اُردو ادب اور بر صغیر کے کلچر
میں خط بازی نے ہمیشہ ”رولا پایا“ ہے! شُعراءنے خط لکھنے اور بھیجنے سے
متعلق ہر صورتِ حال سے بھرپور حِظ اُٹھایا ہے اور ہم سب کی دل بستگی کا خوب
خوب سامان کیا ہے۔
اُردو شعراءکے دواوین کھنگالیے تو خط لکھنے کے نام پر نُکتہ سنجی کے ریکارڈ
قائم کئے گئے ہیں! خط کے پیرائے میں انسانی نفسیات کے گوناگوں خطوط کی نقاب
کشائی فرمائی گئی ہے! آج بھی لوگ پڑھتے ہیں اور سَر دُھنتے ہیں۔
مِرزا غالب بضد تھے کہ کِسی جواز کے بغیر بھی خط لکھیں گے۔ اُنہوں نے یہ
ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب کوئی کسی پر عاشق ہو جاتا ہے تو پھر جواز و عدم
جواز کا معاملہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!
اور خیر گزری کہ غالب کے لکھے ہوئے خطوط کا مطلب لوگ سمجھ نہ پائے۔ نہ
سمجھنے پر یہ حال ہے تو سمجھنے پر کیا ہوا ہوتا!
خط کا جواب آئے تو مصیبت، نہ آئے تو مصیبت۔ قاصد الگ پریشان۔ غالب نے خدا
جانے خط میں کیا لکھ دیا تھا کہ نامہ بر غائب ہوگیا! اور پھر اُنہیں مکتوب
الیہ سے کہنا پڑا۔
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم!
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے!
اور اگر خط غیر کے ہاتھ لگ جائے تو؟
غیر پھرتا ہے لئے یوں تِرے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے!
داغ دہلوی کو اِس بات کی فکر لاحق رہتی تھی کہ محبوب کے خط میں نیا سلام
کِس کا تھا! غلام علی نے خاصے مخصوص انداز سے گاکر شِِعر اور داغ کے محبوب
کو مزید مشکوک بنادیا!
تمہارے خط میں نیا اِک سلام کِس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کِس کا تھا!
خط کے جواب کا اِنتظار بھی اردو شاعری میں خوب بیان ہوا ہے۔ اور اگر جواب آ
جائے تو سمجھ لیجیے عید ہوگئی۔ مگر ہر جواب عید کا موجب نہیں بنتا تھا۔
مثلاً
خط کے پُرزے ہیں دستِ قاصد میں
ایک کیا، سو جواب لایا ہے!
اردو شاعری کے گل زاروں اور خار زاروں میں شروع ہونے والا خط کا سفر اب
اسلام آباد کی منزل تک آ پہنچا ہے۔ ایک خط نے ایسا ”رولا پایا“ ہے کہ اب
سیاسی استحکام کا مدار خط کے لکھنے، نہ لکھنے پر ہے!
پاکستانی فلم انڈسٹری کے سُنہرے دور میں ریلیز ہونے والی فلم ”دوستی“ میں
شبنم نے نور جہاں کی زبانی اعجاز سے کہا تھا۔
چِٹّھی ذرا سیّاں جی کے نام لِکھ دے!
سر دست یہی کیفیت ہماری عدلیہ اور حکومت کے درمیان بھی پائی جارہی ہے۔ سوئس
حکومت کو خط لکھنے کی عدالتی فرمائش پوری نہ کرنے پر یوسف رضا گیلانی وزیر
اعظم کے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور اب لگتا ہے راجہ پرویز اشرف کی باری
ہے۔ کبھی کبھی کوئی خط غلط ہاتھوں میں پہنچ جائے تو قیامت ڈھانے لگتا ہے۔
اور یہاں حالت یہ ہے کہ ایک خط ہے کہ جو لِکھے جانے سے پہلے ہی گُل کِھلانے
پر تُلا ہوا ہے!
مرزا تنقید بیگ آج کل ہندی چینلز بہت دیکھتے ہیں اِس لیے اُن کی گفتگو میں
ہندی بھاشا اور ہندی چینلز کا انداز گفتگو بس گیا ہے۔ ہم نے عدالت کے حکم
اور سوئس حکومت کے نام خط کا ذکر کیا تو مرزا بولے ”میں بھی اِس خط کو لیکر
بہت پریشان ہوں۔“ ہم حیران رہ گئے کہ جو خط ابھی وزیر اعظم نے لکھا ہی نہیں
وہ مرزا تک کیسے پہنچ گیا! ہم نے پوچھا کہ وہ خط آپ تک کیسے پہنچا تو وضاحت
کی مد میں فرمایا ”ارے یار! ہندی میں اِسی طرح بولتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ
خط کی وجہ سے میں بھی بہت پریشان ہوں۔“
اِس ایک خط نے قومی سیاست کا خط بنا ڈالا ہے! جس طرح کلاسیکل گانے والے
گھوم پھر کر ’نا دِر دِھنّا“ پر آ جاتے ہیں بالکل اُسی طرح ہماری سیاست میں
بھی بات کہیں سے چلے، خط پر پہنچ کر دم لیتی ہے۔ کِسی کی سمجھ میں نہیں آیا
کہ وزیر اعظم کو اب کیا کرنا چاہیے۔ ہمارا محتاط اندازہ ہے کہ راجہ پرویز
اشرف خط لکھیں گے یا نہیں، اِس پر اب تک کروڑوں روپے کا سَٹّہ لگ چکا ہوگا!
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے اندازے کو محض کروڑ کی منزل میں پھنسا ہوا
دیکھ کر کوئی ہماری ذہنی پس ماندگی کا ماتم کرے! ویسے خود راجہ پرویز اشرف
کے لیے یہ معاملہ نِرا جُواءہے! یہ تو سَر مُنڈاتے ہی اولے پڑے والا معاملہ
ہے۔ ابھی تو اُنہوں نے ڈھنگ سے وزیر اعظم ہاو ¿س کے ایک ایک گوشے کو دیکھا
بھی نہیں ہے، در و دیوار کو دِل کی بات بتائی بھی نہیں ہے اور قانون کے
تقاضے اُن سے کِھلواڑ پر تُل گئے ہیں!
ہمارے ہاں اگر نوجوان خط لِکھ بیٹھیں تو قابل گردن زدنی ٹھہرتے ہیں! ذرا سا
خط پورے گھرانے، بلکہ خاندان کی رُسوائی کا سبب بن جایا کرتا ہے! اور دوسری
طرف عدلیہ کی فرمائش ہے کہ سوئس حکومت کو خط لکھا جائے۔ کم از کم اِتنا تو
دیکھنا ہی چاہیے کہ یوسف رضا گیلانی کی طرح راجہ پرویز اشرف کی بھی اب خط
لکھنے کی عمر نہیں رہی! اور اگر کہیں اُنہوں نے خط لکھا اور غلط ہاتھوں میں
پہنچ گیا تو؟ عام طور پر خط کو ملاقات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر یہ کیسا
خط ہے جس کے لِکھنے یا نہ لِکھنے پر (ہر دو صورتوں میں) برطرفی سے ملاقات
طے ہے؟
باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ خط کی چوکھٹ پر قربان کرنے کے لیے صدر زرداری نے
بکرے تیار کر رکھے ہیں۔ عدلیہ اپنی وضع بدلنے تو تیار نہیں تو صدر زرداری
بھی اپنی خُو سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔ قوم عید الفطر کی تیاریاں کر
رہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ مقتدر قوتیں حکومت کے لیے عید الاضحیٰ کا
اہتمام کرنے پر کمر بستہ ہیں!
راجہ پرویز اشرف کیا نہیں جانتے ہوں گے کہ اُن کی چند روزہ وزارتِ عُظمٰی
کا انجام کیا ہوگا؟ مگر خیر، اِس قیمت پر بھی مِلے تو وزارتِ عُظمٰی کیا
بُری ہے؟ غالب نے کہا ہے نا کہ
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے!
راجہ پرویز اشرف بھی سوچتے تو ہوں گے کہ اگر چٹّھی سیّاں کے نام لکھنے کی
فرمائش ہوتی تو وہ کب کی پوری کردیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ چٹّھی سیّاں جی کے
خلاف لکھنے کو کہا جارہا ہے! اور اگر کوئی ایویں ای ٹائپ کے سیّاں جی ہوتے
تو کوئی بات بھی تھی۔ سیّاں وکھری ٹائپ کا ہو تو سجنی کو بغاوت سے پہلے دس
بار سوچنا پڑتا ہے! اور پھر وزیر اعظم کا منصب! اِتنے بڑے منصب پر بیٹھنے
والے سے ”طوطا چشمی“ اور ”نمک حرامی“ کی اُمید رکھنا؟ یار لوگ قانون کی
بالا دستی نہ ماننے کا الزام سہہ سکتے ہیں، پارٹی سے نمک حرامی کا طوق اپنے
گلے میں لٹکانا پسند نہیں کریں گے! اُصولوں کی سودے بازی تو ہوسکتی ہے،
اُصولوں پر سودے بازی نہیں کی جاسکتی! |