نکولو میکیاولی کی پرنس( ترمیم و اضافہ شدہ)
(محمد خلیل الرحمٰن, karachi)
پرنس( ترمیم و اضافہ شدہ)
رات ہم سوئے تو ایک عجیب ماجرا دیکھا۔ نکولو میکیا ولی ہمارے برابر بیٹھے
ہوئے تھے اور اکیسویں صدی کی مملکتِ خداداد کے لحاظ سے اپنی تصنیف ‘‘پرنس’’
میں کتر بیونت اور ترمیم و اضافے میں مصروف تھے۔ ہم نے ان کی اس ساری
کارروائی کو بغور دیکھ کر محفلین کے لیے محفوظ کرلیا۔ پڑھئیے اور محظوظ
ہوئیے۔
باب پہلا
حکومت کی اقسام اور وہ طریقے جن سے حکومتیں ہتھیا لی جاسکتی ہیں
چاہے تاریخ پر نظر دوڑائیے ، اور چاہے آج کی دنیا پر، جب کبھی آپ انسان پر
انسان کو حکومت کرتے ہوئے دیکھیں گے تو یہ حکومت لازمی طور پر جمہوری حکومت
ہوگی۔ جمہوری حکومتیں موروثی ہوتی ہیں جو باپ دادا سے ورثے میں چلی آتی ہیں۔
جیسے خاندانِ سپاہ کی جمہوریت ، جو ایوب خان سے یحییٰ خان کو ملی اور اسی
استحقاق کی رو سے پیر و مرشد حضرت ضیاء الحق مدظلہ العالی اور خان بہادر سر
پرویز مشرف کو ودیعت کی گئی۔ موروثی جمہوریت کی ایک اور روشن مثال بھٹو
خاندان کی مشہور و مقبول حکومت ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو،
ان سے پھر آصف علی زرداری اور انجامِ کار بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہوئی۔
یا پھر جمہوری حکومتیں نئی ہوتی ہیں۔ پھر نئی جمہوریت کی بھی دو قسمیں ہیں۔
ایک وہ جو نئے سرے سے قائم ہو جیسے میاں صاحب کے مشورے سے بھولے کا اسلامی
نظام کے تحت پرورش پانا اور اپنی جمہوریت کی داغ بیل رکھنا۔ دوسری صورت یہ
ہے کہ کوئی جمہوریت مغلوب ہوکر کسی پرانی جمہوریت کا جزو بن جائے۔۔۔ ۔
باب تیسرا
خاندانی جمہوریتیں
سوال یہ ہے کہ میں نے ابھی جمہوری حکومتوں کی جو تقسیم کی ہے ، اس کے مطابق
عوام پر کیونکر حکومت کی جائے۔ اور کو کیسے برقرار رکھا جائے۔ میرا دعویٰ
ہے کہ نئی جمہوریتوں کی بہ نسبت موروثی جمہوریتوں کو چلا نسبتاً زیادہ آسان
ہوتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک خاص خاندان کی جمہوریت کے عادی ہوجاتے ہیں۔
موروثی جمہوریت کے وزیرِ اعظم کے لیے بس اتنا ضروری ہے کہ وہ اپنے آباء و
اجداد کے نقشِ قدم پر چلے۔ البتہ جب کوئی نئے واقعات پیش آئیں تو ان کا
لحاظ کرے۔ جمہوری وزیرِ اعظم لائق ہوگا تو ضرور اپنا تخت سنبھال سکے گا۔ یہ
اور بات ہے کہ کوئی دوسرا غیر معمولی قابلیت کا انسان آئی ایس آئی یا آزاد
پریس کے ذریعے سے اس کے سر پر ہل چلا کر اس کے تخت پر قابض ہوجائے۔ لیکن اس
صورت میں بھی جب کبھی غاصب کے سی ون تھرٹی پر وقت پڑے گا تو اسے پھر سے
اپنی کھوئی ہوئی جمہوری طاقت حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔
باب چوتھا
قائد کی مملکت جسے خاندانِ سپاہ نے فتح کیا ، وہاں خاندانِ سپاہ کے خلاف
علمِ بغاوت کیوں نہ بلند کیا گیا؟
اگر ان مشکلات کا خیال کیا جائے جو نئے فتح کیے ہوئے علاقوں کو قابو میں
رکھنے میں پیش آتی ہیں۔ تو اس بات پر اچنبھا سا ہوتا ہے کہ جنرل محمد ایوب
خان نے جس قائد کی حکومت کو جمہوری انداز میں فتح کیا اور عرصہ دس سال تک
ایک مقبول جمہوری اور آئینی راہنماء کی حیثیت سے اس مملکت پر قابض رہا،
اسکی جمہوریہ میں کہیں بھی غیر جمہوری عناصر نے شورش برپا نہیں کی۔
ان مصیبتوں کو تو جانے دیجیے جو خود انکی سادہ طبیعت اور جاہ و حشمت سے ان
کی دوری کا نتیجہ تھیں ، ورنہ انھیں نہ تو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا اور نہ ہی ان کا کسی سے تصادم ہوا۔ بات یہ ہے کہ وہ عوامی جمہوریتیں جن
کا تھوڑا بہت حال جو آزاد میڈیا اور ٹی وی چلنلز سےہمیں معلوم ہوا ہے، ان
کے حکومت کرنے کے دو علیحدہ علیحدہ طریقے تھے۔ایک یہ کہ جمہوری صدر اپنے
ذاتی ملازمین کی مدد سے حکومت کرتا تھا۔ ملازمین میں سے وہ جسے چاہتا، وزیر
بناتا اور ریاست کے نظم و نسق میں ان سے مدد لیتا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ
حکومت جمہوری صدر اور عوامی جاگیرداروں کی ہوتی تھی۔ ان عوامی جاگیرداروں
کی اپنی عمل داری بھی ہوتی تھی اور اپنی رعایا بھی، جہاں پر وہ انتہائی
جمہوری انداز میں عوامی حکومت کرتے تھے۔ اور رعایا ان کے حکم پر چلتی اور
ان کی دل سے عزت کرتی تھی۔ خاندانِ سپاہ نے ان دونوں ہی طریقوں کو اپنایا
اور عرصہ تیس سال تک (وقفے وقفے سے) کامیابی کے ساتھ غیر جمہوری بورژوا
طبقے کے سینے پر مونگ دلی۔
باب پانچواں
جمہوریت ایسے شہروں اور مملکتوں پر جو فتح ہونے سے پہلے ۵۶ء کے آئین کے
ماتحت رہے ہوں
نئی فتح کی ہوئی مملکت اگر آزادی کی خوگر ہو اور قائد کی عطا کی ہوئی آزادی
اور عرصہ نو سال تک ایک خود ساختہ قانون کے ماتحت رہ چکی ہوں، تو انھیں
قابو میں رکھنے کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انھیں بالکل تباہ و برباد
کردیا جائے۔، دوسری یہ کہ خاندانِ سپاہ کا مایہء ناز سپوت جمہوری صدر کی
حیثیت اختیار کرلے اور تیسری یہ کہ اگر تھوڑے سے روپیوں سے فاتح کی تسلی
ہوجائے تو وہ یہ کرسکتا ہے کہ وہاں پرانے قوانین نہ رہنے دے بلکہ ایک
نیاانقلابی آئین تشکیل دے۔ اور اپنی محکوم رعایا پر جمہوری انداز میں حکومت
کرنے کے لیے بنیادی جمہوریت کے تحت ایک مجلس بنادے جس میں ایسے افراد شامل
کیے جائیں جو نہ صرف فاتح کے مفادات کا خیال رکھیں بلکہ رعایا کو بھی راضی
برضا اور تابعدار رکھیں۔ یہ فاتح کی قائم کردہ جمہوریہ ہوگی اور اس کے
اراکین یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ خود انکی حیثیت فاتح کی رہینِ منت
ہے اور فاتح کی عنایت اور دلچسپی کے بغیر نہ خود ان کی بقا ممکن ہے اور نہ
ہی جمہوریت کی۔ اس سبب سے وہ وہ فاتح کی عملداری برقرار رکھنے کے لیے ہر
طرح کی کوشش کریں گے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے ان تینوں صورتوں سے بدرجہ
اتم فائدہ اٹھایا اور اپنی قوم کو دس سال کا سنہری دور دیا۔
باب چھٹا
اس بادشاہت کے بارے میں ، جو اپنے حسنِ تعلقات اور زورِ بازو سے حاصل کی
گئی ہو
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئی جمہوری حکومتوں کے حصول کے بیان میں، خواہ
وہ وزارتِ عظمیٰ ہو یا وزارتِ اعلیٰ، میں بڑی بڑی اور عظیم الشان مثالیں
پیش کرتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان اکثر انھی راستوں پر گامزن ہوتا ہے
جنھیں دوسرے طالع آزما پہلے سے اختیار کرچکے ہوتے ہیں۔ اور جب وہ کوئی بڑا
کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے پیشِ نظر کوئی نہ کوئی نمونہ ہوتا ہے۔
چنانچہ ایسی جمہوریتوں کو قابو میں رکھنا جو حال میں کسی نئے بادشاہ نے
حاصل کی ہوتی ہیں، اس بادشاہ کی دانش مندی کے اعتبار سے کم یا زیادہ دقت
طلب ہوگا۔ معمولی حیثیت کے سرمایہ دار کے بھولے بیٹے کی حیثیت سے آگے بڑھ
کر بادشاہ کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے امیر المومنین سے غیر معمولی تعلقات
یا شومئی قسمت یا دونوں ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اب مفتوحہ علاقوں کو قابو
میں رکھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ کامیاب رہنما وہی ہے جس نے
اپنی قسمت پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیا اور اپنی قوم کو بہت جلد یہ احساس
دلادیا کہ وہ انہی میں سے ہے۔ یہاں پر میں ان قوم پرست رہنماؤں کی بات نہیں
کررہا جو برملا اور علیٰ الاعلان اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ وہ قوم
پرست رہنما ہیں، یہاں تو کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے کا سا معاملہ ہے۔
رہنما کی دقتوں میں ایسے واقعات سے کمی واقع ہوجاتی ہے جب وہ دوسرے دفاتر
مقبوضہ نہ ہونے کی وجہ سے نت نئی حکمتِ عملیاں اپنانے پر مجبور ہوجائے اور
انجامِ کار تمام دفاتر پر اس کا مکمل قبضہ ہوجائے۔ چنانچہ امیرِ وقت سے روز
روز کے جھگڑے کھڑے کرکے اسے چلتا کرنااور اسکی جگہ اپنے ذاتی ملازم کو
متمکن کرنا، سپہ سالار کی عدم موجودگی میں اسے اسکے دفتر سے دیس نکالا دینا
اور قاضی القضاۃ پر لشکر کشی کرکے اسے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کرنا
ایسے خوش قسمت رہنماؤں کے نمایاں ترین کارنامے کہلائے جاسکتے ہیں۔
باب ساتواں
نئی بادشاہتیں۔ امریکہ کی مدد اور اپنی خوش نصیبی( این آر او) سے حاصل کی
ہوئی
جو افراد معمولی حیثیت سے بڑھکر محض اپنی خوش نصیبی( این آر او) امریکہ کی
مدد اور بیوی کے اتفاقاً راستے سے ہٹ جانے کی بناء پر بادشاہ بن جاتے ہیں،
انھیں حکومت کے حاصل کرنے میں تو کوئی دشواری پیش نہیں آتی ، لیکن اسے قائم
رکھنے میں لانگ مارچ، دھرنوں اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راستے
میں سفر جاری رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے وقت کوئی بھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی
اور وہ اپنی منزلِ مقصود یعنی قصرِ شاہی کی جانب دوڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
باب آٹھواں
ان اشخاص کے بارے میں جو جرم کا ارتکاب کرکے بادشاہ بنے ہوں
خانگی حیثیت سے ترقی کرکے بادشاہ بننے کی دو صورتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک
بھی پورے طور پر شجاعت یا تقدیر کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ وہ دو صورتیں
یہ ہیں۔
ایک وہ جب بادشاہت شرارت اور ارتکابِ جرم سے برقرار رکھنے کا ہتمام کیا
جائے۔ مثال کے طور پر سپہ سالار کو ہوا میں ہی معلق رکھنے کی شرارت کرنا
اور اس کے قتل کا بندوبست کرناتاکہ اس طرح نہ صرف وہ سپہ سالار ہی راستے سے
ہٹے اور اپنی بادشاہت مضبوط ہو بلکہ اس سپہ سالار کی جگہ اپنی پسند کا کاٹھ
کا الو لاکر بٹھا دیا جاسکے۔
دوسری صورت یہ ہے جب کوئی شخص ہوا میں معلق ہو اور دوسرے شہریوں اور
سپاہیوں کی عنایت سے بادشاہ بنے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ جو
کوئی ان مثالوں کو دیکھنا چاہے گا اس کے لیے مختصر سا ذکر بھی کافی ہے۔
۔۔۔ ۔
ابھی اتنا ہی پڑھ پائے تھے کہ ہماری آنکھ کھل گئی اور ہم نے شیلف سے فورا ً
نکولو میکیا ولی کی ‘‘پرنس’’ نکالی اور باب اٹھارہ کا مطالعہ شروع کردیا۔ |
|