جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ قسط نمبر ۔۳

چل چل چنبیلی باغ میں

سنگاپور میں ہماری تربیت جاری رہی اور آخر کار جمعہ کا دن بھی آگیا۔ اس روز ہم الارم بجنے سے کوئی پانچ منٹ پہلے ہی بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پطرس بخاری صاحب کی طرح غسل خانے میں دیر تک چل چل چنبیلی باغ میں گاتے رہے۔ آج جمعہ تھا یعنی اب سے کچھ ہی گھنٹے میں ہفتے کا اختتامیہ شروع ہورہا تھا۔ پاکستان میں چونکہ ہفتہ وار چھٹی کا صرف ایک ہی دن معین ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر لوگ جمعے کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر ہم نے یہ رمز جانا تھا۔ جمعہ کی صبح ہی سے وہاں پر لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ ٹی جی آئی ایف۔کلاس روم میں پہنچتے ہی ہم نے بورڈ پرچاک سے ٹی جی آئی ایف لکھ دیا۔ جو لوگ صاحبِ کشف تھے فوراً سمجھ گئے۔ ہمارے انسٹرکٹر صاحب بھی جو جرمن تھے اور’ گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو تھے‘ ، مسکرادیئے ۔ اور بورڈ پر اس کے سامنے پورا جملہ لکھ مارا۔
تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔

خیر صاحب! آج ایک گھنٹہ پہلے چھٹی ہونی تھی۔ نہیں بتا سکتے کہ کس طرح انگاروں پر یہ وقت گزارا۔ چھٹی ہوتے ہی ، فائل وغیرہ کو بغل میں داب، ویگن میں آن بیٹھے اور آن کی آن میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ابھی سہہ پہر کی دھوپ ڈھلنا شروع ہوئی تھی۔ کمرے میں پہنچے تو آج نوٹ کیا کہ پردے کھنچے ہوئے تھے اور شیشے میں سے سہہ پہر کی تیز روشنی کمرے میں آرہی تھی۔

ہم نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارا کمرہ ہوٹل کی دسویں منزل پر تھا اور یہاں سے ہمیں چھٹی منزل پر بنا ہوا سو ئمنگ پول صاف نظر آرہا تھا۔اس وقت اس سوئمنگ پول میں دو عدد جل پریاں دو صورت حرام مردوں کے ساتھ چہلیں لگارہی تھیں۔بقول چچا غالب
جنوں کی دستگیری کس سے ہو، گر ہو نہ عریانی

دل تو چاہا کہ یہیں سے چھلانگ مار کر سوئمنگ پول کے اندر پہنچ جائیں، لیکن کیا کرتے، ہمارے سامان میں سوئمنگ کاسٹیوم نہیں تھا۔ کان پکڑ کر باہر نکال دیے جاتے۔ ہم نے فوراً اپنی خریداری لسٹ میں سوئمنگ کاسٹیوم کا اضافہ کیا اور طنطناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ چودھری صاحب کو بتایا تو وہ ابھی اسی وقت سوئمنگ پول کی طرف جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا کہ بھائی جان آپ تو تیرنا بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ پول کے باہر اپنے پورے کپڑوں میں بیٹھے تماشا کرنا چاہیں گے؟ خود بھی تماشا بنیں گے اور ہمیں بھی پول نکالا دلوائیں گے۔

طے پایا کہ آج کا باقی دن کمپیوٹر کی خریداری پر لگایا جائے اور کل بروز ہفتہ ژورونگ برڈ پارک جاکر رنگ برنگے پرندوں سے جی بہلائیں گے۔اس زمانے میں سم لم اسکوائر ابھی نہیں بنا تھا۔ الیکٹرانکس کی تمام اشیاء سم لم ٹاور سے یا پھر کمپیوٹر کی قبیل کی اشیاء نارتھ برج روڈ پر واقع فونان سنٹر سے مل سکتی ہیں۔ پہلے بس میں بیٹھ کر بوکے تیما روڈ اور سرنگوں روڈ کے سنگم پر واقع سم لم ٹاور پہنچے اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ پھر فونان سنٹر پہنچ کر ایک دکاندار سے بھائو تائو شروع کیا۔

پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں دکان پر پہنچ کر دکاندار سے کہا تھا کہ ایک کموڈور کمپیوٹر چاہئے اور اس نے شیلف سے ایک عدد سیل بند ڈبہ نکال دیا تھا جسے لے کر خوشی خوشی ہوٹل آگئے تھے۔ یہاں پر جب ہم نے دکاندار سے کہا کہہ ہمیں ایک کمپیوٹر درکار ہے تو وہ پہلے تو حیران ہوکر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا
’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جیساایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔‘‘
بولا’’ کچھ جزیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔‘‘
ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔‘‘

وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں ۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔

اس بار ہم اسکی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچائو کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا ، جس کی جزیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پرہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے اسے پیسوں کی نقد ادائیگی کردی اور مال کے طالب ہوئے، بولا۔’’ کمپیوٹر آپ کو ایک ہفتے بعد ملے گا۔ اس عرصے میں میں اسے آپ کے لیے اسمبل کروں گا اور پورا ہفتہ اپنی دکان پر اسے ٹسٹ کروں گا۔‘‘

ہم نے کہا ’’ یہ عجب کہی تم نے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ہاتھ کے ہاتھ دکان سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔‘‘

لیکن صاحب ہماری ایک نہ چلی۔ اس ناہنجار نے ہماری باتوں کو سمجھنے سے صاف انکار کردیا اور ہم ناکام و نامراد وہاں سے واپس مڑے، اگلے ہفتے تک انتظار کی کوفت اٹھانے کے لیے۔

خیر صاحب، اس بڑے کام سے فارغ ہوئے تو پھر چائنا ٹاون سیر کی سوجھی۔ نارتھ برج روڈ سے ہوتے ہوئے چائنا ٹاون پہنچے۔ لٹل انڈیا کی طرح چائنا ٹائون کا بھی اپنا ایک نرالا انداز ہے۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی چائنیز دکانیں کھلی ہیں۔ کہیں چائنیز جڑی بوٹیاں بک رہی ہیں تو کہیں چائنیز کھانوں کے اسٹال ہیں۔چائینیز کھانوں کیناقابلِ برداشت بو سے دماغ پکا جاتا ہے۔ دکانوں میں سجاوٹ کا چائنیز سامان بک رہا ہے، اسلئے کہ سنگاپور میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی تہوار منایا جارہا ہوتا ہے۔ چائنیز نئے سال کے موقعے پر تو چائنا ٹائون کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے اور یہ سجاوٹ دیدنی ہوتی ہے۔ ہم چونکہ جولائی میں سنگاپور پہنچے تھے اور اگست میں سنگاپور کا قومی دن منایا جانا طے تھا، لہٰذا آجکل اس تہوار کی خوشی میں سجاوٹ کی جارہی تھی۔ اس زمانے کا ایک مشہور گیت جو ہمیں بہت پسند آیا تھا وہ تھا ‘‘ وی آر سنگاپور’’ یعنی ہم سنگاپور ہیں۔ ہمیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ ہم نے اس گیت پر مشتمل ایک عدد کیسٹ خرید لیا اور وطن واپس پہنچ کر اکثر اسے سنا کرتے اور سنگاپور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔
وی آر سنگاپور
سنگاپورینز
سنگاپور آور ہوم لینڈ
اٹس ہیئر دیٹ وی بیلونگ
آل آف اس یونایئٹڈ
ون پیپل مارچنگ آن
ان انگریزی الفاظ کے لفظی ترجمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کی جائے تو امجد حسین کا گایا ہوا مندرجہ ذیل پاکستانی نغمہ بن جاتا ہے۔
ہم زندہ قوم ہیں
پایئندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان
ہم سب کا پاکستان، پاکستان، پاکستان
ہم سب کا پاکستان

چائنا ٹاون میں رات کے وقت چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک بازار سجتا ہے جو سیاحوں کی خاص دلچسپی کا باعث ہوتا ہے ۔ اس میں چھوٹی بڑی یادگاری چیزیں وغیرہ رکھی ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں ۔رات گئے تک ہم اس بازار میں آوارہ گردی کرتے رہے آخر کار تھک ہار کر ہوٹل پہنچے ۔
ہفتے کے روز صبح سویرے ، یعنی دس بجے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور مفت ناشتہ کو یقینی بناتے ہوئے ساڑھے دس بجے سے پہلےہی ریسٹورینٹ میں داخل ہوگئے۔ اگر پانچ منٹ اور دیر سے اٹھتے تو ہمیں اس کی پاداش میں ناشتے کے لیے کچھ سنگاپوری ڈالر خرچ کرنے پڑ ہی جاتے۔ناشتے کے فوراً بعد ہم نے چودھری صاحب کی معیت میں بس پکڑی اور اپر بوکے تیما روڈ پر شمال کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ سنگاپور باغوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کا شہر ہے۔ مشہور باغوں میں زولوجیکل گارڈن، بوٹانیکل گارڈن، چائنیز اور جاپانیز گارڈن ژورونگ برڈ پارک اور جزیرہ سینتوسا شامل ہیں۔ برڈ پارک میں رنگ برنگ کے خوشنما پرندے اپنی شان دکھا رہے ہوتے ہیں۔

برڈ پارک پہنچے تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک ٹرینر اپنے سدھائے ہوئے اژدھے کو لیے ہوئے ایک عجیب شو دکھا رہا تھا۔ وہ اپنا اژدھا اطمینان کے ساتھ سیاح کے گلے میں ڈال دیتا اور اس کی تصویریں کھینچ کر اس سے پیسے وصول کرلیتا۔ بہادر تو ہم بچپن سےہی ہیں، اس دن اپنی بہادری کو آزمانے کا خیال آیا تو خم ٹھونک کر اژدھے والے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اس ناہنجار نے بھی آئو دیکھا نہ تائو ، اور اپنا خوفناک اژدھا اٹھا کر ہمارے گلے میں ڈال دیا۔ یہ شاید ہماری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ واہ میاں یہ بھی خوب رہی ۔ بلی کی بلا طویلے کر سر۔ ہمیں تو اس وقت صحیح محاورہ تک یاد نہیں آرہا تھا۔ خدا جانے کتنے گھنٹے وہ بلا ہمارے گلے سے لپٹی رہی اور وہ ناہنجار سپیرا مختلف پوز بنا بنا کر ہماری تصویریں کھینچتا رہا۔ادھر چودھری صاحب بھی مختلف زاویوں سے ہمیں دیکھ دیکھ کر ہماری اس بے بسی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ہمیں جتنی دعائیں یاد تھیں ، ہم نے وہ سب دل ہی دل میں دہرانا شروع کردیں۔ آخر کار خدا خدا کرکے اس مصیبت سے نجات ملی اور سپیرے نے اس خظرناک ترین اژدھے کو ہمارے گلے سے نکالا تو ہم نے یوں زندہ بچ جانے پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا ، جوں توں کرکے کانپتے ہاتھوں سے اپنا پرس نکالا اور منہ مانگے ڈالر اس موذی کی نظر کیے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں وہ دوبارہ اس اژدھے کو ہمارے گلے نہ منڈھ دے۔ اب چودھری صاحب کی باری تھی لیکن وہ اس مشکل صورتِ حال میں پھنسنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوئے اور بھاگ کر سپیرے کی پہنچ سے دور جاکھڑے ہوئے۔

آگے بڑھے تو شہباز کے شو کا وقت ہوچلا تھا۔ ایک کھلی جگہ پر لوگ شہباز کے ٹرینر کو گھیرے کھڑے تھے۔ اس نے لوگوں کو دور ایک اونچے درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بنا یا ہوا شہباز کا بسیرا دکھایا اور اعلان کیا کہ شہباز اس کی آواز پر لپکتا ہوا اس کے پاس آئے گا اور اس کے ہاتھ سے گوشت کی بوٹی لے جائے گا۔ اور یوں ہی ہوا۔ وقتِ مقررہ پر شہباز کے گھر کا دروازہ کھولا گیا، ٹرینر نے اسے پکارا اور وہ ایک اونچی اڑان لے کر جھپٹتا ہوا آیا اور ٹرینر کے ہاتھ سے گوشت کا پارچہ لے اڑا۔ پھر جب وہ اس پارچے کو اطمینان سے کھا چکا تو ایک لمبی اڑان لے کر دوبارہ اپنے ٹرینز کے کندھے پر آبیٹھا اور داد سمیٹی۔ہم نے بھی ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر خوب دل کھول کر اس پرندے کو اور اس کے ٹرینر کو سراہا۔ ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا جو انھوں نے شاید ہمارے سنگاپور کے اس سفر میں شہباز کے اس مظاہرے کے لیے ہی لکھا تھا۔
جھپٹنا، پلٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

سنگاپور آکر نقلی رنگین پرندے تو بہت دیکھے تھے، یہاںپر آکر ہم نے جی بھر کے اصلی رنگین پرندے دیکھے ۔ جب یہاں سے خوب دل بھر گیا تو ہم نے روانگی کا پروگرام بنایا اور وہاں سے نکل کر سیدھے جزیرے کی دوسری جانب ، چائنا ٹاون کے قریب دریائے سنگاپور کے کنارے پہنچے۔ نارتھ برج روڈ اور سائوتھ برج روڈ کے سنگم پر دریا کے اوپر ایک نہایت خوبصورت پل بنایا گیا ہے اور اسی پل کی مناسبت سے ان دونوں سڑکوں کا نام رکھا گیا ہے۔ وہیں سے ہم پیدل چلتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں پر سر اسٹیمفورڈ ریفلز نے پہلی مرتبہ سنگاپور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یہاں اب حکومت نے سر ریفلز کا ایک قد آدم مجسمہ کھڑا کردیا ہے جو اس واقعے کی یاد دلاتا ہے۔

اب سے سینکڑوں سال پہلے جب علاقے میں ملاکا کی اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ علاقے کی ایک قابلِ ذکر تجارتی منڈی بن گیا ، تو سنگاپور اس سلطنت کا ایک حصہ بنا ، بالآخر ۱۵۱۱ ء میں ملاکا پرتگیز وں کے ہاتھوں فتح ہوا تو سنگاپور اس کی عملداری سے نکل کر جوہور بھارو کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ ۱۸۱۹ء میں سر ٹامس اسٹیمفورڈ بنگلے ریفلز نے اس جزیرے پر اتر کر اسے برطانوی عملداری میں دیدیا۔

جنگِ عظیم دوم کے بعد اسے ۱۹۴۹ میں محدود خود مختاری دی گئی۔ پھر جب ۱۹۶۵ ء میں برطانوی حکومت نے اس علاقے کو چھوڑا اور ملائشیا آزاد ہوا تو اسے بھی ملائشیا سے الگ کرکے ایک الگ ریاست کی شکل دیدی گئی۔

یہاں سے چلے تو مرلائن پارک پہنچے جہاں پر سنگاپور دریا کے دہانے پر مر لائن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس کا سر شیر کا اور دھڑ مچھلی کا ہے۔ یہ سنگاپور کا قومی نشان ہے۔ کچھ دیر تو ہم اس مجسمے کے منھ سے ابلتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے اور پھر ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔
M. Khalil ur Rahman
About the Author: M. Khalil ur Rahman Read More Articles by M. Khalil ur Rahman: 15 Articles with 17918 views http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A8%D9%82%D9%84%D9%85-%D8%AE%D9%88%D8%AF%DB%94-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%84.. View More