علم سیاست کے مطابق لیڈر دو طرح
کے ہوتے ہیں اول وہ لوگ جو پیدائشی طور پر ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں
جن کی بنا پر وہ ایک نظریہ اور اصول واضح کرتے ہیں اور پھر اس نظریے اور
اصول کی بنا پر لوگوں کی راہنمائی کرتے ہوے انھیں ایک قومی پلیٹ فارم میں
جمع کرتے ہیں۔ نظریے اور اصولوں کی بنیاد پر قائم پلیٹ فارم سے ہی ایک لیڈر
قوم کی راہنمائی کرتا اور انھیں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
ابرہام لنکن، قائد اعظم ، ماوزے تنگ، ابن سعود ، مارشل ٹیٹو، ڈیگال اور
امام خمینی جیسے شخصیات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح ایک منتشر جنگ
زدہ اور معاشی اور سیاسی لحاظ سے شکست خوردہ معاشرے اور ریاست کو ان لیڈروں
نے ایک نظریے اور اصول کے تابع ایک نئی پہچان دے کر ترقی اور خوشحالی کے
ساتھ ایک نئی راہ پر گامزن کیا۔ دوسری قسم کے لیڈر وہ ہوتے ہیں جنھیں عوام
آگے لاتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کی بنا پر انھیں اپنا قائد اور راہبرتصور
کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں اس کی مثالیں جناب ذولفقار علی بھٹو ، لیخ ولیسائ،
اور نیلسن مینڈیلا کی ہیں۔ انھیں عوام نے لیڈر تو مانا مگر وہ ناکام
رہے۔موجودہ دور میں روس کے صدر پوٹن ، ایران کے احمدی نژاد ، ترکی کے طیب
اردگان ، ملائیشاءکے مہاتیر محمد ایسے لیڈروں میں شمار ہیں جنھوں نے اپنی
قوم کو معاشی سیاسی اور نفسیاتی دباﺅ سے نکال کر امن اتحاد اور خود داری سے
جینے اور ترقی کرنے کا حوصلہ دیا ہے ۔ سیاسی مفکرین نے لیڈر شپ پر جو کچھ
لکھا ہے اس کے مطابق جناب آصف زرداری ، نوازشریف، عمران خان اور دیگر کسی
ایک خوبی کے مالک بھی نہیں کہ انھیںقومی لیڈر کہا جاے ۔ایم کیوایم، جمعت
علماءاسلام(ف)، مسلم لیگ (ق)، جس کا موزوں ترین نام مسلم لیگ گجرات گروپ یا
چوہدری گروپ ہے۔ ہمیشہ ہی سے حکومتی اتحاد کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور اپنے اپنے
مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اے این پی کو پہلی مرتبہ مرکز تک رسائی
ملی ہے اور وہ بھی اپنے حصے کی بربادی کے ذمہ داروں میں شامل ہو گے ہیں۔ اے
این پی نے جو حشر پاکستان ریلوے کا کیا ہے اگر سارا پاکستان ان کی مٹھی میں
آ جاے تو اس کا حشر بھی ریلوے جیسا ہی ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی
میں خاموش مفاہمت چل رہی ہے۔جسکے گارینٹر امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب اور
عرب امارات کے شیوخ شامل ہیں۔
دیکھا جائے تو ایک طرف یہ ملک امیر ممالک کی گارینٹیوں پر چل رہا ہے جب کہ
دوسری طرف امیر بحر و بر جناب ملک ریاض اپنی مرضی کے حکمرانوں کا چناو کرتے
اور انھیں کرسی صدارت پر بٹھاتے ہیں۔ جس کا تذکرہ جناب چوھدری شجاہت نے
اپنے بیان میں کیا ہے۔ چوہدری شجاہت کے بیان میں صداقت کا شائیبہ اس لیے
ہوتا ہے چونکہ ان کے مشیر خاص جناب مشاید حسین سید نے اس بیان کی تردید
نہیں کی۔ ویسے بھی آج کل شاہ صاحب کو فرصت نہیں اور ”لٹو تے پھٹو “ والے
بیان پر وہ معافی در معافی مانگنے پر لگے ہوئے ہیں۔ جو ابھی تک انھیں نہیں
مل رہی۔ حسین حقانی کی تنزلی کے بعد شاہ صاحب کو امریکہ میں سفیر لگانے کا
پروگرام بھی شائد اس لیے کینسل ہوا ، ورنہ وہ شیری رحمن کی جگہ آپ ہوتے اور
اپنے ہاتھوں سے نیٹوسپلائی کا فیتہ کاٹتے۔
جناب ملک ریاض کی حمائت میں جناب چوہدری شجاعت نے جو مدبرانہ بیان جاری کیا
اورفرمایا کہ ملک صاحب کی سخاوت ، دریا دلی ، غریبوں سے محبت اور عوام
دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں نہ چھیڑا جائے ۔ملک صاحب کے پاس حکومتیں
بننے اور ٹوٹنے کے بہت سے راز ہیں جو اگل دیے جائیں گے تو بہت سے شرفاءننگے
ہو جائےں گے ۔ چوہدری صاحب کا بیا ن اس لحاظ سے ناقابل فہم ہے کہ اب کونسے
شرفاءباقی ہیں جنھیں ننگا نہیں کیا گیا ۔ جہاں تک حکومتیں ٹوٹنے اور بننے
کا تعلق ہے تو یہ بیان چوہدری شجاعت کا اعترافی بیان ہے جس سے ثابت ہوتا ہے
کہ اس ملک کے سیاسی نظام کو تلپٹ کرنے میں بھی ملک ریاض کا ہاتھ ہے۔ ملک
ریاض نہ تو کسی اعلی سرکاری عہدے پر فائز رہا ہے اور نہ ہی کسی ایجنسی اور
ادارے کا سربراہ رہا ہے جس کے پاس قومی اور ملکی معاملات کے حساس نوعیت کے
راز ہوں ۔ حکومتیں بنانا اور توڑنا بھی ایک جرم ہے اور عوام کی منشاءاور
مرضی کے خلاف ایک ایسا فعل ہے جس سے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہوتی
ہے۔اگر اس ملک میں واقعی ایک آئینی ، جمہوری اور قانونی حکومت ہوتی تو
چوہدری شجاعت کے بیان پر فوراً انکوری ہوتی اور ملک ریاض سے پوچھا جاتا کہ
انھیں ملکی اور حکومتی اداروں میں مداخلت کا کس نے حق دیا اور کسطرح آپ نے
حکومتیں گرانے اور بنانے کے راز حاصل کیئے۔
چوہدری شجاعت نے ملک ریاض کی سخاوت اور انسان دوستی کا بھی حوالہ دیا جو اس
فعل کی ضمانت دیتا ہے کہ آ پ اگر ہمت رکھتے ہیں تو رشوت اور سفارش کے ذ
ریعے یا پھر دھونس اور دھاندلی سے جسقدر لوٹ مار کریں وہ آپ کی ہمت ،
مردانگی اور قوت بازوں کی کمائی تصور کی جائے گی ۔ آپ دولاکھ لوگوں سے ان
کے گھر بار چھین لیں، جدی جائیداد وں پر قبضہ کر لیں ، پٹورخانے جلا دیں ،
سرکاری ملازمین کو رشوت کے ذریعے خرید لیں ، حکمرانوں ، سیاستدانوں اور
دانشوروں کے لیے عیش و عشرت کے سامان مہیا کریں اور قانون سے مبرا حیثیت
اختیار کرتے ہوئے جیسے چاہیں دولت کمائیں اور پھر پانچ دس ہزار غریبوں کو
اپنی کفالت میں لیکر حاتم طائی بن جائیں ۔ ہماری بد قسمتی کہ ہمارے ملک میں
آئین اور قانون کا احترام غریب اور بے بس پر لاگو ہے۔ مگر خوش قسمتی کہ
یہاں پر پانچ دس سال بعد نو دولتیوں کی لڑی میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور ایک
نیا ملک ریاض ، ایک نیا چوہدری شجاعت ، ایک نیا ملاں ، ایک نیا خان گھرانہ
وجود پذیر ہوتا ہے جو ایک ہاتھ سے لوٹتا اور دوسرے سے سخاوت کرتا ہے۔ وہ
دولت کے بل بوتے پر ملکی اور حکومتی رازوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور قانون
کو گھر کی لونڈی بنا لیتا ہے۔ وہ جب چائے حکومت بناتا اور جب چائے اسے
گرادیتا ہے۔ دانشور اس کے حق میں اور اس کی جانب سے کالم اور کتابیں لکھتے
ہیں اور قیمت وصول کرتے ہیں جبکہ ایک طبقہ پریشان ہے کہ آخر اس مرض کی دوا
کیا ہے۔ آمریت اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں اور سیاستدان اور حکمران
رشتہ داریوں اور مفاد پرستیوں کے بندھن میں بندھے ایک دوسرے کا خیال رکھتے
ہیں ۔ جمہوریت عوام کے لیے عذاب اور ممبروں اور وزیروں کی سہولیات اور
اخراجات پر خرچ ہوتا ہے اور باقی کرپشن کی نذر ہو تا ہے ۔ آمریت سستی
حکمرانی کانام ہے اس لئے تھوڑا بہت حصہ عوام تک بھی پہنچ جاتا ہے مگر مقبول
عام نظام نہیں اس لیے قابل احترام بھی نہیں ۔ یہ بھی بد قسمتی ہے کہ آمریت
بھی نقلی اور بد نسلی ہوتی ہے۔ جرنیل اکیلے نہیں آتے بلکہ مسلم لیگ بھی
ساتھ لاتے ہیں اور جاتے ہوئے کسی سیاستدان کے ہاتھ بیچ جاتے ہیں ۔
لاتڑ ھک اور حاضر جواب سیاستدان جناب شیخ رشید سے ملک ریاض کے متعلق پوچھا
گیا تو پہلے ان کی سپیڈ کم ہوئی ، پھر سوئی اٹکی اور پھر لمبی’ میں میں‘ کے
بعد بلٹ پروف گاڑی میں نے بھی استعمال کی اور پھر واپس کر دی۔ ملک ریاض
کتنے دیالوہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ملک ریاض
ناخواندہ ہیں اور جناب آصف علی زرداری پی ایچ ڈی ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان
اس سے بھی دو فرلانگ آگے اور میٹراونچے ہیں ۔ جناب صدر محترم کی سیاسی
بصیرت جہاں ختم ہوتی ہے،وہی سے مولانا کا تدبر شروع ہوتا ہے۔ چانکیا،
میکاولی ، ٹائن بی، روسو اور ھیگل اگر اس دور میں ہوتے تو یقےنا ملک ریاض
کے کسی میڈیااےگزےکٹولانج میںرہائیش پزیر ہوتے اور ملک صاحب کی دی ہوئی بلٹ
پروف گاڑٰیوںمیںگھومتے پھرتے ، ملک صاحب کے نام سے کالم اور کتابیں لکھ کر
معقول معاوضہ بھی کماتے۔ ماضی کے یہ مفکر اس لحاظ سے بھی بد قسمت ہیں کہ
انھیں مولانا فضل الرحمن جیسا استاد اور گورو میسر نہ ہوا۔ سیاسی بصیرت اور
تدبر کا موازنہ کیا جاے۔ تو ملک میں موجود تین عالی دماغوں میں ملک ریاض کا
پہلا ،جناب مولانا فضل الرحمن کا دوسرا اور جناب آصف زرداری کا تیسرا ہے۔
حالیہ سکینڈلز سے ثابت ہوا ہے کہ ملک ریاض کو صدر مملکت تک رسائی ہے اور
صدر صاحب ملک ریاض کی کسی بھی خواہش اور فرمائش کو رد نہیں کر سکتے جبکہ
ملک ریاض کے دست شفقت کے وسیع ساے میں مولانا کو وجود فٹ نہیں آیا اور نہ
ہی ملک ریاض کے کسی فائل اور فولڈر پر مولانا کا نام لکھا پایا گیا ہے۔ ملک
صاحب کا مولانا کے حجرے تک رسائی کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک
زرداری سب بھاری کی اصلاح لغو اور بے معنی ہے۔ میرے ایک جاننے والے کا کہنا
ہے کہ ابھی تک اس سائیز کا شیشہ ایجاد نہیں ہوا جس میں مولانا کو اتارا جا
سکے اس لیے شیشے میںاتارنے کی اصطلاح بھی غلط ثابت ہوئی ہے۔ مولانا کو ملک
ر یاض کی شائد ضرورت اس لیے بھی نہیں تھی چونکہ ان کے پاس اعظم سواتی جیسا
فنانسر موجود تھا جو اب عمران خان کی محفل کو سجا رہے ہیں۔
جو دانشور اور کالم نگار جناب آصف علی زرداری کی سیاست اور فراست کے گیت
گاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ جناب آصف علی زرداری نہ تو لیڈر ہیں اور نہ
ہی سیاست دان۔ لیڈری اور سیاست حکومت پر قبضہ کرنے اور محلاتی سازشوں کے
زریعے اقتدار کو طول دینے کا نام نہیں ۔ سیاست نظریات پر قائم رہ کر حکومت
حاصل کرنے اور ایسی پالیسیاں اپنانے کا نام ہے جس سے عوام الناس کا نظریات
پر یقین پختہ ہو اور وہ سیاست دانوں کی سیاسی بصیرت اور نظریاتی اصولوں پر
مبنی پالیسیوں سے فیض یاب ہو کر ریاست کے اندر خوشحال زندگی گزارے۔ جس شخص
کی سیاسی بصیرت اپنی حلقہ احباب تک محدود ہو اور جس کی پالیسیاں عوام کے
بجائے ایک مخصوص طبقے کے مفاد پر مبنی ہو وہ سیاست دان نہیں ہو سکتا اگر
ہمارے دانشور اور دیگر سیاست دان جناب آصف علی زرداری کو ان کی چانکیہ نیتی
اور جوڑ توڑ کی مہارت پر انھیں بڑا لیڈر اور سیاست دان کہتے ہیں تو یہ تصور
بذات خود ان کی دانشوری اور سیاسی سوچ پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر طمعہ اور ہوس
کے مارے ہوے لوگوں پر قومی خزانہ لوٹانے ، ان کی دستردس میں قومی ادارے
دیکر انھیں تباہ اور برباد کرنے اور نااہل اور نیم خواندہ لوگوں کو اہم
قومی اداروں کا سربراہ بنا کرانھیں لوٹ مار کرنے کا اختیار دینے کا نام
لیڈری اور سیاست ہے تو اس سے بدرجہا بہتر سیاست دان اور لیڈر ملک ریاض ہے۔ |