محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی
خوفِ خدا و عشقِ مصفطی کا جام جس نے پی لیا۔زمانہ اس کا ہوگیا۔کامیابیاں
وکامرانیاں اس کا طواف کرنے
لگتی ہیں ۔خوش بختی و سعادتیں دامن پھیلائے اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں
۔
محترم قارئین :آج ہم جس شخصیت ،جس ہستی کی سیرت کے گوشوں کی سیر کریں گئے ۔سییر
و تواریخ کے نقوش میں جانی پہچانی ،کردار و گفتار کے بے مثال نظیرحضرت امام
تقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آئیے !جانتے ہیں اس نیک طینت ہستی کی سیرت کو۔
٭٭٭(حضرت امام محمد تقی رضی اللہ عنہ)٭٭٭
نام کنیت اور لقب:
حضرت محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہ بارہ آئمہ کرام میں سے
نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفرہے۔ آپ کانام اور کنیت حضرت امام باقر
رضی اللہ عنہ سے ملتی ہے اسی لیے آپ کو ابو جعفر ثانی کے نام سے بھی پکارا
جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب تقی اور جواد ہے۔
والدہ کانام:
آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی خیزران تھا۔ بعض نے ریحانہ بھی لکھا ہے آپ
کی والدہ ماجدہ حضرت ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
ولادتِ باسعادت:
آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ شریف میں بمطابق رجب المرجب ١٩٥ھ میں تولد
فرمایا۔
وصال مبارک:
آپ نے معتصم کے ایام خلافت میں ٢٦ ذوالحجہ ٢١٠ ہجری کو وصال فرمایا۔
قبر مبارک:
آپ کی قبر مبارک بغداد شریف میں آپ کے دادا حضور حضرت موسیٰ کاظم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی قبر کی پچھلی جانب ہے۔
مامون الرشید اور آپ کا تعلق:
آپ کو بچپن میں جو خوبیاں اور کمالات حاصل تھے مامون الرشید آپ کا بہت
معترف تھا اس لیے اس نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا تھا اور پھر اسے آپ
کے ساتھ مدینہ شریف بھیج دیا اور سالانہ ایک ہزار درہم بھیجا کرتا تھا۔
امام تقی اور مامون کا مکالمہ:
کہا جاتا کہ حضرت امام تقی رضی اللہ عنہ اپنے باپ حضرت امام رضا رضی اللہ
عنہ کے وصال شریف کے بعد بارہ برس کی عمر میں بغداد شریف کی ایک گلی میں
لڑکوں کی ہمراہی میں کھڑے تھے کہ اتفاقاً مامون الرشید کا وہاں سے گزر ہوا
جو شکار کے لیے باہر جا رہا تھا۔ تمام لڑکے مامون کو دیکھ کر راستہ سے
دوسری طرف ہو گئے لیکن حضرت امام تقی اپنی جگہ کھڑے رہے ۔مامون نے آپ کے
قریب آکر آپ کی زیارت کی ۔آپ حسن وجمال میں بے مثال تھے
مامون نے آپ سے دریافت کیا:
''اے بچے تو دوسرے بچوں کی طرح ایک طرف کیوں نہیں ہوا؟''
حضرت امام تقی نے جواب دیا:
''اے مسلمانوں کے امیرراستہ تنگ تو نہیں جو میں آپ کے چلنے کے لیے وسیع
کردوں اور میرا کوئی جرم بھی نہیں کہ جس کے ڈر سے بھاگ جاتا اور مجھے یہ
بھی معلوم ہے کہ آپ کسی کو بغیر کسی جرم کے سزا بھی نہیں دیتے''۔
مامون الرشید آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوا ور آپ سے دریافت کیا کہ تمہارا
نام کیا ہے؟
آپ نے فرمایا:
''میرا نام محمد ہے''۔
مامون نے پھر دریافت کیا:
'' تم کس کے لڑکے ہو؟''
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
''میں امام رضا رضی اللہ تعالیٰ کا فرزند ہوں''۔
مامون الرشید آپ کے والدِ گرا می کا نام سن کر بہت مسرور ہوا اور جدھر جانا
تھا چل دیا ۔ اس کے پاس بہت سے شکاری باز تھے ۔جب شہر سے کوچ کیا تو ایک
باز کو ایک چکور کے پیچھے چھوڑا تو وہ باز غائب ہو گیا اور کچھ وقت تک غائب
ہی رہا۔پھر کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو اس کی چونچ میں ایک زندہ مچھلی تھی
مامون اسے دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور اسے اپنے ہاتھ میں لیے واپس ہوا پھر
اسی راستے پر آگیا جہاں آپ رضی اللہ عنہ کھڑے تھے تمام لڑکے مامون کو دیکھ
کر ایک طرف ہوگئے لیکن آپ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ مامون الرشید نے قریب جاکر
کہا:
''اے محمد'':
آپ نے فرمایا :
''حاضر ہوں اے مسلمانوں کے امیر''۔
مامون الرشید آپ نے دریافت کیا:
''بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟''
آپ نے فرمایا: ایک چھوٹی سی مچھلی ہے۔ جو خلفاء اور بادشاہوں کے ہاتھ میں
جانے سے روک لی جاتی ہے اور اہلِ بیت نبوت اس سرفراز ہوتے ہیں؟''
مامون الرشید آپ کی گفتگو سن کرعالمِ حیرت میں ڈوب گیا پھر آپ کی جانب دیر
تک تکتا رہا۔ پھر کہنے لگا:
''آپ واقعی ابنِ رضا ہیں''۔
اس کے بعد جو انعام آپ کی خدمت میں پیش کرتا تھا دوگناہ بڑھا دیا۔ اور ایک
روایت ہے کہ اُمِّ فضل( جو خلیفہ مامون الرشید کی لڑکی تھی) نے اپنے والد
مامون الرشید کو مدینہ شریف سے شکایت کے طور پر خط لکھا کہ حضرت امام تقی
مجھ سے خفا ہوتے ہیں اور دوسری بیوی سے رغبت رکھتے ہیں۔ مامون الرشید نے اس
کے جواب میں یوں مرقوم کیا کہ:''میں نے تیرا عقد اس لیے نہیں کیا تھا کہ
میں حلال چیز کو اس پر حرام کردوں۔خبردار کبھی اس کے بعد نہ ایسی بات کہنا
نہ تحریر کرنا''۔
بغیر گٹھلی کے پھل لگنا:
جب خلیفہ مامون الرشید نے اپنی لڑکی کا عقد کرکے مدینہ شریف کی طرف بھیجا
تو آپ راستہ میں چند یوم کوفہ میں ٹھہرے۔ آخری دن آپ ایک مسجد میں تشریف لے
گئے جس میں بیری کا درخت تھا جو کبھی بھی پھل نہیں دیتا تھا آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے پانی کا برتن منگوا کر بیری کی جڑ کے قریب بیٹھ کر وضو کیا
۔پھر وہیں نماز مغرب کے لیے چلے گئے، نماز پڑھ کر درخت کی جڑ کے پاس پہنچے
تو دیکھا کہ اس بیری کے درخت پر بغیر گٹھلی کے پھل لگا ہوتھا جو ذائقہ میں
بہت میٹھا تھا جسے لوگ تبرک طور پرلے جاتے اور کھاتے تھے
موت کی خبر دینا:
جب مامون الرشید کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا:
''میں آج سے تیس ماہ بعد انتقال کر جاؤں گا''۔
پھر جب مامون الرشید کے وصال کو تیس ماہ پورے ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے
بھی وصال فرمایا ۔
جیل سے غائب ہو جانا:
کسی بزرگ سے مروی ہے کہ جب میں عراق میںتھا تو سنا کہ کسی نے شام کے ملک
میں نبوت کادعویٰ کر دیا ہے اور اسے ایک مقام پر اسیر بنا لیا گیا ہے۔ میں
بھی وہاں پہنچ گیا ۔میں نے نگہبانوں کی کچھ خدمت اور اس کے ہاں پہنچ گیا ۔
میں نے دیکھا کہ وہ ہر طرح سے ہوش مند ہے۔ میں اس سے دریافت کیا:
''تمہیں کیاہوا''۔
اس شخص نے کہا:
''اس مسجد میں جہاں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر
مبارک نیزے پر آویزاں تھا۔میں شام کی عبادت الہی میں مشغول تھا۔ ایک شب میں
قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھا ہوا تھا اور اللہ کے ذکر میں لگا ہوا تھا کہ
اچانک ایک شخص سامنے سے ظاہر ہوا جس نے مجھے کھڑا ہونے کے لیے کہا۔ میں
کھڑا ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کے میں خود کو کوفہ کی مسجد میں
پایا اس شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ
ہے؟''
میں نے عرض کیا:
''یہ کوفہ کی مسجدہے''۔
وہ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا میں بھی اس کا مقتدی بنا پھر نماز سے فراغت کے
بعدمیں مسجد سے باہر گیا۔ وہ تھوڑی دیرچلامیں بھی اس کے ہمراہ ہو لیا۔ میں
دیکھا کہ میں مسجد نبوی میں ہوں میں نے نبی کریمؐ کے روضہ انور پرسلام پڑھا
لیکن وہ نماز میں مصروف ہوگیا۔میں بھی نماز ادا کی۔وہ باہر آیا تو میں بھی
باہر آیا۔ابھی تھوڑی دور چلے تھے کہ میں نے خود کو مکہ معظمہ میں پایا۔ اس
نے طواف کعبہ کیا 'میں نے بھی طواف کعبہ کیا۔وہ باہر تشریف لے آیا تو میں
بھی اس کے پیچھے پیچھے با ہر آ گیا۔وہ میری نظر سے پوشیدہ ہو گیا اور میں
نے خود کو ملک شام کی اس مسجد میں پایا جہاں میں عبادت میں مشغول تھا۔ یہ
دیکھ کر میں بہت متعجب ہوا اور کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ایسا کیوں ہوا؟اگلے
سال پھر ایسا ہواکہ وہی شخص پھر ظاہر ہوا اور ساتھ لے کر پچھلے سال کی طرح
پھرتا رہا۔جب میں اپنی جگہ پر واپس آیا اور ایک دوسرے سے علیحدگی کا وقت
آیا تو میں نے اس سے کہا:
''تجھے قسم ہے اس رب قدیر کی جس نے تجھے ہر طرح سے نوازا جس کا میں نے
مشاہدہ کیا ہے بتا تو کون ہے؟''
اس شخص نے کہا:
''میں محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر ہوں''۔
''جب صبح ہوئی تو میں نے یہ تمام قصہ ان لوگوں کو سنایا جنہیں میرے بارے
میں کچھ شک تھا۔ یہ خبر والئی شام کو بھی پہنچ گی۔ اس نے مجھ پر دعویٰ نبوت
کا الزام لگا کر مجھے اسیر کر دیااور اپنے ساتھ لے آیا۔ میں نے اسی حال میں
بادشاہ کو نامہ مرقوم کیااور اس کے بارے میں معروض کیں۔ بادشاہ نے اسی خط
کے پیچھے مرقوم کر دیا کہ: ''جو شخص تجھے ایک ہی شب میں کوفہ سے شام اور
شام سے کوفہ پھر کوفہ سے مدینہ منورہ اور مدینہ منور ہ سے مکہ معظمہ اور
پھر وہاں سے واپس لے آیا ہے۔ اس سے کہو کہ وہ تمہیں قید سے خلاصی دلائے''۔
جب میں نے یہ جواب سنا توبہت پریشان ہوا۔ صبح اٹھ کر قید خانہ کی جانب چلا
گیا تاکہ اسے حالات سے آگاہ کروں میں نے دیکھا کہ جیل خانہ کا عملہ عالمِ
اضطراب میں ہے۔
میں دریافت کیا:
تمہیں کیا ہوا پریشان ہو؟''
انہوں نے کہا:
''جو شخص مدّعی نبوّت تھا وہ کل سے قید خانہ سے غائب ہو چکا ہے۔نامعلوم کہ
وہ زمین میں گھس گیا ہے یا آسمان پر چلا گیا ہے؟''
فرمان نہ ماننے پر ہلاک ہوجانا:
ایک راوی سے مروی ہے کہ ہم آپ کے رفقاء میں سے ایک کے ہمراہ سفر کرنے کا
قصد کیے ہوئے تھے۔ سفر پر جانے سے پہلے ہم حضرت امام تقی رضی اللہ عنہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ انہیں الوداع کہیں۔آپ نے فرمایا:
''آج باہر مت جانا کل تک رکے رہنا''۔
باہر آئے تو میرے ساتھی نے کہا:
''میں توجارہا ہوں کیونکہ میرا رفیق باہر جا چکا ہے''۔
یہ سن کر میں عالمِ حیرت میں ڈوب گیا اور چلا گیا۔ رات کو جس گاؤں میں
ٹھراؤ کیا وہاں سخت سیلاب آیا اور وہ پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا۔
(۔۔۔٭٭٭۔۔۔)
سبحان اللّٰہ !سبق آموز واقعات اور دروس سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ۔اللہ
عزوجل !١ہمیں دین متین پر استقامت عطافرمائے ۔دنیا و آخرت کی بھلائیاں
عطافرمائے۔ |