احکام ومسائل اعتکاف

اعتکاف بناہے عَکف جسکامعنی ہے ٹھہرنایاقائم رہناجبکہ اصطلاح شرع میں اس سے مراداللہ پاک کے گھرمیں عبادت کی نیت سے ٹھہرنے کوشرعی اعتکاف کہاجاتاہے۔حقیقی اعتکاف یہ ہے کہ ہرطرف سے یکسوہوکراورسب سے منقطع ہوکراللہ تعالیٰ سے لَولگاکے اس کے درپرمسجدکے کونہ میں بیٹھ جائے اورسب سے علیحدہ تنہائی میں عبادت اس کے ذکروفکرمیں مشغول ہوجائے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کاایک ایسا طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیاسے لاتعلق ہوکراللہ پاک کے گھرمیں صرف اللہ پاک کی یادمیں متوجہ ہوجاتاہے۔معتکف اپنے عمل سے ثابت کرتاہے کہ میں نے حالت حیات ہی میںاپنابال بچہ اورگھربارسب کوچھوڑدیاہے اورمولاٰ!تیرے گھرہی میں آگیاہوں یہ قاعدہ قانون ہے کہ اگرگھروالاکریم اورعزت والاہوتووہ ضرورہراس شخص کی عزت واکرام کرتاہے جواسکے گھرمیں آئے خواہ وہ دشمن کیوں نہ ہو۔بھلاجوارحم الراحمین جوسب داتوںکاداتاہے خالق کائنات مالک ارض وسماوات ہے اسکے گھرمیں کوئی مسلمان جاکرپناہ لے تووہ کریم ذات اسکاکس قدراکرام فرمائیگا۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں
1۔ اعتکاف واجب
2۔ اعتکاف سنت
3۔ اعتکاف نفل

اعتکاف واجب وہ ہوتاہے جوکوئی شخص کسی کام کے پوراہوجانے کے لئے مانے یعنی نذرمانے اسکی مدت کم ازکم ایک دن اورایک رات ہے اس میں روزہ رکھناشرط ہے نذرپوری ہوجانے کے بعداس شخص پراعتکاف کااداکرنالازم ہوجاتا ہے۔

اعتکاف سنت وہ اعتکاف ہے جوماہ ر مضان کے آخری دس دنوں میں کیاجاتاہے۔اس کے لئے روزہ شرط ہے یہ سنت کفایہ ہے یعنی اگربستی میں ایک مسلمان نے اس سنت کواداکرلیاتوسب کیطرف سے اداہوجائے گااورسب بستی والوں کوثواب ملیگا۔اگربستی میں کسی ایک شخص نے بھی اعتکاف نہ کیاتوپوری بستی گناہ گارہوگی۔لہذاہم سب مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وقت آنے سے پہلے کسی کواعتکاف کرنے کے لئے تیارکریں ۔جوشخص اعتکاف کررہاہے وہ پوری جماعت کی طرف سے نمائندہ کی حثیثت سے بیٹھااعتکاف کررہاہوتاہے ۔اُسے چاہیے سب مسلمانوں کے لئے دعاکرے اور اہل علاقہ کوبھی چاہیے وہ اپنے نمائندہ کی ہرطرح سے خدمت کریںسب مل کراسکی ضروریات کھانے پینے کاانتظام کریں اس کے کاروباروغیرہ کی حفاظت کریں۔

اعتکاف نفل وہ ہوتاہے کہ جب مسلمان مسجدمیں داخل ہوتواعتکاف کی نیت کرے اسکی کوئی مدت اورکوئی وقت مقررنہیں اورنہ ہی اسکے لئے روزہ شرط ہے۔اعتکاف کی نیت سے جتنی دیرمسجدمیں رہے گااسکوثواب ملتارہیگااوراس کے لئے وہ کام جائزہوجائے گاجواعتکاف کی نیت نہ کرنے والے پرجائزنہیںجیسے کھاناپینا،سوناوغیرہ۔

اعتکاف کارکن اعظم
اعتکاف کارکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجدکی حدودمیں رہے اورضروری حاجت کے سواایک لمحے کے لئے بھی مسجدکی حدودسے باہرنہ نکلے کیونکہ اگرمعتکف ایک لمحے کے لئے شرعی ضرورت (جیسے پاخانہ ،پیشاب وغیرہ)کے بغیرحدودمسجدسے باہرچلاجائے تواس کااعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی طرح بہت پرانی ہے۔اللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے۔ترجمہ! اورہم نے ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کوتاکیدکی کہ میراگھرخوب صاف ستھرارکھناطواف کرنے والوں ،اعتکاف کرنے والوں اوررکوع سجودکرنیوالوں کے لئے"۔ایک اورمقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے"اورعورتوں کوہاتھ نہ لگاﺅ جب تم مسجدوں میں اعتکاف کررہے ہو"۔کئی احادیث مبارکہ میں اعتکاف کاذکرملتاہے

حضرت علی (زین العابدین)بن حسین اپنے والدامام حسین ؓ سے روایت کرتے ہیںرسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا"جس شخص نے رمضان میں دس دن کااعتکاف کیااسکاثواب دوحج اوردوعمرہ کے برابرہے"۔ (بیہقی،شعب الایمان،باب الاعتکاف)

حضرت امام حسین ؓ نے فرمایاکہ آقاﷺ فرمایاکرتے تھے کہ جوشخص دس روزرمضان میں اعتکاف بیٹھے گاتوایساہے جیسے وہ(آدمی)دوحج اوردوعمرے کرے۔سرورکائنات ﷺ فرمایاکرتے تھے کہ جوشخص اللہ کی رضاکے لئے ایک دن ہی اعتکاف بیٹھے گاتواللہ تعالیٰ اسکے اوردوزخ کے درمیان تین خندقیں آڑبنادیگاجنکی مسافت زمین آسمان کی مسافت سے زیادہ ہے ۔حضوراکرم ﷺ فرمایاکرتے تھے کہ جوشخص مسجدجماعت میںمغرب اورعشاءکے درمیان اعتکاف کرے نمازاورتلاوت قرآن کے سواکلام نہ کرے اللہ کے ذمہ کرم پرہے کہ جنت میں اسکامحل تیارکرے ۔

حضورنبی کریم ﷺ اعتکاف کی خودپابندی فرمایاکرتے تھے۔جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیاکہ حضورﷺ ہرسال دس دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے جس سال آپﷺ کودنیاسے(ظاہراََ) تشریف لے جاناتھاآپﷺ نے بیس دن کااعتکاف کیاتھا"

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ"حضورﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے لیکن ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے توآنے والے سال آپﷺ نے بیس دن کااعتکاف کیا"۔حضورﷺ کے دنیاسے ظاہراََپردہ فرمانے کے بعدعام لوگوں نے اس سنت پرعمل کیااورآج تک کررہے ہیں لیکن خاص طورپرحضورﷺ کی یادمیں ازواج مطہرات نے اسکی پابندی کی۔

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں "حضورﷺ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کیاکرتے تھے یہاں تک آپ دنیاسے( ظاہراََ) تشریف لے گئے پھرآپﷺکی بیویوں نے آپکے بعداعتکاف کیا۔ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں اورمسجدمیں نہیں ۔خواتین کے لئے اعتکاف کی جگہ وہی جگہ ہے جوانہوں نے نمازکے لئے مقررکررکھی ہے ۔ام المومنین سیدتناعائشہ الصدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں"معتکف کے لئے شرعی دستوراور ضابطہ حیات یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے،نہ کسی جنازے کے ساتھ جائے،نہ اپنی بیوی کوچھوئے اورنہ اس سے مباشرت کرے اورغیر ضروری حاجت کے علاوہ اعتکاف گاہ سے نہ نکلے۔(ہاں اگرگزرتے گزرتے بلاتوقف بیمارکی عیادت کی جائے توجائزہے)۔ ابوداﺅد
معتکف کوچاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارے ۔لیکن خاص کرشب قدرکوتلاش کرنے کے لئے ،اکیس ،تئیس،پچیس،ستائیس، انتیس کی راتیں جاگ کرگزارے کیونکہ جوشخص شب قدرمیں عبادت کرتاہے تواسکے بارے میںحضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا"جوشخص لیلة القدرمیں حالت ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کرتاہے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں"۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کی آمدپرحضورﷺنے ارشادفرمایا۔"یہ ماہ جوتم پرآیاہے اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیاگویاوہ ساری خیرسے محروم رہااوراس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جوواقعتا ََمحروم ہو"یہ رات کتنی عظمت والی ہے ۔واقعی وہ انسان کتنابدبخت ہے جواتنی بڑی نعمت کوغفلت کی وجہ سے گنوادے۔ہم معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کرگزارلیتے ہیں تواَسّی80سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگناکوئی زیادہ مشکل کام تونہیں۔
اعتکاف بیٹھنے کی درج ذیل شرائط ہیں۔

مسلمان ہونا،اعتکاف کی نیت کرنا،حدث اکبر(یعنی جنابت) اورحیض ونفاس سے پاک ہونا ،عاقل ہونا،مسجدمیں اعتکاف کرنا،اعتکاف واجب (نذر) کے لئے روزہ بھی شرط ہے۔دوران اعتکاف درج ذیل امورسرانجام دینے چاہیںقرآن حکیم کی تلاوت،درودشریف پڑھتے رہنا،علوم دینیہ کاپڑھنایاپڑھانا،وعظ نصیحت یااچھی باتیں کرنا،قیام اللیل،ذکرواذکارکی کثرت کرنا۔

شرعی ضروریات جن کے لئے معتکف کامسجدسے نکلناجائزہے وہ ضروریات درج ذیل ہیں
وضوجبکہ مسجدمیں رہتے ہوئے وضوکرناممکن نہ ہواگرمسجدمیں وضوکی ایسی جگہ موجودہے کہ معتکف خودتومسجدمیں رہے لیکن وضوکاپانی مسجدسے باہرگرے تووضوکے لئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں اگرمسجدمیں ایسی جگہ موجودنہیں تووضوکے لئے مسجدسے کسی قریبی جگہ پرجاناجائزہے ،غسل جنابت جبکہ مسجدکے اندرغسل کرناممکن نہ ہومعتکف کوصرف احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل جنابت کے لئے مسجدسے باہرجاناجائزہے ۔جبکہ مسجدکے اندرغسل کرناممکن نہ ہویامشکل ہوتوغسل جنابت کے لئے باہرجاسکتاہے ۔غسل جنابت کے علاوہ کسی اورغسل کے لئے مسجدسے باہرنکلناجائزنہیں جمعہ کے غسل یاٹھنڈک کی غرض سے غسل کرنے کے لئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں اگرجائے گاتواعتکاف ٹوٹ جائے گا۔پیشاب پاخانے کی ضرورت کے لئے مسجدسے باہرجاسکتاہے جہاں تک پیشاب کاتعلق ہے اس کے لئے مسجدکے قریب ترین جگہ جس جگہ پیشاب کرناممکن ہووہاں جاناچاہیے ۔ اگرمسجدکے ساتھ کوئی بیت الخلاءبناہواہے اوروہاں قضائے حاجت کرناممکن ہے تواس میں قضائے حاجت کرے کہیں اورنہ جائے ۔اگرکوئی اعتکاف میں بیٹھاہے اوراسے اذان دینے کے لئے مسجدسے باہرجاناپڑے تواسکے لئے جائزہے مگراذان کے بعدٹھہرے نہ فوراًمسجدمیں آجائے۔بہتریہی ہے کہ اعتکاف ایسی مسجدمیں بیٹھاجائے جس میں نمازجمعہ ہوتی ہوتاکہ جمعہ کے لئے باہرنہ جاناپڑے اگرکسی مسجدمیں نمازجمعہ نہیں ہوتی پانچ وقت کی نمازہوتی ہے اس میں بھی اعتکاف بیٹھناجائزہے ۔ایسی صورت میں نمازجمعہ پڑھنے کے لئے دوسری مسجدمیں جاناجائزہے لیکن نمازجمعہ کے لئے ایسے وقت میں نکلے جب اسے اندازہ ہوکہ جامع مسجدپہنچنے کے بعدچاررکعت سنت اداکرلے گاتواس کے بعدفوراًخطبہ عربی شروع ہوجائے گا،اگرکھانے پینے کی اشیاءلانے والاکوئی شخص نہ ہوتوکھانالینے کے لئے مسجدسے باہرجاسکتاہے لیکن کھانالیکرمسجدہی میں کھائے ،ہرمعتکف کے لئے ضروری ہے کہ جس مسجدمیں اعتکاف شروع کیااسی مسجدمیں ہی پوراکرے لیکن اگرکوئی شدیدایسی مجبوری آجائے کہ وہاں اعتکاف پوراکرناممکن نہ رہے یعنی مسجدمنہدم ہوجائے یاکوئی زبردستی وہاں سے نکال دے یاوہاں میں جان ومال کاخطرہ ہووہ دوسری مسجدمیں منتقل ہوکراعتکاف پوراکرسکتاہے بشرطیکہ وہاں سے نکلنے کے بعدراستے میں نہ ٹھہرے فوراًدوسری مسجدمیں چلاجائے ۔ان ضروریات کے علاوہ کسی اورمقصدکے لئے باہرجانامعتکف کے لئے جائزنہیں ۔

وہ کام جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔
جن ضروریات کااوپرذکرکیاگیاہے ان کے سواکسی اورمقصد سے اگرکوئی حدودمسجدسے باہرنکل جائے چاہے یہ باہر نکلناایک ہی لمحے کے لئے ہوتواس سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔مسجدسے نکلنااسوقت کہاجائے گاجب پاﺅں مسجدسے اس طرح باہرنکل آئیں کہ اسے عرفاًمسجدسے نکلناکہاجاسکے لہذااگر صرف سرمسجدسے باہرنکال دیاجائے تواس سے اعتکاف فاسدنہیں ہوگا۔بلاضرورت شرعی مسجدسے باہرنکلناچاہے جان بوجھ کرہویابھول کرغلطی سے ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔حالت اعتکاف میں جماع کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے چاہے یہ جماع جان بوجھ کرکرے یابھول کر دن میں کرے یارات میں مسجدمیں کرے یامسجدسے باہراس سے انزال ہویانہ ہواعتکاف ٹوٹ جائیگا۔اگرعورت اعتکاف میں ہوتوحیض ونفاس کاجاری ہوجانے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔کسی عذرکے بغیراعتکاف گاہ سے باہرنکل کرضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔اعتکاف کے لئے چونکہ روزہ شرط ہے اس لئے روزہ توڑدینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ان سب صورتوں میں اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔

وہ امور جومکروہات اعتکاف ہیں
بالکل خاموشی اختیارکرناکہ ذکرونعت اوردعوت و تبلیغ کی بجائے خاموش رہنے کوعبادت سمجھاتویہ مکروتحریمی ہے کیونکہ شریعت میں بالکل خاموش رہناکوئی عبادت نہیں اگربری باتوں سے خاموش رہاتووہ اعلیٰ درجہ کی چیزہے۔مال واسباب مسجدمیںلاکربغرض تجارت بیچنایاخریدنابھی مکروہ ہے ۔لڑائی جھگڑایابیہودہ باتیں کرنا۔اعتکاف کے لئے مسجدکی اتنی جگہ گھیرلیناجس سے دوسرے معتکفین یانمازیوں کوتکلیف ہو۔

درج ذیل صورتوں میں اعتکاف توڑناجائزہے
اعتکاف کے دوران کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجائے جسکاعلاج اعتکاف گاہ سے باہرجانے کے بغیرممکن نہ ہوتواعتکاف توڑناجائزہے ۔
کسی ڈوبتے یاجلتے ہوئے آدمی کوبچانے یاآگ بجھانے کے لیے بھی اعتکاف توڑکرباہرنکل آناجائزہے۔
ماں ،باپ یابیوی میں سے کسی کی سخت بیماری کی وجہ سے اعتکاف توڑناجائزہے ۔
والدین،بہن بھائی یاکوئی عزیزاچانک فوت ہوجائے تواسکی تجہیزوتکفین کے لئے اعتکاف توڑدیناجائزہے۔
اگرکسی معتکف کوکوئی زبردستی مسجدسے نکال دے یاحکومت اعتکاف میں گرفتارکرلے تواعتکاف ٹوٹ جائے گامگراس صورت میں متعکف پراعتکاف توڑنے کاگناہ نہ ہوگا۔

اعتکاف ٹوٹنے کاحکم
مذکورہ بالاوجوہات میں سے جس وجہ سے بھی اعتکاف مسنون ٹوٹاہوااس کاحکم یہ ہے کہ جس دن میں اعتکاف ٹوٹاہے ۔صرف اس دن کی قضاواجب ہوگی پورے دس دن کی قضاواجب نہیں ۔(شامی)اس دن کی قضاکاطریقہ یہ ہے کہ اسی رمضان میں وقت باقی ہوتواسی رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضاءکی نیت سے اعتکاف کرلیں ۔اگراسی رمضان میں وقت باقی نہ ہوتویاکسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہوتو رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کرایک دن کے لئے اعتکاف کیاجاسکتاہے ۔اگلے سال رمضان میں بھی قضاءکرلے توصحیح ہوگا۔لیکن زندگی پربھروسہ نہیں اس لئے جلدقضاکرنی چاہیے۔اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کے بعدمسجدسے باہرنکلناضروری نہیں لیکن عشرہ اخیرہ کے باقی ماندہ ایام میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھاجاسکتاہے ۔اس طرح سے سنت مﺅکدہ توادانہیں ہوگی لیکن نفلی اعتکاف کاثواب ملے گا۔

عورت کے لئے اعتکاف کے مسائل
عورت کومسجدمیں اعتکاف نہیں کرناچاہیے بلکہ اس کااعتکاف گھرہی میں ہوسکتاہے ۔وہ اسطرح کہ گھرمیں جوجگہ نمازپڑھنے اورعبادت کرنے کے لئے بنائی ہوئی ہے اس جگہ میں اعتکاف بیٹھ جائے ۔
گھرمیں نمازکے لئے کوئی مستقل جگہ نہ بنائی ہوتوگھرکے کسی حصہ کوعارضی طورپراعتکاف کے لئے مخصوص کرکے وہاں عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے ۔
عورت کے لئے ضروری ہے کہ حیض اورنفاس سے پاک ہو۔
اگرعورت شادی شدہ ہے توشوہرسے اجازت لیناضروری ہے شوہرکی اجازت کے بغیراعتکاف میں بیٹھناجائزنہیں ۔فتاوٰی شامی
اگرشوہرنے پہلے اعتکاف کی اجازت دے دی اورعورت نے اعتکاف شروع کردیااب اگرشوہرمنع کرناچاہے تواب منع نہیں کرسکتااگرمنع کرے گاتوبیوی کے ذمہ اس کی تعمیل واجب نہیں ۔
گھرمیں جہاں پرعورت نے اعتکا ف کیاوہ اس کے لئے دوران اعتکاف مسجدکے حکم میں ہے ۔وہاں سے شرعی ضرورت کے ہٹناجائزنہیں
عورتیں دوران اعتکاف اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سینے پرونے کاکام کرسکتی ہیں گھرکے کاموں میں دوسروں کوہدایت بھی دی سکتی ہیں مگرخوداٹھ کرنہیں جاسکتیں دوران اعتکاف بہتریہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت ذکرواذکاراورنفلی عبادات میں مصروف رہیں ۔

اللہ پاک ہم کوآقاﷺکے اسوہ حسنہ پرچلنے اورعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 274901 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.