر ایک زور دار حملہ کیا اور بادشاہ کو قتل کر دیا۔
عامر بن فہیرہ مردہ بادشاہ کے پاس سے گذرے اور انہوں نے اس کا قول سن رکھا تھا:
’’اپنا کتا بھوکا رکھ، تیرے پیچھے پیچھے چلے گا‘‘
تو انہوںنے کہا:
’’جب کتے کو گذار ے کا کھانا نہ ملے تو بسا اوقات وہ بھوکا رکھنے والے کو کھا جاتا ہے‘‘۔
ایک دن منصور ابو جعفر نے اپنی سواری کے ساربان سے کہا: اس بدو نے سچ کہا جس نے یہ کہا:
’’ اپنا کتا بھوکا رکھ، تیرے پیچھے چلے گا‘‘۔
اس پر ابو العباس طوسی نے کہا:
امیر المومنین! مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی اسے روٹی ہلاکر دکھائے،یہ اس کے پیچھے ہولے اور آپ کواکیلاکھڑا چھوڑدے۔
﴿البکری: فصل المقالی،۰۲۴﴾
٭.٭.٭
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166601 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More