کراچی ایک زمانے میں پورے ملک کی
سیاسی ،سماجی ،تہذیبی اورمعاشی صورت حال کی صورت گری میں کلیدی
کرداراداکرنے کے منصب پرفائز تھا۔وہاں دلوںمیں جذبوں کی جوت جگادینے والے
مشاعروں کاانعقاد معمول تھا ۔بانجھ ذہنوں میں شعور کی فصل بونے والے سیاسی
مباحثوں میں متنوع افکار کی فراوانی تھی ۔دیسی وبدیسی ثقافت کے درمیان فرق
سمجھانے والے دانشوروں کی نکتہ آفرین محفلوں کی دھوم تھی ۔وہاں آرٹ کی ان
گنت جہتیں، ادب کے بے شمار زاویئے، ثقافت کے بے شمار رنگ، سیاست کے ان گنت
پہلو اور امن کے بے شمار روپ جلوہ فرما تھے۔اس شہر میں لاکھوں انسانوں نے
معیشت کے داﺅ پیچ سیکھے ، تہذیبی قدروں سے آشنائی کاشعورپایااور ثقافتی
سرگرمیوں کی ترویج میں سرگرم کرداراداکیا۔اس زمانے میں کراچی کاچہرہ اپنے
تمام ترثقافتی ،سیاسی،سماجی،تہذیبی اورادبی خدوخال کے ساتھ روشن
ترتھا،جوپورے ملک کی مجموعی صورت حال کا آئینہ دار تھا۔اسے اسی وجہ سے پورے
عالم میں عروس البلاد کے نام سے پکاراجاتاتھا۔اس شہرنے جون ایلیاجیسے شاعر
کے کلام میں تابناکی بخشی ۔ حکیم سعید جیسے ہمدرد کے دل میں دردکی جوت
جگائی ۔عبدالستارایدھی جیسے انسان کے ذہن پرخدمت خلق کی راہیں منورکیں ۔
اردشیر کاﺅس جی جیسے بے باک صحافی کی تحریروں میں چمک عطاکی۔پروفیسر
غفوراحمدجیسے سیاستدان کومثالی سیاست کے ہنرسکھائے۔ احمدشاہ نورانی جیسے
جیدعالم دین کے علم میں بے پناہ وسعت عطاکی۔کراچی ان دنوں مزدروں ،محنت
کشوں ،بے روزگاروں،ہنرمندوں ،ادیبوں ،تاجروں ،صحافیوں اورسرمایہ کاروں کی
امیدوں کامرکزبن کران کی آرزوﺅں کی تکمیل کرتارہالیکن دوعشروں سے اس
پرنحوست کے سائے پھیلے ہیں جنہوں نے اس کی روشنیوں کونگلناشروع کررکھاہے،اس
کاروشن چہرہ بدترین حالات کی وجہ سے سرخی مائل سیاہی میںڈوبتاجارہاہے
اوراسے زمانے بھرمیں گینگ لینڈکے نام سے پکاراجارہاہے ۔
یہاں ان دنوں مشاعروں میں سحرانگیزکلام پھونکنے والے شعراءکی بجائے گولیوں
کی ہلادینے والی آوازیں بلندہوتی ہیں ۔شعور کوجلابخشنے والے سیاسی جلسوں کی
بجائے مختلف النوع نعروں کی گونج میں سڑکیں پرآمدورفت معطل کرنیوالوں کی
بہتات ہے ۔ٹریفک جام اس شہرکی ثقافت کاسب سے بڑا مظہربن چکاہے جس سے لاکھوں
افراد اس میں پھنس کرنہ گھر کے نہ کام کے کہیں کے نہیں رہتے۔یہاںان
دنوںبھتہ خوروں ،قبضہ گیروں ،منیشات فروشوں ،ناجائز اسلحہ کے بیوپاریوں ،
کرائے کے قاتلوں ،بلیک میلروں ،دہشت گردوں اورہرنوع کے سماج دشمن افراد
کاسکہ چلتاہے۔یہاںچار سو انتہاپسندی ہے،تعصب کی فراوانی ہے ،لسانی گروہ
بندی ہے ،فرقہ واریت ہے،قتل وغارت گری ہے ،دہشت گردی ہے ،ٹارگٹ کلنگ ہے ،بے
روزگاری ہے ،غربت ہے،افلاس ہے،معاشرتی اونچ نیچ کے ان گنت مظاہرہیں۔بینک
ڈکیتیاں یہاں کامعمول بن چکی ہیں ،گاڑیوں کی چوری یہاں نئی بات نہیں،پیدل
چلنے والوں کوراہزنوں سے لٹنے کاہرلمحہ دھڑکالگارہتاہے ،پبلک ٹرانسپورٹ کے
مسافروں کے لٹنے کی وارداتیں عام ہیں۔کراچی میں سرعام دندنانے والے مجرموں
کوگرفت کاکوئی خوف نہیں لیکن شہریوں کو لٹنے ،قتل ہونے اورزخمی ہونے کاخوف
ہروقت دامن گیررہتاہے ۔کراچی میں ان مجرمانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں روزانہ
دس بارہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھوکر گھروں میں صف ماتم بچھارہے ہیں۔
ان جرائم میں کمی آنے کی بجائے اس کے کئی اورروپ بھی سامنے آرہے ہیں
اورسماج دشمن عناصر اپنی کاروائیوں میں شدت لانے کے لئے اب بم دھماکوں
کوبھی استعمال شروع کرچکے ہیں ۔ ریڈزون میںدھماکہ خیزمواد پھٹنے کے مناظران
جرائم پیشہ افراد کی دیدہ دلیری اورقانون کی بے بسی کامنہ بولتاثبوت ہے
۔گزشتہ مہینے میں چینی قونصل خانے کے باہردھماکوں کاواقعات ،رینجرز پرحملے
کے تین چارواقعات ،سمیت 160 کے قریب افراد قتل وغارت گری کی اس حالیہ
لہرکانشانہ بن چکے ہیں۔کراچی کی اس ناگفتہ صورت حال پرصوبائی حکومت نے ا ن
سماج دشمن عناصر پر اسی روایتی انداز میںگرفت کرنے کے احکامات دیئے ہیں
جیسے احکامات گزشتہ دوعشروں کے درمیان آنے والی تمام حکومتیں دیتی رہی
ہیں۔ایسے معلوم ہوتاہے موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی پیروی میں چلنے
پرقانع ہوچکی ہے ۔پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کاکرداراداکرنے والے
شہرکوقبرستان میں تبدیل کیاجارہاہے لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے کوئی ایسے
اقدامات نہیںکئے جارہے جوقتل وغارت گری کی اس لہرکوروک سکیں۔
کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے موت بانٹتے قاتلوں کے جتھوں کونکیل
ڈالنے کے معاملہ میں اپنی ہار مان چکے ہیںاور اپنی ناکامی کو سیاسی مداخلت
،وسائل کی کمی اورنفری کی عدم دستیابی سے تعبیر کرتے ہیں ۔قانون نافذ کرنے
والے ان اداروں میںموجود افسران اوراہلکاران کی اکثریت ان بے لگام قاتلوں
کی دسترس پروحشت زدہ ہے ۔پولیس کے محکمہ میں تویہ تشویش باقاعدہ ایک خوف کی
صورت اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ پولیس کے اہلکاروں کوبھی ان قاتلوں کی
موت اگلتی بندوقوں کانشانہ بنایاجارہاہے ۔محکمہ داخلہ سندھ کی اپنی رپورٹ
کے مطابق ان کے قاتلوں نے گزشتہ چارسال کے دوران کراچی میں 255 افسران
واہلکاران اور127 پی پی کارکنوں سمیت 3606 افرادٹارگٹ کلنگ میں ہلاک کئے
۔ان افراد میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی شامل ہیں جن میںمتحدہ قومی
موومنٹ کے 305 ،حقیقی کے 137 ،اے این پی کے 154 ، کالعدم سپاہ صحابہ کے 72
اوراہل تشیع کے 52 شامل ہیں جبکہ روااں سال 2012 ءکے ابتدائی تین ماہ کراچی
کے عوام کے لیے سب سے خونی ثابت ہوئے جس میں 13 پولیس اہلکار وافسران شامل
ہیں۔پیپلزپارٹی کے 5 ،متحدہ قومی موومنٹ کے 16 ،اہل تشیع 9 ،سپاہ صحابہ 6
،اے این پی 8 اورحقیقی کاایک کارکن قتل ہوا۔گزشتہ سال 2011 ءسب سے زیادہ
خونی سال ثابت ہواجس میں 1724 افرادکوٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاگیاجن میں
پولیس افسران واہلکار 88 ،پیپلزپارٹی کے 42 ، مسلم لیگ نواز کے 4 ،مسلم لیگ
قائدکاایک ،پی پی آئی 2،فنکشنل کاایک ،جسقم 3 ،جے یو آئی (ف)3 ،جماعت
اسلامی 2 ،دعوت اسلامی 2 ،اے این پی 39 ،حقیقی 21 اورمتحدہ قومی موومنٹ کے
103 کارکنوں کوٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاگیا۔کراچی کی یہ تشویشناک صورت حال
دوررفتہ کے بیروت کامنظرپیش کررہی ہے ۔ صدرمملکت ،وزیراعظم اوروزیرداخلہ اس
شہر کی صورت حال پرآئے دن اجلاس طلب کرتے ہیں اور میڈیامیں نشرہونے کے لئے
بیانات جاری کرتے ہیں جن میں قاتلوں کے ساتھ کوئی رورعایت روانہ رکھنے کے
عزم کودہرایاجاتاہے لیکن دوسرے دن پھرکسی سڑک پرپڑی لاشیں ان کے ان بے
ثمرعزائم کی قلعی کھول دیتی ہیں۔صوبائی انتظامیہ کے بڑھک باز ہرروز کسی
خونی واردات کے بعد اس میں ملوث افراد کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے
کااعلان کرتے ہیں لیکن اگلے دن اپنے ہدف کے پیچھے بھاگتے شارپ شوٹران کے
اعلانات کی بے وقعتی نمایاں کردیتے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ ختم ہونے کی بجائے اس
کی شرح میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ
جنگل کے قانون کی تشبیہہ شاید کراچی کے حالات پرہی منطبق کرنے کے لئے وجود
میں آئی تھی ۔
کراچی کے شہریوں پرایک اورعذاب منشیات فروشوں نے بھی مسلط کررکھاہے،منشیات
فروشی کے اس کاروبارمیں بھی کمی آنے کی بجائے اضافہ روزافزوں ہے ،ہسپتالوں
،تعلیمی اداروںاورجیلوں کے درواز ے ان بااثر منشیات فروشوں پرچوپٹ کھلے
ہیں، کالونیوں ،بستیوں اورٹاﺅنو ں میںان کاراج ہے ہی جسے کوئی چیلنج نہیں
کررہا۔ناجائزاسلحہ کی خریدوفروخت کاکام ریوڑیوں کی طرح ہورہاہے ،بھانت
بھانت کے آتشیںہتھیار دن رات بک رہے ہیں۔لاقانونیت کے ان مظاہرکودیکھ
کرایسے معلوم ہوتاہے کہ کراچی مجرموں،شہدوں،لفنگوں،بدمعاشوں،قاتلوں
،رہزنوں،چوروں اورڈاکوﺅں کی راجدھانی قرارپاچکاہے۔انڈین فلموںمیںپیش کئے
جانیوالے بمبئی کے غنڈوں جیسی وضع قطع کے حامل مجرم آزاد پھررہے ہیں جبکہ
دانشوروں،وکیلوں ،عالموں ،تاجروں ،محنت کشوں اورشہریوں کوہرلمحہ کسی انہونی
کاخدشہ لرزہ براندام رکھتاہے ۔اپنی جان،اپنے مال اوراپنی عزت کے تحفظ کی
فکر میں مبتلا دوکروڑ شہریوں کوکوئی ایسادکھائی نہیں پڑتاجوان کے دنوں
کواطمینان اورراتوں کوسکون کے بنیادی حق کی ضمانت دے سکے۔
تاریخ کے اوراق میں اپنے کردار پرکڑھتے سابقہ حکمرانوں کی طرح گزشتہ ساڑھے
چاربرس میں موجودہ حکمران بھی کراچی کے شہریوں کوعزت ،جان اورمال کے تحفظ
کوفراہم کرنے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے ۔قبائلی علاقوں،کراچی
اوربلوچستان میں انسانی خون کی ارزانی کی اس تکلیف دہ صورت حال نے لوگوں
کااعتماد جمہوری اداروں پرسے متزلزل کرناشروع کررکھاہے۔ملک میںجاری جمہوری
نظام اورسیٹ اپ پرسے لوگوں سے اٹھتاہوایہ اعتماد جمہوریت پسندوں کے لئے
انتہائی تشویش کاباعث ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں چہل قدمی کرتی ان
جمہوری قوتوں کو لوگوں کی یہ بیزاری نہ جانے کیوں نظر میں نہیںآرہی ؟حکمران
دن رات جمہوریت کاوردتو باقاعدگی سے کرتے رہتے ہیں لیکن جمہور کے ذہنوںمیں
رونماہونے والی اس بداعتمادی سے بے خبرہیں اورانہیں جمہوریہ کی بنیادوں
کوکھوکھلاکردینے والی ان کاروائیوں کے انسداد میںکوئی دلچسپی نہیں جنہوں نے
لوگوں کے شب وروز کواذیت میں لپیٹناشروع کررکھاہے ۔
وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر کراچی میںبدامنی ،غارت گری اوردہشت گردی کی ان
بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے متعددصنعتی اورتجارتی ادارے اپنے
کاروبارسمیٹ کرکہیں اورڈیرے لگاچکے ہیں۔دوسرے ممالک کے سرمایہ کار یہاں
سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں توکھلاڑی یہاں کھیل کے میدانوں میں اترنے سے
گھبراتے ہیں ۔ یہاں پرہونے والی جرائم پیشہ افراد کی بدامنی ،تشدد،ماردھاڑ
پرمبنی کاروائیوں نے اندروں ملک وبیرون ملک دنیابھرمیں ایسا منفی تاثرقائم
کردیاہے کہ کراچی کانام سنتے ہی لوگوں کے ماتھے پرپسینے کی بوندیں چمکنے
لگتی ہیں۔کراچی میں پھیلی اس لاقانونیت کے اثرات پوری ملک کی تجارتی ،صنعتی
اورکاروباری سرگرمیوں پرمرتب ہورہے ہیں ۔ ملک کی معیشت کی شہ رگ پرگڑے
بدامنی نے اس خونی ہاتھ کے نتائج غیرملکی سرمایہ کاری میں شدید کمی کی صورت
میں سامنے آرہے ہیں ۔غیرملکی سرمایہ کار کراچی کے نام سے بدکتے ہیں تومقامی
سرمایہ یہاں سے فرارہوکر دوسرے ممالک کارخ کرنے پرمجبورہوچکے ہیں۔ عالمی
ادارہ صحت نے پولیوکے خلاف اپنی حالیہ مہم روک کراس شہر کے دگرگوں حالات
پرتصدیق کی مہر ثبت کردی ہے ۔کاروبار،امن اورروزگارکے دن بدن معدوم ہوتے
ہوئے مواقع پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ان گنت خدشات کوجنم دینے کاموجب
بن رہے ہیں۔پاکستان کے شہری ایک بارپھرکراچی کے حالات پرقابو پانے کے لئے
پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت سے ان کے سابقہ دور میں کئے جانیوالے
آپریشن کلین اپ کی طرز پرنئے عملی اقدامات کامطالبہ کررہے ہیں ۔جموریت سے
اٹھتاہوا لوگوں کا اعتمادبحال کرنے کے لئے جمہوری راستوں سے
برسراقتدارآنیوالی موجودہ حکومت کوبھی اس صورت حال کوسیاسی چپقلش کاشاخسانہ
قراردے کرپہلوتہی کارویہ اختیارکرنے کی بجائے معروضی حقائق کومدنظر رکھ
کربروئے کارآناچاہئے۔سیاسی مفادات کے عارضی ٹہنیوں پربنائے گئے آشیانے
کومقام سکونت سمجھنے کی بجائے اپنے آئندہ سیاسی سفر کومحفوظ ،مقبول
اورکامیابی سے محمول بنانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے ۔ سیاسی
کارکنوں ،عالموں ،وکیلوں ،ڈاکٹروں ،دانشوروں ،صحافیوں اورسرکاری اہلکاروں
کے پیچھے بھاگتے شوٹروں کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کا ثبوت بیان بازی
کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے دیناچاہئے اورکراچی کووہ سکون واپس
لوٹاناچاہئے جس کی تڑپ حارث خلیق کی”عافیت کی تلاش میں “کے عنوان سے اس نظم
میںنظرآتی ہے۔
کراچی
ایک زخمی ،بے خانماں برباد کچھوا
جس کے سب بازو
تھکن سے ،بے بسی سے
شل ہوئے ہیں
جہاں بھرکے دکھوں کابوجھ اٹھائے
بہت ہلکان
خشکی پرپڑاہے
اب اپنے آنسوﺅں سے
زخم بھرناچاہتاہے
جوانڈے بچ گئے ہیں،وہ سنبھالے
سمندرمیں اترناچاہتاہے ۔ |